یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ہمیں جہیز میں دو ایسے دشمن مل گئے جو بہادر تو نہیں مگر کم ظرف ضرور ہیں۔ بھارت سے تو خیر ہمیں گلہ نہیں مگر افغانستان وہ واحد مملکت تھی جس نے سب سے آخر میں پاکستان کو تسلیم کیا۔ سال ہا سال تک ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کیا گیا پھر پشتون تنظیموں کو پاکستان کے خلاف بھڑکایا گیا اور جب روس نے افغانستان پر قبضے کی کوشش کی تو پھر ایک دفعہ مذہب کو بلیک میلنگ کے طور پر استعمال کیا گیا اور پچاس لاکھ سے زائد معاشی امیگرینٹس کو پاکستان میں معاشی پناہ دے دی گئی جو اپنے ساتھ اپنے ٹرک، ٹریلر، کنٹینر اور بھیڑ بکریوں سمیت ملک کے طول و ارض میں پھیل گئے اور ان پناہ گزینوں نے جو اپنے ساتھ ہزاروں من ہیروئن اور دیگر منشیات لائے تھے اور اس نشے سے پاکستانی یوتھ اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو ناکارہ بنا دیا مگر ہم یہ سب اسلامی بھائی چارے کے نام پر سہتے رہے۔ افغانستان کی رو س سے جان تو چھوٹ گئی مگر پھر وہ رجعت پسندوں کے ہاتھ یرغمال بنا اور پھر نائن الیون کے سانحہ کے بعد امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جس کے ردعمل میں پاکستان میں مقیم طالبان مہاجرین نے ہمارے قومی استحکام اور سالمیت کو شدید نقصان پہنچایا مگر پاکستان کی بہادر افوا ج کی بہتر حکمت عملی کی وجہ سے اور دس ہزارعسکری جوانوں کی جان کے نذرانے اور نوّے ہزار سے زائد سویلین شہدا کی قربانیوں کو بھی یہاں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس دوران سانحہ اے پی ایس پشاور رونما ہوا اور پھر پاکستان کی بہادر فوج نے دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا اور پشتونوں کی خواہش کے مطابق فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا مگر اس دوران حامد کرزئی اور اشرف غنی دونوں کی حکومتوں نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ مل کر سازشیں شروع کر دیں اور بلوچستان کے حساس ایشو کو انہی دو ممالک کی سپورٹ حاصل رہی مگر جب آئی ایس آئی نے کلبھوشن جیسے ناسور کو پکڑ لیا تو افغانستان اور بھارت کی ملی بھگت سے خیبر پختونخواہ میں منظور پشتین ،محسن داوڑ اور علی وزیر جیسے بدنام زمانہ منشیات کے سمگلروں کو قومی ہیروز کا رتبہ دے کر پاکستان کے خلاف میدان میں چھوڑ دیا گیا اور قوم کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی دیرینہ خواہش پر عمل کرتے ہوئے رسوائے زمانہ پوپلزئی پیکیج استعمال کیا گیا اور اس بار خصوصاً جبکہ قوم کو اخوت اور بھائی چارے کی شدید ضرورت تھی عین اس وقت احادیث نبویؐ اور فرمانِ رسولؐ سے رو گردانی کرکے اٹھائیسویں روزے کے بعد غیر فطری عید کا اعلان کر دیا گیا اور اس سازش میں وزیراعظم عمران خان کے ماڈل صوبہ خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ سمیت پوری صوبائی حکومت کو اس سازش میں شریک کرکے پاکستان کی قومی سالمیت پر کاری ضرب لگائی گئی۔قارئین!عرصہ دراز سے افغانستان سے درانداز ہونے والے ڈاکو پنجاب کو لوٹتے ، روندتے اورعزتیں پامال کرتے چلے آئے ہیں اور یہ ہماری اسلام سے لگن اور محبت کا درس ہے کہ ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی افغانستان کی طرف سے آنے والی گرم ہوائوں کو درگزر کرتے آئے ہیں مگر اب جب کہ پاکستان کی سالمیت شدید خطرے میں ہے ہم اپنی پاک افواج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں مگر مجھے ذاتی حیثیت میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اس بات پر شدید اختلاف ہے کہ فوج کے بجٹ میں اضافہ نہ کیا جائے۔ ہماری بہادر افواج کے چیف کمانڈر سے دست بستہ عرض ہے کہ حالتِ جنگ میں نہ تو سپہ سالار تبدیل کیا جاتا ہے اور نہ ہی رسدوکمک میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ایک طرف ہماری فوج چومکھی لڑ رہی ہے۔ افغانستان، بھارت، ایران، اسرائیل اور امریکہ ہماری سالمیت کے درپے ہیں اور دوسری طرف جب ہم اپنی پاک افواج کا بجٹ ڈی سائز کریں گے تو ہم درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیسے کریں گے۔میرے سمیت بائیس کروڑ پاکستانی کسی شک کی گنجائش سے بالا تر ہو کر سپہ سالار پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں آزمائش کے ہر کڑے میں سے گزار لیں ہر پاکستانی مادرِ وطن کے لیے اپنی جان،مال وطن پر نچھاور کرنے کے لیے تیار ہے مگر ہم عزت و ناموس اور ملکی وقار کے مسئلہ پر کوئی بھی ڈیل یا ڈھیل دینے کو تیار نہیں۔ دنیا میں درجنوں ایسے ممالک پائے جاتے ہیں جن کی فی کس آمدنی پاکستان سے دس گنا زیادہ ہے اور جن کو معاشی عدم استحکام کا بھی خطرہ نہیں مگر وہ اس کے باوجود دنیا کے دو سو ممالک میں ان کی حیثیت اور وقار انتہائی نچلے درجے کا ہے۔ وہ اس لیے کہ ان ممالک نے اپنی عزتِ نفس بیچ کر معاشی ترقی کو فوقیت دی ہے مگرتاریخ ان ممالک کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گی شاید اسی موقع کے لیے حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
قارئین! آج جھورا جہاز بہت تپا ہوا تھا آتے ہی کہنے لگا کہ جب اس وقت تین درجن سے زائد اسلامی ممالک میں قمری کیلنڈرکا استعمال ہو رہا ہے تو پھر ہم صرف ملائوں کے کاروبار کو دوام دینے کے لیے جدید دور میں دقیا نوسی طریقے کیوں آزماتے رہیں۔ ہمیں یہاں فواد چوہدری کی کریڈیبلٹی سے زیادہ اس کی قمری کیلنڈر کے ایشو پر توجہ دلائو مہم کا ادراک ہے اور یہ کہ خیبرپختونخواہ کے صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی اور ان کے وزراء ساتھی کس بنیاد پر رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب کو ان کے عہدے سے ہٹا کر مفتی پوپلزئی کو نیا چیئرمین مقرر کرنے کی جسارت کررہے ہیں۔ جھورا جہاز کہہ رہا تھا کہ پاکستان ایک سُنی اسٹیٹ ہے جہاں کے 80فیصد عوام کا مسلک حنفی یا سُنی ہے جبکہ مفتی پوپلزئی جس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں وہ کل آبادی کے پانچ فیصد سے بھی زائد نہیں۔کچھ ممالک ہمارے ملک میں اپنی مرضی کا مذہب اور مسلک نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ مذہب اور مسلک کو پاکستان کے عوام کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ اگر ہم نے اسلام کے ان ٹھیکیداروں کو اپنے اوپر مسلط کیے رکھا تو یہ اپنی دُکانداری چمکانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مذہب کو وفاق کی سطح پر ہینڈل کیا جائے۔ تمام مساجد کو سرکاری تحویل میں لیا جائے اور سرکار ہی ان مساجد میںامام اور خطیب کی تقرریاں کرے اور جمعتہ المبارک اور عیدین کے خطبات سرکار کی طرف سے جاری ہوں اور اگر یہ سب ہو گیا تو ہماری اخوت اور بھائی چارے کو کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024