وہ اڑھائی برس کا تھا، جب 1938ء میں اُس کے والد کا انتقال ہوگیا ۔ شیر خوارگی میں ہی یتیم ہونے پر اُس پر دکھوں کے سائے کچھ اور گہرے ہوگئے، لیکن ماں نے عالی ہمت کے ساتھ محنت مزدوری کرکے اُسے اور اس سے بڑی تین بہنوں کو پالا۔ بچہ بڑا ہونہار تھا ، ماں کی محنت کو اُس نے ضائع نہیں جانے دیا اور کامیابی کے ساتھ تعلیم کی منزلیں طے کرلیں۔ 1959ء میں انگریزی ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد مختصر عرصے میں لیکچرر، صحافی اور سرکاری پی آر او کی مختلف ملازمتیں کرنے کے بعد 1964ء میں وہ مسلح افواج میں شامل ہوگیا۔ 1970ء میں اُسے میجرکے رینک پر ترقی دے کر ڈھاکہ میں تعینات کردیا گیا۔اُسکی مشرقی پاکستان میں تعیناتی کے دوران ہی سقوط ڈھاکہ کاسانحہ رونما ہوگیا اور اس میجر کو بھی جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ دوسال بھارتی اسیری میں رہنے کے بعد مشرقی پاکستان کے سانحے کے تناظر میں اُس نے دو اہم کتابیں لکھیں۔ ایک کتاب ’’ہمہ یاراں دو زخ ‘‘ تھی۔ دوسری کتاب ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ میں میجر نے لکھا کہ ’’میںسانحہ مشرقی پاکستان سے کافی عرصہ پہلے ڈھاکا پہنچا تو ہوائی اڈے پر ایک بنگالی نے میرے لیے قلی کا کام سرانجام دیا، میں نے اُس بنگالی کو کچھ پیسے دینے چاہے تو ہوائی اڈے پرمجھے لینے کیلئے پہنچنے والے فوجی افسر نے کہا: سر! ان حرام زادوں کا دماغ خراب نہ کریں‘‘۔ استقبال کیلئے آنیوالے ساتھی فوجی افسر کے اِس کرخت ’’تخاطب اور کلام‘‘پر ششدر رہ جانیوالا شستہ گو فوجی افسر کوئی اور نہیں بلکہ صاحب طرز لکھاری اور ادیب بریگیڈیئر (اُس وقت میجر) صدیق سالک شہید تھا۔
بریگیڈیئر صدیق سالک کے تحریر کردہ اِس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قیام پاکستان کے صرف پندرہ بیس سال بعد ہی پاکستان کے دونوں بازؤوں کے باسیوں کے درمیان تعلقات اور ایک دوسرے کے بعد سوچ کتنے پہلو اور زاویے بدل چکی تھی! اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ پاکستان کے مقتدر طبقے نے اس بات کو یکسر بھلادیا تھا کہ انگریزوں اور ہندوئوں کے جبر کے شدید احساس نے بنگالی مسلمانوں میں سیاسی شعور کی سطح کو بلند کیا تھا ، اسی سیاسی شعور کے سبب 1906ء میں ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی اور بنگالیوں نے اس سیاسی شعور کو تحریکِ پاکستان کے قالب میں ڈھال دیاتھا،لیکن اب وہی بنگالی ایک خاص سوچ رکھنے والوں کیلئے ’’حرام زادے‘‘ بن چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ پھر وہی ہوا جس کا کسی نے خیال تک نہ کیا تھا کہ جن بنگالیوں نے 1947 میں پاکستان بنایا وہ قیام پاکستان کے محض 24 سال بعد پاکستان سے الگ ہونے پر مائل ہوگئے یا مائل کردئیے گئے؟لیکن جب تک اس خطرے کی شدت کا احساس ہوا تو اُس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔اسی احساس کو بریگیڈیئر صدیق سالک نے اپنی کتاب میں ایک دوسری جگہ اِس طرح لکھا ہے کہ ’’میں ڈھاکا پہنچا تو مجھے میرے فوجی ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ رہنے کے لیے بھاری سامان نہ خریدنا کیونکہ پتا نہیں ہمیں کس وقت یہاں سے جانا پڑ جائے‘‘۔
دشمن تو بلاشبہ تھا ہی کسی موقع کی تاڑ میں لیکن اپنی غلطیوں سے ہم نے یہ موقع پلیٹ میں رکھ کر دشمن کو پیش کردیا، یوں ہماری غلطیوں سے فائدہ اٹھاکر دشمن نے مشرقی پاکستان کے رہنے والوں میں احساس محرومی اور احساس ’’غلامی‘‘ کو خوب پروان چڑھایا اورسانحہ مشرقی پاکستان کے بعد دشمن نے نظریہ پاکستان کو بحر ہند میں غرق کرنے کا مکروہ نعرہ بھی لگایا، لیکن اس کے باوجود بھارت نے پاکستان توڑنے میں اپنے کردار کو کبھی تسلیم نہ کیا تھا، مگر اب پینتالیس برس بعد سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے لیے بنگلہ دیش کی جانب سے اعلیٰ ترین ایوارڈ اور بنگلہ دیش بنانے میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے بیان کے بعد اب شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ اِس خطے میں بھارت کی بدمعاشی اور دادا گیری کسی ردعمل کا نتیجہ ہے نہ ہی یہ حال ہی میں منکشف ہونے والی کوئی نئی چیز ہے بلکہ بھارتی نیتاؤں کے حالیہ بیانات تو ثابت کرتے ہیں کہ بھارت کبھی پاکستان کا وجود برداشت نہیں کرپایا۔ اسی لیے تو اپنے دورہ بنگلہ دیش میں بھارت کے موجودہ وزیراعظم نے سینہ تان کر کہا کہ ’’بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی، ہر بھارتی چاہتا تھا کہ آزاد بنگلہ دیش کا خواب حقیقت بنے،جب بنگلہ دیش کے آزادی کی لڑائی لڑنے والے بنگلہ دیشی اپنا خون بہا رہے تھے، تو بھارتی بھی انکے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کر رہے تھے اوراس طرح بھارتیوں نے بنگلہ دیش کا خواب پورا کرنے میں مدد کی‘‘۔وزیر اعظم مودی نے یہاں تک انکشاف نما اعتراف کیا کہ ’’سال 1971ء میں جب بنگلہ دیش کی آزادی کے جنگجوؤں کی حمایت میں دہلی میں ستیہ گرہ تحریک چلی تھی تو ایک نوجوان رضاکار کے طور پر وہ بھی اس میں شامل ہونے آئے تھے‘‘۔
پاکستان عرصہ دراز سے کہے چلا آرہا تھا کہ بھارت اپنے خودمختار ہمسایہ ممالک کیخلاف منفی کردار ادا کررہا ہے اور ان کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں، لیکن عالمی برادری نے کبھی بھارت کے اِس رویے کا نوٹس نہ لیا، البتہ اب نریندر مودی کے بیان سے پاکستانی موقف کی تصدیق ضرور ہوگئی ہے، لیکن المیہ تو یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی مستقل نشست کا مستحق ہونے کے دعویدار بھارتی حکمران نہ صرف اقوامِ متحدہ کے میثاق کی خلاف ورزی کرنیوالے اقدامات میں ملوث ہیں بلکہ دیگر ریاستوں کے داخلی معاملات میں اس مداخلت کی یاد تازہ کرکے اِس پر فخر بھی کرتے ہیں۔جہاں ایک جانب بھارت کا رویہ مجرمانہ ہے تو کیا وہاں بھارتی رویے پر عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک نہیں ہے۔بھارتی وزیراعظم مودی کے اعتراف کے بعد یہ بھی ثابت ہوگیا کہ داخلی کمزوریوں کے باوجود 1971ء میں پاکستان توڑنے کی اصل سازش باہر بیٹھے دشمن نے کی تھی لیکن بھارتی وزیراعظم کے اس اعتراف نے پاکستانیوں کے پرانے زخم بھی تازہ کر دیے ہیں اوریہ زخم بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہیںاور المیہ تو یہ ہے کہ آج تک یہ اندرونی زخم مندمل ہوسکے اور نہ ہی ہم نے خود کبھی ان زخموں کا علاج کرنے یا کرانے کی کوشش کی۔ بغداد، غرناطہ، صیقلیہ اور دلی سمیت مسلمانوں کو جتنے بھی سقوطوں کا سامنا کرنا پڑا،وہاں داخلی کمزوری کا عنصر نمایاں رہا اور وہاں دشمن باہر سے جارحیت کرنے آیا تھا لیکن سقوط ڈھاکہ ان تمام میں اس لیے منفرد ہے کہ داخلی کمزوریوں اور اندرونی ریشہ دوانیوں کے سبب مقامی آبادی دشمن کے ساتھ کھڑی ہوگئی یا اُسے ایسا کرنے پر مجبور کردیا گیا اور یوں نوے ہزار مسلم فوجیوں نے تقریبا لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔
قارئین کرام !! کیا یہ المیہ نہیں کہ پینتالیس سال گزرنے کے باوجود نہ سقوطِ ڈھاکا کے ذمہ داروں کا تعین ہوا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی کو سزا دی گئی؟مانا کہ پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ کر الگ کرنے کی سازش باہر سے ہوئی، لیکن اس سازش کا توڑ کرنے پر مامور اندر بیٹھے لوگ کیا کررہے تھے؟ یہ بھی تسلیم کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ کچھ ’’غداروں‘‘ کی کارستانی کے باعث پیش آیا، لیکن اس سانحے کو روکنے کیلئے محب وطن طبقے نے میدان عمل میں کونسا تیر مارلیا تھا؟یہ بھی بجا کہ بنگلہ دیش کا قیام دشمنوں کی چلی ہوئی خطرناک چالوں کا نتیجہ تھا لیکن اس اہم ترین موقع پر دوستوں نے ہماری کیا مدد کی؟آخر ہم کب تک گلشن کے تنگی داماں کا علاج کرنے کی بجائے کلیوں کی کمی کا رونا روتے رہیں گے؟آخر ہم مستقبل کا مرثیہ لکھنے کے قابل کب ہوں گے، آخر ہم کب تک کبھی سقوط بغداد اور کبھی سقوط صیقلیہ کا ماتم کرتے رہیں گے؟ آخر ہم کب تک سقوط غرناطہ اور سقوط ڈھاکہ جیسے نوحے لکھتے رہیں گے؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024