انگریزی زبان میں پاکستانی ادب
ظفر اقبال رائو
پاکستان کو منصئہ شہود پر آئے تقریباً 65 برس کا طویل عرصہ گزر گیا۔ تاہم اس دوران صنف ادب پرخوب کام ہوا۔ ناول‘ افسانہ اور شاعری نے بے شمار اور بے مثال تجربات فن سے گزر کر اپنا لوہا منوایا۔ تاہم انگریزی ادب کی اصناف اور لکھنے والے اس لئے قبول عام کی سند پانے سے قاصر رہے کہ اکیسویں صدی سے قبل انگریز قارئین کی تعداد قابل ذکر نہ تھی۔ تاہم اب انگریزی ادب کے قارئین کا ایک مخصوص طبقہ وجود میں آ گیا ہے جو پاکستانی انگریزی ادب کو تقویت پہنچانے کا کام سرانجام دے گا۔ پاکستانی ناول پاکستان کی سماجی اور ثقافتی زندگی کو پیش نظر رکھ کر لکھے جا رہے ہیں۔ یہ اپنے لوگوں کی خصوصیات‘ ان کے مذہبی سماجی اور دینی پس منظر کو سامنے رکھتے ہیں اور اب تک کے ہر دور میں ہونے والی تبدیلیاں بھی ان ناولوں میں نمایاں ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے انگریزی ناول نگار بھی اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر انگریزی زبان کو بطور ذریعہ اظہار بنا کر اپنی کہانی کا تانا بابا بنتے ہیں۔ ہمارے انگریزی ناول نگار بین الاقوامی شناخت کے حوالے سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔ شناخت کا مرحلہ آخری 20 ویں صدی میں آیا۔ اس کی وجہ انگریزی ناول نگاری کے اولین اکابرین تھے۔ ان میں بیپسی سدھوا اور طارق علی کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں۔
ایک پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستانی انگریزی ناول اور ناول نگار کون اور کیسے پاکستانی ہونے کی شرط پورا کرتے ہیں۔ یہ اگرچہ بہت ہی الجھا ہوا ہے۔ لیکن ذیل میں ہم کوشش کریں گے کہ اس اصطلاح کی وضاحت کریں اورتعریف متعین کر لیں۔
جب ہم اس اصطلاح کو تشریح کرنے لگتے ہیں تو بے شمار اس نوع کے سوالات سر ابھارنے لگتے ہیں۔ مثلاً
-1 کیا پاکستانی باسی ہی انگریزی ناول نگار کہلانے کا حق دار ہے؟ اور ان کے بارے میں ہم کیا کہیں گے جو پاکستان میں پیدا ہوئے۔ لیکن پھر ملک سے ہجرت کر گئے۔
-2 کیا ذوالفقار غوز جیسے ناول نگار جو اگرچہ پاکستان (جو اس وقت برصغیر تھا) میں پیدا ہوا لیکن کبھی پاکستان میں نہیں رہا‘ کو پاکستانی قراردادیں گے یا نہیں؟
-3 اسی طرح حنیف قریشی جو نہ پاکستان میں پیدا ہوا نہ رہائش اختیار کی۔ اس کی نسبت پاکستان سے صرف اتنی ہے کہ اس کے آبائو اجداد پاکستانی تھے۔ لیکن اسے پاکستانی ناول نگاری کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ کیا اسے اس فہرست میں رکھا جانا چاہئے؟
طارق علی ثقہ پاکستانی
پاکستانی ناول نگار ہیں لیکن ان کا ایک ناول بھی پاکستان اس کی سرزمین‘ ثقافت‘ تہذیب‘ تاریخ وغیرہ کے بارے میں نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی ناول نگار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پاکستان میں رہے اور پاکستان کے بارے میں لکھے۔
-5 اسی طرح کچھ ناول نگار کہیں اور پیدا ہوئے لیکن وہ بعد ازاں پاکستان آ گئے اور یہیں رہنا شروع کر دیا۔ مثلاً احمد علی ایک بہت بڑا نام ہے جو اس تعریف کی اور سوال کی ذیل میں آتے ہیں کہ کیا ہم انہیں پاکستانی کہیں گے؟ اگر کہیں گے تو پاکستان میں پیدا ہونے کی شرط پاکستانی ناول نگار کہلانے کے لئے باقی نہیں رہتی۔
-6 ان ناول نگاروں کے بارے میں ہم کیا کہیں گے جن کا پاکستان کے ساتھ کوئی تہذیبی اور ثقافتی تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود انہوںنے پاکستان کے بارے میںلکھا کیا ہم انہیں پاکستانی ناول نگار کہیں گے۔
-7 اسی طرح بہت سے ناول نگار پاکستان میں پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے لیکن تقسیم کے وقت مذہبی تعلق کی وجہ سے انڈیا ہجرت کر گئے۔ مثلاً خوشونت سنگھ کو کس فہرست میں رکھیں گے؟
-8 اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا اردو ناول کے انگریزی تراجم اور مترجم انگریزی ادب میں بطور ناول اور ناول نگار شامل کئے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ اس لئے کہ جب کوئی انگریزی پاکستانی ناول دیکھنے کیلئے کسی کتب خانے میں جائے گا توترجمے کی وجہ سے نہ صرف پاکستانی ناول اور ناول نگار سے متعارف ہوگا بلکہ انگریزی زبان کے قاری کے لئے اس کو پڑھنا بھی آسان ہو گا۔
اگر ہمیں پاکستانی ناول اور ناول نگاروں کی صحیح تشریح اور واضح تعریف کرنی ہے تو لازم ہے کہ درج بالا سوالات کا جواب دیا جائے۔ ڈاکٹر عطش درانی نے بہت مفید تعریف کی ہے جس سے اس موضوع کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے انہوں نے انگریزی ناول نگاروں کو مختلف درجات میں تقسیم کیا ہے۔
-1 پہلی درجہ بندی میں ان پاکستانی انگریزی ناول نگاروں کو لیا ہے جو بیرونی اور اندرونی دبائو اور اثرات کے تحت پاکستانی ناول نگار کہلانے پر مجبور ہیں وہ کہیں بھی رہتے ہوں وہاں کے لوگ انہیں پاکستانی ناول نگار کی ہی حیثیت سے جانتے اور پہجانتے ہیں اس کی وجہ ان کے آبائو اجداد کا پاکستان سے تعلق ہی ان کی وجہ شناخت ہے۔ وہ خود بھی اپنے آپ کو پاکستانی ناول نگار ہی کہتے ہیں۔ چاہے وہ کہیں اور ہی پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہوں۔ اسی طرح ملک بدر حضرات بھی اپنے مقامی یا بین الاقوامی قارئین کے درمیان پاکستانی ناول نگار ہونے کی شناخت رکھتے ہیں۔ جیسے حنیف قریشی اپنے ملک میں جہاں ان کی شہریت ہے اور پاکستان جہاں اس کے آبائو اجداد کی خاندانی جڑیں موجود ہیں‘ دونوں جگہ بطور پاکستانی جانا جاتا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ آج تک پاکستان نہیں آیا۔ لیکن انگلستان کے ادبی حلقے اسے برطانوی کی بجائے پاکستانی شہری کی شناخت دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تارین وطن ناول نگاروں کے ہاں شناخت کا بحران شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔
اسی طرح ذوالفقار غوز کبھی موجود پاکستان میں نہیں رہا۔ لیکن ثقافتی اور نفسیاتی تعلقات اور پرانی جنم بھومی سے لگائو اسے اس درجہ بندی میں لا کھڑا کرتا ہے جو انہیں پاکستانی شناخت عطا کرتی ہے۔
اگرچہ ذوالفقار غوز اپنی ہر طرح کی قومیت سے برات کا اظہار کرتا ہے لیکن تیترہ شمسی کو پاکستانی انگریزی ادیبوں کے بارے میں کتاب ’’تارکین وطن‘‘ میں اپنی کتاب The TrppleMirror of the Self کا ایک سیکشن شامل کرنے کی رضامندی ظاہر کرتا ہے۔
(جاری ہے)