کوئی مقدس گائے بننے کی کوشش نہ کرے : فوج اور آئی ایس آئی کا بجٹ پارلیمنٹ میں زیر بحث لانا کوئی جرم نہیں : نوازشریف
لاہور (سپیشل رپورٹر + ریڈیو مانیٹرنگ) پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کا بجٹ پارلیمنٹ میں زیر بحث لانا کوئی جرم نہیں‘ یہاں کوئی مقدس گائے بننے کی کوشش نہ کرے خارجہ پالیسی پر فوج کا غلبہ ختم کیا جائے‘ تنقید خود بخود ختم ہو جائے گی‘ جب تنقید کی وجہ بنتی ہے تو تنقید کرینگے۔ ہمیں ایٹمی قوت بنانے کا سہرا واجپائی کے سر جاتا ہے انہوں نے ایٹمی دھماکے کئے جس کے جواب میں پاکستان نے بھی یہ دھماکے کئے۔ قانون کی حکمرانی قائم نہ کی گئی تو ملک کسی حادثے کا شکا ر ہو جائے گا۔ امریکہ سے کہا جارہا ہے کہ پارلیمنٹ نے قرارداد منظور کی ہے اس لئے اس کا احترام کرو اپنے ملک میں پارلیمنٹ کی قرارداد کا احترام نہیں کیا جا رہا تو امریکہ کس طرح کرے گا۔ اب ہم 2011 میں ہیں جب دنیا چاند پر جارہی ہے یہاں کوئی مقدس گائے ہے اور نہ ہی کسی کو مقدس گائے بننے دیں گے کہ اس کے خلاف کوئی بات نہ ہو، آج تک کشمیر کاز کو اتنا نقصان کسی نے نہیں پہنچایا ہے جتنا ہمارے اداروں نے پہنچایا ہے ، پاکستان میں جمہوریت قائم رہتی تو کبھی انتہا پسندی نہ ہوتی، قائداعظمؒ کو پتہ ہوتا کہ یہ سب کچھ پاکستان میں ہونا ہے تو وہ پاکستان کبھی نہ بناتے یہ باتیں سیفما کے زیر اہتمام صحافی سلیم شہزاد کی یاد میں ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں جس نے بھی بات کی ایسا لگتا ہے کہ جو ان کا نظریہ ہے وہی قائداعظمؒ کا نظریہ تھا۔ نظریہ ہمشہ اچھے مقصد کے لئے ہوتا ہے آج ہم جو ماحول دیکھ رہے ہیں اور جس صورتحال سے دوچار ہیںکیا یہ وہ خوابوں کی تعبیر ہے جو قائداعظمؒ محمد علی جناح، علامہ اقبالؒ اور ہمارے بزرگوں نے دیکھے تھے ایسا لگتا ہے کہ ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنے لوگوں کی غلامی میں آگئے ہیں۔ اب میرا عزم تبدیلی کے لئے پختہ ہوتا جارہا ہے تبدیلی کے لئے کچھ بھی کرنا پڑا کریں گے۔ عدلیہ کی بحالی کے لئے بھی لوگ ڈراتے تھے کہ باہر نہ نکلیں بم برس رہے ہیں جب نکلے تو عدلیہ بحال ہو گئی انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ دونوں سیاسی جماعتیں اکٹھی بیٹھیں چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل کیا جائے فوج کا بجٹ اسمبلی میں پیش ہو یورپ ، امریکہ ، بھارت ، سری لنکا میں فوج کا بجٹ پیش ہوتا ہے تو یہاں کیوں نہیں ہو سکتا‘ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اداروں کو برا نہ کہیں ہم کسی کی تضحیک نہیں چاہتے عزت دینا چاہتے ہیں لیکن ادارے بھی دوسروں کو عزت دیںہم جو باتیں کر رہے ہیں ان کی عزت بہتر ہوگی اگر ہاوس کی کمیٹی چھان بین کرکے اہم منصوبوں کی منظوری دے گی اور اسمبلی کو پتہ ہو گا کہ اسلحہ بنانے اور اسلحہ خریدنے پر کتنا پیسہ خر چ ہو رہا ہے اس میں کیا بری بات ہے۔ واجپائی یہاں آئے تو ہم نے کرگل کی جنگ چھیڑ دی جب مہمان شاہی قلعے جارہے تھے تو پتھراﺅ کیا گیا پتہ چلنا چاہیے کہ وہ لوگ کون تھے جب میں بھارت جانے والا تھا تو کرگل کا محاذ کھول دیا گیا مشرف کے کور کمانڈرز کو بھی پتہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو برا نہیں کہتے ہیں فوج کا بڑا حصہ مہم جوئی کے حق میں نہیں وہ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا لیکن چند لوگوں کی سوچ حاوی ہو جاتی ہے۔ کرگل کا صرف چار لوگوں کو فوج میں پتہ تھا ایک مشرف دوسرے جنرل عزیز، جنرل محمود اور جنرل حسن شامل تھے پوری فوج اس سے بے خبر تھی کور کمانڈر‘ نیول چیف کو بھی پتہ نہ تھا جب ڈی سی سی کی میٹنگ ہوئی تو مشرف نے جنرل عزیز کو فون کر کے پوچھا وزیراعظم کو پتہ تو نہیں چلا جب مجھے سارے حقائق کا پتہ چلا تو وہ مارشل لا ءلگانے کا پروگرام بنا چکے تھے وہ یہ پروگرام بنا چکے تھے کہ وزیراعظم پر طیارہ سازش کیس ڈالنا ہے وہ پلان بنا چکے تھے کہ پسند کی عدلیہ بنانی ہے۔ وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے منتخب ادارے ختم کرنے ہیں‘ اگر انہی مقاصد کے لئے پاکستان بنا تھا تو ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہیں۔ جاوید ہاشمی کو سچ بولنے پر کئی سال سچ بولنے کی سزا کے طورپر قید رکھا گیا‘ رانا ثناءاللہ کے ساتھ جو کچھ ہوا۔ زرداری اور میرے سامنے ایجنڈ ا تھا چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل کر تے تو زرداری کو چوں چوں کا مربہ جمع کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ پارلیمنٹ کی قرارداد سب کی مرضی جس میں اداروں کے سربراہ میں موجود تھے بنائی گئی تھی لیکن اس کا حشر یہ ہو رہا۔ ہم نے کسی سے استفعی کا مطالبہ نہیں کیا یہ کہا کہ پہلے حقائق معلوم کرو پھر ایکشن لیا جائے گاکیا یہ بری بات ہے۔ جب سارے ہاتھ گریبان تک پہنچ جائیں تو پھر اس وقت گریبان کو دیکھ لینا چاہیے اس میں کوئی بری بات نہیں اگر ہم اپنے گریبان میں پہلے ہی جھانک لیتے تو ایبٹ آباد اور مہران بیس جیسے واقعات نہ ہوتے۔ ہم اداروں کے خلاف بات نہیں کرتے قانون اور آئین کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہوتی تو آج جیسے حالات نہ ہوتے جمہوریت قائم رہتی تو انتہاءپسندی نہ ہوتی اگر بھارت میں اتنے ہی مسلمان ہیں لیکن وہاں یہاں جیسی دہشت گردی نہیں۔ جب کوئی تنقید کی وجہ پیدا کرے تو تنقید ہوتی ہے اگر آئین اور قانون پر چلنے کا عہد کر لیں تو تنقید ختم ہو جائے گی۔ خارجہ پالیسی پر اثراندازی بند کر دیں تو تنقید بند ہو جائے گی۔ افغان عوام کو دوست بنانے کی پالیسی بنائیں تو تنقید ختم ہو جائے گی۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت نہ چلائیں تو تنقید بند ہو جائے گی ۔ آئندہ ملک میں آئین توڑنے عدالتوں کو توڑنے اور صحافیوں کو مارنے کا کھیل نہیں کھیلنے دیں گے۔ آج 60 سال کی غلطیوں کے بعد یہاں پہنچے ہیں اور اب اصلاح کرلینی چاہیے ہم نے بھی غلطیاں کی ہیں انہوں نے کہا کہ ججوں کی بحالی ایک انقلاب تھا۔ آج ہم دو سو سال پیچھے چل رہے ہیں سوچیں تبدیل کرنی ہو گی۔ مائنڈ سیٹ بدلنا ہو گا پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا کریڈٹ واجپائی کو جاتا ہے کیونکہ انہوں نے پہلے دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے کا جواز فراہم کر دیا۔ سلیم شہزاد کے لئے تحقیقاتی کمشن بن جانا چاہیے ۔ وزیر اعظم کمشن کیوں نہیں بناتے ہیں۔ کراچی میں جو واقعہ ہوا اس کو کوئی دیکھ سکتا ہے۔ تقریب سے امتیاز عالم ، احمد رشید، اکمل حسین ، جگنو محسن ، حنا جیلانی اور مجیب الرحمان شامی نے بھی خطاب کیا ۔
لاہور (ریڈیو مانیٹرنگ) مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا کہ ایبٹ آباد کا واقعہ انتہائی سنگین ہے جس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی سب گلے پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں کہ قرارداد پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ نجی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد کے بعد پی این ایس مہران اور دیگر کئی واقعات ہوئے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس میں رکاوٹ صدر ہیں یا وزیراعظم ہیں یا پھر کوئی اور‘ بعض اداروں کے لوگ حدود سے تجاوز کرتے ہیں پھر کہا جاتا ہے کہ اداروں کو کچھ نہ کہا جائے ہم اگر کوئی بات کرتے ہیں تو وہ اداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش قرار دی جاتی ہے۔ حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اس کا پورا احساس ہے۔ حکومت اصلاحی قدم نہیں اٹھا رہی۔ فیصلہ کن اقدام ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ کی صورتحال تو مشرف کے سامنے بھی یہی تھی۔ ایسے ہی حالات کو چلنے دیا جائے تو یہ انتہائی افسوسناک بات ہو گی۔ ہماری پارٹی صورتحال کو سنبھالا دینے کے لئے اقدامات تیار کر رہی ہے ہم ایک سٹریٹجی اور پالیسی بنا رہے ہیں اور اسے مزید ریفائن کیا جا رہا ہے۔ جب وہ صدر زرداری سے ان کے والد کی وفات پر تعزیت کے لئے ملے تھے تو اس وقت یہ ضرور بات ہوئی تھی جسے آپ کل تک بے نظیر بھٹو کا قاتل کہہ رہے تھے آج اس سے اتحاد کر لیا ہے۔ ہم تو ساتھ دے رہے تھے لیکن وہ میثاق جمہوریت پر قائم نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو موجودہ حکومت سے خوش ہو۔
نواز شریف / انٹرویو
لاہور (ریڈیو مانیٹرنگ) مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا کہ ایبٹ آباد کا واقعہ انتہائی سنگین ہے جس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی سب گلے پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں کہ قرارداد پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ نجی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد کے بعد پی این ایس مہران اور دیگر کئی واقعات ہوئے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس میں رکاوٹ صدر ہیں یا وزیراعظم ہیں یا پھر کوئی اور‘ بعض اداروں کے لوگ حدود سے تجاوز کرتے ہیں پھر کہا جاتا ہے کہ اداروں کو کچھ نہ کہا جائے ہم اگر کوئی بات کرتے ہیں تو وہ اداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش قرار دی جاتی ہے۔ حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اس کا پورا احساس ہے۔ حکومت اصلاحی قدم نہیں اٹھا رہی۔ فیصلہ کن اقدام ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ کی صورتحال تو مشرف کے سامنے بھی یہی تھی۔ ایسے ہی حالات کو چلنے دیا جائے تو یہ انتہائی افسوسناک بات ہو گی۔ ہماری پارٹی صورتحال کو سنبھالا دینے کے لئے اقدامات تیار کر رہی ہے ہم ایک سٹریٹجی اور پالیسی بنا رہے ہیں اور اسے مزید ریفائن کیا جا رہا ہے۔ جب وہ صدر زرداری سے ان کے والد کی وفات پر تعزیت کے لئے ملے تھے تو اس وقت یہ ضرور بات ہوئی تھی جسے آپ کل تک بے نظیر بھٹو کا قاتل کہہ رہے تھے آج اس سے اتحاد کر لیا ہے۔ ہم تو ساتھ دے رہے تھے لیکن وہ میثاق جمہوریت پر قائم نہیں رہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو موجودہ حکومت سے خوش ہو۔
نواز شریف / انٹرویو