کراچی میں رینجرز کے کچھ اہلکاروں کے ہاتھوں ہونے والے نوجوان کی ہلاکت کا واقعتاً یقیناً دہشت گردی ہے اور میں ایک دلیر باپ کے دلیر بیٹے خواجہ سعد رفیق کی اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ یہ کیس دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چلنا چاہئے اور اس کا فیصلہ تیس دنوں میں ہونا چاہئے۔ کاش ان کی یہ خواہش جو یقیناً عوامی خواہش ہے پوری ہو سکے مگر قومی اسمبلی میں صدر مملکت امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کے وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے اس واقعے کو جس لائٹ انداز میں بیان فرمایا اور پھر اس ملک کے محفوظ ترین وزیر داخلہ رحمان ملک نے جس انداز میں مقتول کو بغیر تحقیقات کے ”کریمینل“ قرار دیا تو اس سے سعد رفیق کی خواہش پوری ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ البتہ سپریم کورٹ نے اپنے ”ازخود نوٹس“ کی لاج رکھ لی تو اس کیس کا فیصلہ تیس دنوں کیا تیس گھنٹوں میں بھی سنایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں آدھی رات کو عدالت لگانے میں بھی کوئی حرج نہیں اور ہم تو سپریم کورٹ کے شکرگزار ہیں کہ ایک ”طاقتور ادارے“ کے کچھ اہلکاروں کے ہاتھوں ہونے والی دہشت گردی کا اس نے نوٹس لے لیا ورنہ اب تک تو یہی سمجھا جاتا تھا امریکہ اور آرمی اس ملک کے ہر ادارے سے بالاتر ہیں۔ اس واقعے کا نوٹس صدر مملکت جناب آصف زرداری نے بھی لیا ہے اور رپورٹ طلب کر لی ہے۔ روٹین کی کارروائی کے طور پر ایسے ہزاروں نوٹسز اب تک انہوں نے لئے ہوں گے اور رپورٹیں بھی طلب کی ہوں گی جن کے ایوان صدر میں انبار لگے ہوں گے اور یہ انبار کسی روز ردی کی صورت میں بکنے کے منتظر بھی ہوں گے۔ اصل میں حکمران چاہے فوجی ہوں یا غیر فوجی اس ملک کے عوام کو انہوں نے ہمیشہ بھیڑ بکریاں ہی سمجھا اور ”اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریوں“ نے بھی کبھی ”انسان“ بننے کی کوشش نہیں کی۔ سو کراچی میں ایک بھیڑ بکری کو گولیوں سے بھون دیا گیا ہے تو اس سے ہم یہ امید کریں کہ حکمران اس واقعے پر کانپ اٹھیں گے یا ان کی آنکھوں سے خون بہنے لگے گا ہماری اپنی بے وقوفی ہے۔ ان کے نزدیک تو یہ واقعہ ایسے ہی ہے جیسے ان کے ”فارم ہاﺅس“ میں ان کا کوئی سیکورٹی گارڈ اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریوں میں سے ایک کو بھون ڈالے۔ یہ تو میڈیا کا کمال ہے کہ اب ایسی خبریں کوئی چھپانا بھی چاہے تو چھپ نہیں سکتیں ورنہ جب صرف سرکاری ٹیلی ویژن کا راج تھا تو ایسی خبریں ایسے ہی باہر نہیں نکلتیں تھیں جیسے ان دنوں مارے خوف کے حکمران اپنے اپنے محلوں سے باہر نہیں نکلتے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ فرماتے ہیں رینجرز کے کچھ اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے نوجوان نے خواتین کو لوٹنے کی کوشش کی تھی۔ ظاہر ہے وہ خود تو پارک میں موجود نہیں تھے ہو سکتا ہے انہیں یہ بات رینجرز کے ان اہلکاروں نے بتائی ہو جو ان دنوں بڑی تعداد میں ان کی حفاظت فرماتے ہیں اور اس ”حفاظت“ میں انہیں خوف خدا بھی نہیں رہا۔ ممکن ہے کل کلاں وہ اپنے اس بیان سے بھی مکر جائیں۔ ”کہہ مکرنیوں“ کا اس ملک میں کسی نے ریکارڈ قائم کیا ہے تو وہ جناب رحمان ملک ہیں۔ بدقسمتی سے اب اگر اتفاق سے وہ کبھی سچ بول بھی جائیں تو اس پر بھی کوئی یقین نہیں کرتا۔ رینجرز کے کچھ اہلکاروں کا نشانہ بننے والوں کو انہوں نے ”کریمینل“ قرار دیا۔ جی ہاں اس ملک میں ”فرشتے“ صرف حکمران اور وزیر شذیر ہی ہیں جنہوں نے آج تک کسی کو لوٹنے کی کوشش نہیں کی۔ ان پر آج تک کوئی الزام نہ لگا نہ ان کے خلاف کسی عدالت میں کوئی مقدمہ چلا۔ یہ ”نیک پاک روحیں“ ہیں جو اقتدار سے سیدھا جنت میں جائیں گی اور اب بھی جنت میں ہی رہتی ہیں اور دوسری بات یہ کہ رحمان ملک اور ان کی حکومت نے ملک میں ایسے حالات پیدا کر دئیے ہیں کہ اب ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ صنعتیں چل رہی ہیں۔ گیس بجلی اور پٹرول ضرورت سے زیادہ موجود ہیں۔ بے روزگاری کا نام و نشان تک نہیں رہا۔ نوجوانوں کو ڈگری بعد میں ملتی ہے روزگار پہلے مل جاتا ہے۔ گذشتہ تین چار برسوں میں ملک میں اتنی ترقی ہوئی ہے کہ ہم یورپ اور امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار دھڑا دھڑا پاکستان میں آ رہے ہیں۔ روپے کی مانگ ملک میں اتنی بڑھ گئی ہے کہ اتنی ”مانگ“ تو کبھی ایوان صدر میں نہیں بڑھی۔ ان حالات میں اگر کوئی نوجوان کسی پارک میں کسی خاتون کو لوٹنے کی کوشش کرے تو اس کا یہ جرم ”ناقابل معافی“ ہے اور اس کی سزا موت ہی بنتی ہے
غم سے عجب نجات کی راہیں نکل آئیں
آنسو پئے جو ہم نے تو چیخیں نکل آئیں
مظلوم کی مدد کو تو نکلا نہیں کوئی
اہل ستم کے حق میں دلیلیں نکل آئیں
غم سے عجب نجات کی راہیں نکل آئیں
آنسو پئے جو ہم نے تو چیخیں نکل آئیں
مظلوم کی مدد کو تو نکلا نہیں کوئی
اہل ستم کے حق میں دلیلیں نکل آئیں