برطانیہ زمینی اعتبار سے دنیا کا نواں اور یورپ کا تیسرا بڑا جزیرہ ہے اس کی آبادی 2008 کی مردم شماری کے مطابق صرف 6 کروڑ ہے جبکہ پاکستان کے صرف صوبہ پنجاب کی آبادی 9 کروڑ ہے لیکن پھر بھی جاوا اور ہنوشو کے جزائر کے بعد یہ دنیا کا تیسرا گنجان آباد جزیرہ ہے۔ برطانیہ کے گرد و نواح میں تقریباً 1000 اور بھی چھوٹے بڑے جزیرے ہیں۔
برطانیہ انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے اتحاد سے یکم مئی 1707 کو وجود میں آیا ۔ 1801 میں آئیر لینڈ نے بھی اس سے الحاق کر لیا۔ آج سے دس ہزار سال پہلے جب سطح سمندر اپنی موجودہ سطح سے 120 میٹر نیچے تھی تو اس وقت برطانیہ ایک جزیرہ نہ تھا بلکہ اسکے سیم زدہ زمینی کندھے شمال میں ایک طرف آئیر لینڈ اور دوسری طرف یورپ سے منسلک تھے۔ اس علاقے میں انسانی آبادی کا دخول تقریباً چار لاکھ سال پہلے ہوا۔ برطانیہ میں اس وقت تقریباً 46 لاکھ غیر یورپین ہیں جن میں سے 23 لاکھ ایشین ہیں جو برطانیہ کی آبادی کا 4% ہیں اس میں ہندوستانی دس لاکھ، پاکستانی ساڑھے سات لاکھ، اور بنگلہ دیشی تقریباً 2.5 لاکھ ہیں باقی تین لاکھ لوگ دوسرے ایشین ممالک سے ہیں۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے جنوبی ایشیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنی شروع کی تو اس وقت ملازمتوں کی تلاش کرنےوالے ایشین باشندوں کیلئے برطانیہ کے دروازے کچھ حد تک کھولے گئے۔ انگریزوں کے ہاتھوں نپولین کی واٹرلو پر شکست کے بعد برطانیہ کا دارالحکومت لندن (1831 سے لیکر 1925 تک) دنیا کا صرف آبادی کے لحاظ سے ہی سب سے بڑا شہر نہیں بنا بلکہ اس نے دنیا کا سب سے پہلا صنعتی شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔ 1922 میں برطانیہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت بن گیا جو نو آبادیوں کے ذریعے دنیا کے تقریبا 25% حصے پر قابض تھا۔برطانیہ کے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں 1974 کے بعد پہلی دفعہ ایک معلق اسمبلی وجود میں آئی ہے جس میں کنزرویٹیو اور لبرل ڈیموکریٹ سیاسی جماعتوں نے مل کر حکومت بنا لی ہے جس کو مندرجہ ذیل خطرات درپیش ہیں:۔
٭۔ حکومتی اتحاد میں شامل دونوں جماعتوں کی چونکہ سیاسی سوچ اور منطق مختلف ہے اس لیے کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری نہیں کر سکے گی اور وقت سے پہلے انتخابات کروانے پڑینگے۔
٭۔ برطانیہ کا دوسرا بڑا مسئلہ اسکے بجٹ کا بڑھتا ہوا خسارہ ہے۔ جی ڈی پی کے 12% کے برابر بجٹ خسارے کےساتھ برطانیہ پورے یورپ کے 27 ممالک میں سب سے خراب اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بد تر معاشی صورتحال میں گرفتار ہے۔
قارئین کو پتہ ہو گا کہ یونان کا حال ہی میں جب بجٹ خسارہ اپنے جی ڈی پی کے 13.6% کے برابر جا پہنچا تو ملک کا معاشی نظام دھڑام سے گرنے لگا اس صورتحال کو سنبھالا دینے کیلئے یورپین یونین اور آئی ایم ایف کو مل کر یونانی معیشت کو مالی امداد کی ڈرپ لگانا پڑی ۔ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت برطانیہ سے بدتر ہے اور Fight back کرنے کیلئے پاکستان کی برطانیہ کی طرح صنعت مضبوط ہے نہ زراعت۔ ہمارا بجٹ خسارہ ساڑھے چھ سو ارب روپے، دفاع پر خرچ ساڑھے چار سو ارب روپے ، آئی ایم ایف کے قرضوں پر سود ساڑھے چھ سو ارب روپے سالانہ ہے اور ساتھ ہی بدقسمتی سے مرکزی وزراءکی تعداد تقریباً 90 اور حکومتی اخراجات شاہانہ ہیں یعنی ”بھُک بھنگڑے عشق بنیرے“
٭۔ برطانیہ کا تیسرا بڑا مسئلہ برطانیہ کے قرضے ہیں جو اب جی ڈی پی کا تقریباً 80% ہیں اگر یہ قرضے بڑھ کر جی ڈی پی کا 100% ہو گئے تو معاشی ماہرین کی رائے میں برطانیہ کی AAA کریڈٹ ریٹنگ قطعاً قائم نہیں رہ سکے گی جس سے برطانیہ کیلئے مزید معاشی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جن کو متضاد سوچ والا برطانیہ کا موجودہ کمزور سیاسی اتحاد حل نہیں کر سکے گا۔ پاکستانی معیشت کو کنٹرول کرنا بھی موجودہ سیاسی اتحاد کے بس کی بات نہیں لگتی۔
٭۔ اگرچہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ کے دارالحکومت برسلز سے برطانیہ کے دارالحکومت لندن کی اہمیت ہر حالت میں زیادہ ہونی چاہیے۔ برطانیہ کی یہ مجبوری بھی ہے کہ وہ برطانیہ کے معاشی اور سیکورٹی مفادات کی خاطر یورپین یونین سے منسلک رہے۔
پاکستان وجود میں آنے سے پہلے (یکم نومبر 1858 سے لےکر 13اگست1947 تک) برٹش راج کا حصہ تھا۔ پھر ہم کامن ویلتھ کا حصہ بن گئے اور 1956 تک برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم پاکستان کی بھی ملکہ رہیں اسکے بعد جب پاکستان ریپبلک بن گیا تو برطانیہ کے تاج کیساتھ ہمارا تعلق کٹ گیا۔ نومبر 1966 میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے برطانیہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا اور 1997 میں ملکہ برطانیہ پاکستان آئیں۔ سرد جنگ میں برطانیہ اور پاکستان سینٹو کا حصہ رہے۔ 1950 تک برطانیہ دنیا کی سپر پاور تھا لیکن پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہی اور اسکے بعد دنیا بھر سے برطانوی نوآبادیوں کے خاتمے کے بعد برطانیہ جس کی سرزمین پر کبھی سورج غروب نہ ہوتا تھا سکڑ کر موجودہ جزیرے تک محدود ہو گیا لیکن پھر بھی آج وہ دنیا کا ایک بہت اہم ملک ضرور ہے ۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کے علاوہ ایٹمی طاقت برطانیہ ، یورپین یونین ، جی 6، جی8، جی20 ، NATO، OECD، WTO، کونسل آف یورپ اور OSCE وغیرہ کا بنیادی رکن ہے ‘ اس لیے پاکستان برطانیہ سے اپنے معاشی، صنعتی، زرعی، تعلیمی اور عسکری روابط بڑھا کر بہت سارے مفادات حاصل کر سکتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں برطانیہ امریکہ کا فوجی اتحادی ہے۔ حالیہ انتخابات کی مہم میں کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ نے یہ نہیں کہا کہ انتخابات جیت کر وہ افغانستان سے برطانوی افواج کو واپس بلا لے گا‘ اس لیے لگتا یوں ہے کہ برطانیہ اپنی ساری آزادی کے نعروں کے باوجود امریکہ کا بہت عرصے تک ایک طفیلی ملک رہے گا اور 27 ممالک کے یورپین یونین کے مضبوط اتحاد کو اپنی تھانیداری کےخلاف خطرہ سمجھتے ہوئے بھی برطانیہ سیکورٹی اور معاشی مفادات کی خاطر اس اتحاد کے اندر رہنا پسند کرےگا۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ کچھ بین الاقوامی سطح کے دانشور یہ سوچ رہے ہیں کہ اب شاید امریکہ کی نظروں میں برطانیہ کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ 2 جون کے فنانشل ٹائمز میں جارج ٹاون یونیورسٹی کے پروفیسر Charles Kupchan نے لکھا ہے :
\\\"Britain is no longer Amrica\\\'s bridge to Europe\\\"
یعنی امریکہ کو یورپ سے تعلقات استوار کرنے کیلئے اب برطانوی پل کی ضرورت نہیں۔ اس سلسلے میں کالم نگار نے تین وجوہات بتائی ہیں ایک تو یہ کہ اب امریکہ کے برطانیہ کے علاوہ یورپ میں فرانس اور جرمنی سے بھی بہت گہرے تعلقات استوار ہو چکے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی سٹریٹیجک ترجیحات اب یورپ سے مشرق وسطی اور ایشیا میں منتقل ہوگئی ہیں جس کیلئے اس کو یورپ کے سارے ممالک کی افواج کے تعاون کی ضرورت ہے اور برطانیہ کا محدود فوجی بیڑہ ان مقاصد کیلئے اکیلا ناکافی ہے ۔ افغانستان میں 30 ہزار اتحادی فوجیوں میں صرف 10 ہزار برطانوی سپاہی ہیں تیسرا یہ کہ برطانیہ کی معاشی حالت اس وقت دگرگوں ہے۔
قارئین برطانیہ سے پاکستان مندرجہ ذیل اسباق حاصل کر سکتا ہے۔
٭۔ ملک اگر جغرافیائی یا آبادی کے لحاظ سے چھوٹا بھی ہو تو بہترین حکمرانی ، قانون کی بالادستی اور دیانت دارانہ طرز حکومت سے آپ ایک بین الاقوامی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں۔
٭۔ ملکوں کے اندر طاقت کا سر چشمہ صرف عوام کی Will ہے ۔ برطانوی عوام نے عراق، افغانستان جنگوں کو مسترد کرتے ہوئے لیبر پارٹی کو مسترد کر دیا اور ٹونی بلیئر کی انکوائری بھی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں عوام کی منشا کی کوئی اہمیت نہیں اور احتساب نام کی کوئی چیز نہیں۔ اس طرف دھیان دینا ضروری ہے۔
٭۔ برطانیہ کے عوام اور حکومت نے 23 لاکھ ایشین کو صرف روزگار ہی نہیں دیا ہوا ان میں سے سات اہل پاکستانی خواتین و حضرات اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ارکان بھی منتخب ہو گئے ہیں اور ایک پاکستانی نژاد خاتون سعیدہ وارثی ایک حکمران سیاسی جماعت کی سربراہ بھی بن گئی ہے۔ کیا ہم میں یورپین سفید فام باشندوں کو اس طرح برداشت کرنے کا مادہ ہے؟ کیا پاکستانی سیاسی جماعتوں کی قیادت کا تاج کسی غیر ملکی تودرکنار کسی پاکستانی سیاسی کارکن کے سر رکھنے کا کبھی تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔ مارگریٹ تھیچر اور ٹونی بلیئر جیسے بین الاقوامی سطح کے لیڈروں نے اپنی سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے خاندانوں میں رکھنے کی بجائے دوسروں کے حوالے کیوں کر دی؟ کیا پاکستان کا موجودہ نام نہاد جمہوری نظام، جس میں جعلی ڈگریوں والے، کروڑوں روپے رشوت کھانے والے، قرضے ہڑپ کرنےوالے اور ٹیکس نادہندگان اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، پاکستان کو بغیر کسی شک کے تباہی کی طرف لے جائےگا۔
٭۔ خراب معاشی حالات کی وجہ سے نو منتخب وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے حکم دیا ہے کہ صرف چند اہم ترین وزیروں کے علاوہ باقی سارے وزیر سرکاری کاریں نہیں بلکہ عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ کیا پاکستانی اسمبلیوں کے کسی رکن میں یہ جرا¿ت ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں وزرا کی تعداد پر جو پابندی لگائی گئی ہے ا س پر اب عمل کروانے کیلئے صدا بلند کرے چونکہ اب ہم اپنی 63 سالہ تاریخ کے بد ترین معاشی بحران کا شکار ہیں ؟ کیا حکمران اتحاد ی جماعتوں کا کوئی ایک سربراہ بھی، ملکی مفاد میں رضا کارانہ طور پر، اپنی ایک وزارت بھی چھوڑنے کو تیار ہے؟ اگر ایسا نہیں تو کیا موجودہ ناقابل یقین اخلاقی دیوالیہ پن، بدترین معاشی بدحالی، کرپٹ ترین ماحول اور عدالتوں کے احکامات سے روگردانی ہمیں اس سنگین صورتحال سے نکال سکے گی؟ جواب اگر نفی میں ہے تو موجودہ نظام زیادہ دیرنہیں چل سکے گا۔ اسکے بعد اگر کوئی یحیٰ خان مل گیا تو انجام کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں لیکن اگر کوئی چو این لائی یا قائد اعظم جیسا با اصول لیڈر فرشتہ رحمت بن کر سامنے آ گیا تو پاکستان برطانیہ سے زیادہ طاقتور، نا قابل تسخیر اور قوموں کی برادری میں قابل احترام بن سکتا ہے۔
برطانیہ انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے اتحاد سے یکم مئی 1707 کو وجود میں آیا ۔ 1801 میں آئیر لینڈ نے بھی اس سے الحاق کر لیا۔ آج سے دس ہزار سال پہلے جب سطح سمندر اپنی موجودہ سطح سے 120 میٹر نیچے تھی تو اس وقت برطانیہ ایک جزیرہ نہ تھا بلکہ اسکے سیم زدہ زمینی کندھے شمال میں ایک طرف آئیر لینڈ اور دوسری طرف یورپ سے منسلک تھے۔ اس علاقے میں انسانی آبادی کا دخول تقریباً چار لاکھ سال پہلے ہوا۔ برطانیہ میں اس وقت تقریباً 46 لاکھ غیر یورپین ہیں جن میں سے 23 لاکھ ایشین ہیں جو برطانیہ کی آبادی کا 4% ہیں اس میں ہندوستانی دس لاکھ، پاکستانی ساڑھے سات لاکھ، اور بنگلہ دیشی تقریباً 2.5 لاکھ ہیں باقی تین لاکھ لوگ دوسرے ایشین ممالک سے ہیں۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے جنوبی ایشیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنی شروع کی تو اس وقت ملازمتوں کی تلاش کرنےوالے ایشین باشندوں کیلئے برطانیہ کے دروازے کچھ حد تک کھولے گئے۔ انگریزوں کے ہاتھوں نپولین کی واٹرلو پر شکست کے بعد برطانیہ کا دارالحکومت لندن (1831 سے لیکر 1925 تک) دنیا کا صرف آبادی کے لحاظ سے ہی سب سے بڑا شہر نہیں بنا بلکہ اس نے دنیا کا سب سے پہلا صنعتی شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔ 1922 میں برطانیہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت بن گیا جو نو آبادیوں کے ذریعے دنیا کے تقریبا 25% حصے پر قابض تھا۔برطانیہ کے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں 1974 کے بعد پہلی دفعہ ایک معلق اسمبلی وجود میں آئی ہے جس میں کنزرویٹیو اور لبرل ڈیموکریٹ سیاسی جماعتوں نے مل کر حکومت بنا لی ہے جس کو مندرجہ ذیل خطرات درپیش ہیں:۔
٭۔ حکومتی اتحاد میں شامل دونوں جماعتوں کی چونکہ سیاسی سوچ اور منطق مختلف ہے اس لیے کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری نہیں کر سکے گی اور وقت سے پہلے انتخابات کروانے پڑینگے۔
٭۔ برطانیہ کا دوسرا بڑا مسئلہ اسکے بجٹ کا بڑھتا ہوا خسارہ ہے۔ جی ڈی پی کے 12% کے برابر بجٹ خسارے کےساتھ برطانیہ پورے یورپ کے 27 ممالک میں سب سے خراب اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بد تر معاشی صورتحال میں گرفتار ہے۔
قارئین کو پتہ ہو گا کہ یونان کا حال ہی میں جب بجٹ خسارہ اپنے جی ڈی پی کے 13.6% کے برابر جا پہنچا تو ملک کا معاشی نظام دھڑام سے گرنے لگا اس صورتحال کو سنبھالا دینے کیلئے یورپین یونین اور آئی ایم ایف کو مل کر یونانی معیشت کو مالی امداد کی ڈرپ لگانا پڑی ۔ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت برطانیہ سے بدتر ہے اور Fight back کرنے کیلئے پاکستان کی برطانیہ کی طرح صنعت مضبوط ہے نہ زراعت۔ ہمارا بجٹ خسارہ ساڑھے چھ سو ارب روپے، دفاع پر خرچ ساڑھے چار سو ارب روپے ، آئی ایم ایف کے قرضوں پر سود ساڑھے چھ سو ارب روپے سالانہ ہے اور ساتھ ہی بدقسمتی سے مرکزی وزراءکی تعداد تقریباً 90 اور حکومتی اخراجات شاہانہ ہیں یعنی ”بھُک بھنگڑے عشق بنیرے“
٭۔ برطانیہ کا تیسرا بڑا مسئلہ برطانیہ کے قرضے ہیں جو اب جی ڈی پی کا تقریباً 80% ہیں اگر یہ قرضے بڑھ کر جی ڈی پی کا 100% ہو گئے تو معاشی ماہرین کی رائے میں برطانیہ کی AAA کریڈٹ ریٹنگ قطعاً قائم نہیں رہ سکے گی جس سے برطانیہ کیلئے مزید معاشی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جن کو متضاد سوچ والا برطانیہ کا موجودہ کمزور سیاسی اتحاد حل نہیں کر سکے گا۔ پاکستانی معیشت کو کنٹرول کرنا بھی موجودہ سیاسی اتحاد کے بس کی بات نہیں لگتی۔
٭۔ اگرچہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ کے دارالحکومت برسلز سے برطانیہ کے دارالحکومت لندن کی اہمیت ہر حالت میں زیادہ ہونی چاہیے۔ برطانیہ کی یہ مجبوری بھی ہے کہ وہ برطانیہ کے معاشی اور سیکورٹی مفادات کی خاطر یورپین یونین سے منسلک رہے۔
پاکستان وجود میں آنے سے پہلے (یکم نومبر 1858 سے لےکر 13اگست1947 تک) برٹش راج کا حصہ تھا۔ پھر ہم کامن ویلتھ کا حصہ بن گئے اور 1956 تک برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم پاکستان کی بھی ملکہ رہیں اسکے بعد جب پاکستان ریپبلک بن گیا تو برطانیہ کے تاج کیساتھ ہمارا تعلق کٹ گیا۔ نومبر 1966 میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے برطانیہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا اور 1997 میں ملکہ برطانیہ پاکستان آئیں۔ سرد جنگ میں برطانیہ اور پاکستان سینٹو کا حصہ رہے۔ 1950 تک برطانیہ دنیا کی سپر پاور تھا لیکن پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہی اور اسکے بعد دنیا بھر سے برطانوی نوآبادیوں کے خاتمے کے بعد برطانیہ جس کی سرزمین پر کبھی سورج غروب نہ ہوتا تھا سکڑ کر موجودہ جزیرے تک محدود ہو گیا لیکن پھر بھی آج وہ دنیا کا ایک بہت اہم ملک ضرور ہے ۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کے علاوہ ایٹمی طاقت برطانیہ ، یورپین یونین ، جی 6، جی8، جی20 ، NATO، OECD، WTO، کونسل آف یورپ اور OSCE وغیرہ کا بنیادی رکن ہے ‘ اس لیے پاکستان برطانیہ سے اپنے معاشی، صنعتی، زرعی، تعلیمی اور عسکری روابط بڑھا کر بہت سارے مفادات حاصل کر سکتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں برطانیہ امریکہ کا فوجی اتحادی ہے۔ حالیہ انتخابات کی مہم میں کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ نے یہ نہیں کہا کہ انتخابات جیت کر وہ افغانستان سے برطانوی افواج کو واپس بلا لے گا‘ اس لیے لگتا یوں ہے کہ برطانیہ اپنی ساری آزادی کے نعروں کے باوجود امریکہ کا بہت عرصے تک ایک طفیلی ملک رہے گا اور 27 ممالک کے یورپین یونین کے مضبوط اتحاد کو اپنی تھانیداری کےخلاف خطرہ سمجھتے ہوئے بھی برطانیہ سیکورٹی اور معاشی مفادات کی خاطر اس اتحاد کے اندر رہنا پسند کرےگا۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ کچھ بین الاقوامی سطح کے دانشور یہ سوچ رہے ہیں کہ اب شاید امریکہ کی نظروں میں برطانیہ کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ 2 جون کے فنانشل ٹائمز میں جارج ٹاون یونیورسٹی کے پروفیسر Charles Kupchan نے لکھا ہے :
\\\"Britain is no longer Amrica\\\'s bridge to Europe\\\"
یعنی امریکہ کو یورپ سے تعلقات استوار کرنے کیلئے اب برطانوی پل کی ضرورت نہیں۔ اس سلسلے میں کالم نگار نے تین وجوہات بتائی ہیں ایک تو یہ کہ اب امریکہ کے برطانیہ کے علاوہ یورپ میں فرانس اور جرمنی سے بھی بہت گہرے تعلقات استوار ہو چکے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی سٹریٹیجک ترجیحات اب یورپ سے مشرق وسطی اور ایشیا میں منتقل ہوگئی ہیں جس کیلئے اس کو یورپ کے سارے ممالک کی افواج کے تعاون کی ضرورت ہے اور برطانیہ کا محدود فوجی بیڑہ ان مقاصد کیلئے اکیلا ناکافی ہے ۔ افغانستان میں 30 ہزار اتحادی فوجیوں میں صرف 10 ہزار برطانوی سپاہی ہیں تیسرا یہ کہ برطانیہ کی معاشی حالت اس وقت دگرگوں ہے۔
قارئین برطانیہ سے پاکستان مندرجہ ذیل اسباق حاصل کر سکتا ہے۔
٭۔ ملک اگر جغرافیائی یا آبادی کے لحاظ سے چھوٹا بھی ہو تو بہترین حکمرانی ، قانون کی بالادستی اور دیانت دارانہ طرز حکومت سے آپ ایک بین الاقوامی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں۔
٭۔ ملکوں کے اندر طاقت کا سر چشمہ صرف عوام کی Will ہے ۔ برطانوی عوام نے عراق، افغانستان جنگوں کو مسترد کرتے ہوئے لیبر پارٹی کو مسترد کر دیا اور ٹونی بلیئر کی انکوائری بھی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں عوام کی منشا کی کوئی اہمیت نہیں اور احتساب نام کی کوئی چیز نہیں۔ اس طرف دھیان دینا ضروری ہے۔
٭۔ برطانیہ کے عوام اور حکومت نے 23 لاکھ ایشین کو صرف روزگار ہی نہیں دیا ہوا ان میں سے سات اہل پاکستانی خواتین و حضرات اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ارکان بھی منتخب ہو گئے ہیں اور ایک پاکستانی نژاد خاتون سعیدہ وارثی ایک حکمران سیاسی جماعت کی سربراہ بھی بن گئی ہے۔ کیا ہم میں یورپین سفید فام باشندوں کو اس طرح برداشت کرنے کا مادہ ہے؟ کیا پاکستانی سیاسی جماعتوں کی قیادت کا تاج کسی غیر ملکی تودرکنار کسی پاکستانی سیاسی کارکن کے سر رکھنے کا کبھی تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔ مارگریٹ تھیچر اور ٹونی بلیئر جیسے بین الاقوامی سطح کے لیڈروں نے اپنی سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے خاندانوں میں رکھنے کی بجائے دوسروں کے حوالے کیوں کر دی؟ کیا پاکستان کا موجودہ نام نہاد جمہوری نظام، جس میں جعلی ڈگریوں والے، کروڑوں روپے رشوت کھانے والے، قرضے ہڑپ کرنےوالے اور ٹیکس نادہندگان اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، پاکستان کو بغیر کسی شک کے تباہی کی طرف لے جائےگا۔
٭۔ خراب معاشی حالات کی وجہ سے نو منتخب وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے حکم دیا ہے کہ صرف چند اہم ترین وزیروں کے علاوہ باقی سارے وزیر سرکاری کاریں نہیں بلکہ عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ کیا پاکستانی اسمبلیوں کے کسی رکن میں یہ جرا¿ت ہے کہ اٹھارویں ترمیم میں وزرا کی تعداد پر جو پابندی لگائی گئی ہے ا س پر اب عمل کروانے کیلئے صدا بلند کرے چونکہ اب ہم اپنی 63 سالہ تاریخ کے بد ترین معاشی بحران کا شکار ہیں ؟ کیا حکمران اتحاد ی جماعتوں کا کوئی ایک سربراہ بھی، ملکی مفاد میں رضا کارانہ طور پر، اپنی ایک وزارت بھی چھوڑنے کو تیار ہے؟ اگر ایسا نہیں تو کیا موجودہ ناقابل یقین اخلاقی دیوالیہ پن، بدترین معاشی بدحالی، کرپٹ ترین ماحول اور عدالتوں کے احکامات سے روگردانی ہمیں اس سنگین صورتحال سے نکال سکے گی؟ جواب اگر نفی میں ہے تو موجودہ نظام زیادہ دیرنہیں چل سکے گا۔ اسکے بعد اگر کوئی یحیٰ خان مل گیا تو انجام کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں لیکن اگر کوئی چو این لائی یا قائد اعظم جیسا با اصول لیڈر فرشتہ رحمت بن کر سامنے آ گیا تو پاکستان برطانیہ سے زیادہ طاقتور، نا قابل تسخیر اور قوموں کی برادری میں قابل احترام بن سکتا ہے۔