معین باری (سابق ایم این اے) ................
Why Don\\\'t You Learn From History?یہ انگریز عسکری مصنف لڈل ہارٹ کی کتاب کا نام ہے جسے عالمی جنگ کے جرمن جنرل اپنا استاد مانتے تھے۔ جس کے دیئے ہوئے عسکری اصولوں پر جرمن ہائی کمان نے اپنی جنگی پالیسی کو ترتیب دیا تھا۔ لڈل ہارٹ لکھتا ہے کہ ”وہ جرنیل جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا ہمیشہ مار کھاتا ہے“۔
انیسویں صدی کی سپرپاور کا فرمانروا نپولین بوناپارٹ جب اپنی تباہ حال فوج کے ساتھ روس سے واپس لوٹا اور دوستوں نے پوچھا کہ اس شکست و ریخت کا موجب کون تھا تو نپولین نے جواب دیا ”General Winter“ یعنی روس کی شدید سردی نے مجھے تباہ کر دیا۔دوسری عالمی جنگ میں جب ہٹلر نے ماسکو پر چڑھائی کر دی تو جرمن فوج برق رفتاری سے فتح کے شادیانے بجاتی ماسکو کے قریب جاپہنچی۔ روسی شہر خالی کرتے فصلوں کو جلاتے پسپا ہوتے گئے حتیٰ کہ جنرل Winter پوری طاقت کے ساتھ آوارد ہوا۔برفباری اور انتہائی سردی نے جرمن فوج کو زچ کر کے رکھ دیا۔ اب روسیوں نے پسپا ہوتے جرمنوں پر گوریلا حملے شروع کر دیئے اس طرح ہٹلر کی فوج کا بھی وہی حشر ہوا جو نپولین کا ہوا۔
انیسویں صدی میں اس وقت کی سپرپاور انگریز نے افغانستان کے امیر دوست محمد خان کو تخت سے اتار کر شاہ شجاع کو افغانستان کا بادشاہ بنا دیا۔ سردیوں میں انگریز فوج واپس ہندوستان جانے پر مجبور ہوئی۔ راستے میں افغانیوں نے انکا تعاقب کیا اور ساری فوج کا صفایا کر دیا۔ صرف ایک انگریز ڈاکٹر برائیڈن بچ کر جاسکا۔ان دنوں مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب کا حکمران تھا۔ اس نے انگریزوں سے دوستانہ تعلقات ہوتے ہوئے بھی فرنگی فوج کو پنجاب سے افغانستان جانے کی اجازت نہ دی۔ شاید سکھ مہاراجہ افغانیوں کی سرائیکی سمجھتا تھا اور ان سے دشمنی مول لیناسلطنت کےلئے باعث ہلاکت۔
انگریزوں نے اس تباہی کا بدلہ لینے کےلئے 1841ءمیں افغانستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ تاریخ میں اسے پہلی افغان وار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انگریز فوج نے کابل پہنچ کر افغانیوں کا وہی حشر کیا جو فوج کشی کے آغاز میں 20ویں صدی کے آخر میں روس اور 21ویں صدی کے شروع میں امریکہ نے کیا تھا۔ انتقام لینے کے بعد انگریز فوج واپس ہوئی۔ دروں اور شاہرہوں پر افغان گوریلوں نے انکا بہت نقصان کیا‘ پھر 40 سال تک انگریز کو جرا¿ت نہ ہوئی کہ افغانستان پر فوج کشی کرے۔
1878ءمیں سرلوئس کیوگنارسی کابل میں انگریزوں کے سفیر تھے۔ سفارت خانہ کی حفاظت کےلئے لیفٹیننٹ ہملٹن 70 انگریز فوجیوں کے ساتھ موجود تھا۔ ایک ہندوستانی بریگیڈیئر بھی تھا۔ افغانیوں پر وہی پرانا جنون غالب آیا۔ ایمبسی کو گھیرے میں لےکر سفارتکاروں کو قتل کر دیا۔ بدلہ لینے کےلئے انگریز فوج نے 1879ءمیں کابل کی طرف پیشقدمی کی۔ یہ جنگ 3 سال تک جاری رہی۔ بالاحصار مائیوند کی لڑائیاں قابل ذکر ہیں۔ انگریز نے کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ قتل عام کیا۔ بازاروں کو جلا دیا۔ سرداروں کو پھانسیوں پر لٹکا دیا‘ پھر افغانیوں نے قابض انگریز فوج کےخلاف گوریلا جنگ شروع کر دی۔ سردیوں میں افغان گوریلوں نے انگریزوں کی لائن آف سپلائی کاٹ دی اور چھاﺅنیوں کو گھیرے میں لے لیا۔ آخر انگریز فوج بھاری نقصان کےساتھ بولان پاس، کوئٹہ اور درگئی کے راستے پسپا ہوئی۔
پھر روسیوں نے بیسویں صدی کے آخر میں وہی غلطی کی، روسی حکمرانوں نے افغانی قوم کی عادات و خصائل سے بے پروا ہو کر افغانستان پر یلغار کر دی۔ افغان قبائل 13 سال تک اس سپر طاقت کےخلاف لڑتے رہے اور 15 لاکھ نفوس اس جنگ کی نظر کر دیئے۔ ایک لاکھ روسی فوجی بھی مارے گئے۔ امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بنا کر مجاہدین کی بھرپور مدد کی۔ دنیائے اسلام اور پاکستان سے ایک لاکھ مجاہدین روس سے جنگ کےلئے افغانستان پہنچ گئے۔ سالہا سال کی خونر یزی کے بعد جب روسیوں کو احساس ہوگیا کہ وہ مجاہدین کو بزور شمشیر تابع نہیں کر سکتے تو اپنی فوج کو واپس بلا لیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی سپر طاقت کسی ملک پر حملہ آور ہوئی اتحادیوں کی فوجیں اسکے ساتھ آئیں۔ امریکہ نے 40 نیٹو ممالک کی مسلح افواج کےساتھ افغانستان پر فوج کشی کی جہاں پاکستانی حکومتوں اور مسلح افواج نے بھرپور ساتھ دیا۔ سالہا سال کی خونریز جنگوں میں دونوں اطراف بھاری جانی نقصان ہوا۔ امریکہ اور اتحادیوں کا بھاری بھرکم جنگی بیڑا افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں پھنس کر رہ گیا۔ وہ قبائلی جو پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کے محافظ تصور کئے جاتے تھے پاک فوج سے لڑ پڑے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ انہیں لڑا دیا گیا۔ اس طرح ملک کے اندر گوریلا جنگ شروع ہوگئی۔ پاکستانی دوست قبائل دشمن بنے دوسری طرف ڈیڑھ لاکھ پاک فوج مغربی سرحدوں پر تعینات کر دی گئی‘ جو سوات، مالاکنڈ، دیر، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں کئی آپریشن کر چکی ہیں‘ جن میں تین ہزار فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ اموات 65 اور 71 جنگوں سے زیادہ ہیں۔
اب امریکہ انتظامیہ اور ہائی کمان کا پرزور مطالبہ ہے کہ پاک فوج اور فضائیہ طالبان کےخلاف شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کرے۔ جنوبی وزیرستان میں آپریشن سے پہلے بعض مغربی صحافیوں کی رائے تھی کہ ”وزیرستان میں آپریشن پاک فوج کےلئے خودکشی کے مترادف ہوگا“۔ خدا کا شکر ہے کہ آپریشن بہت حد تک کامیاب رہا‘ ابھی تک پاک فوج کے سربراہ جنرل کیانی شمالی وزیرستان میں اپریشن سے انحراف کر رہے ہیں۔ شاید اس لئے کہ وہ تاریخی حقائق سے باخبر ہیں اور قبائلیوں سے مزید جنگ کر کے پاک فوج کو کمزورکرنا اور نہ دو محاذوں پر الجھانا چاہتے ہیں۔لیکن تاریخ سے بے خبر وزیر دا شاہ محمود قریشی اپریشن پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ (جاری ہے)
Why Don\\\'t You Learn From History?یہ انگریز عسکری مصنف لڈل ہارٹ کی کتاب کا نام ہے جسے عالمی جنگ کے جرمن جنرل اپنا استاد مانتے تھے۔ جس کے دیئے ہوئے عسکری اصولوں پر جرمن ہائی کمان نے اپنی جنگی پالیسی کو ترتیب دیا تھا۔ لڈل ہارٹ لکھتا ہے کہ ”وہ جرنیل جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا ہمیشہ مار کھاتا ہے“۔
انیسویں صدی کی سپرپاور کا فرمانروا نپولین بوناپارٹ جب اپنی تباہ حال فوج کے ساتھ روس سے واپس لوٹا اور دوستوں نے پوچھا کہ اس شکست و ریخت کا موجب کون تھا تو نپولین نے جواب دیا ”General Winter“ یعنی روس کی شدید سردی نے مجھے تباہ کر دیا۔دوسری عالمی جنگ میں جب ہٹلر نے ماسکو پر چڑھائی کر دی تو جرمن فوج برق رفتاری سے فتح کے شادیانے بجاتی ماسکو کے قریب جاپہنچی۔ روسی شہر خالی کرتے فصلوں کو جلاتے پسپا ہوتے گئے حتیٰ کہ جنرل Winter پوری طاقت کے ساتھ آوارد ہوا۔برفباری اور انتہائی سردی نے جرمن فوج کو زچ کر کے رکھ دیا۔ اب روسیوں نے پسپا ہوتے جرمنوں پر گوریلا حملے شروع کر دیئے اس طرح ہٹلر کی فوج کا بھی وہی حشر ہوا جو نپولین کا ہوا۔
انیسویں صدی میں اس وقت کی سپرپاور انگریز نے افغانستان کے امیر دوست محمد خان کو تخت سے اتار کر شاہ شجاع کو افغانستان کا بادشاہ بنا دیا۔ سردیوں میں انگریز فوج واپس ہندوستان جانے پر مجبور ہوئی۔ راستے میں افغانیوں نے انکا تعاقب کیا اور ساری فوج کا صفایا کر دیا۔ صرف ایک انگریز ڈاکٹر برائیڈن بچ کر جاسکا۔ان دنوں مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب کا حکمران تھا۔ اس نے انگریزوں سے دوستانہ تعلقات ہوتے ہوئے بھی فرنگی فوج کو پنجاب سے افغانستان جانے کی اجازت نہ دی۔ شاید سکھ مہاراجہ افغانیوں کی سرائیکی سمجھتا تھا اور ان سے دشمنی مول لیناسلطنت کےلئے باعث ہلاکت۔
انگریزوں نے اس تباہی کا بدلہ لینے کےلئے 1841ءمیں افغانستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ تاریخ میں اسے پہلی افغان وار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انگریز فوج نے کابل پہنچ کر افغانیوں کا وہی حشر کیا جو فوج کشی کے آغاز میں 20ویں صدی کے آخر میں روس اور 21ویں صدی کے شروع میں امریکہ نے کیا تھا۔ انتقام لینے کے بعد انگریز فوج واپس ہوئی۔ دروں اور شاہرہوں پر افغان گوریلوں نے انکا بہت نقصان کیا‘ پھر 40 سال تک انگریز کو جرا¿ت نہ ہوئی کہ افغانستان پر فوج کشی کرے۔
1878ءمیں سرلوئس کیوگنارسی کابل میں انگریزوں کے سفیر تھے۔ سفارت خانہ کی حفاظت کےلئے لیفٹیننٹ ہملٹن 70 انگریز فوجیوں کے ساتھ موجود تھا۔ ایک ہندوستانی بریگیڈیئر بھی تھا۔ افغانیوں پر وہی پرانا جنون غالب آیا۔ ایمبسی کو گھیرے میں لےکر سفارتکاروں کو قتل کر دیا۔ بدلہ لینے کےلئے انگریز فوج نے 1879ءمیں کابل کی طرف پیشقدمی کی۔ یہ جنگ 3 سال تک جاری رہی۔ بالاحصار مائیوند کی لڑائیاں قابل ذکر ہیں۔ انگریز نے کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ قتل عام کیا۔ بازاروں کو جلا دیا۔ سرداروں کو پھانسیوں پر لٹکا دیا‘ پھر افغانیوں نے قابض انگریز فوج کےخلاف گوریلا جنگ شروع کر دی۔ سردیوں میں افغان گوریلوں نے انگریزوں کی لائن آف سپلائی کاٹ دی اور چھاﺅنیوں کو گھیرے میں لے لیا۔ آخر انگریز فوج بھاری نقصان کےساتھ بولان پاس، کوئٹہ اور درگئی کے راستے پسپا ہوئی۔
پھر روسیوں نے بیسویں صدی کے آخر میں وہی غلطی کی، روسی حکمرانوں نے افغانی قوم کی عادات و خصائل سے بے پروا ہو کر افغانستان پر یلغار کر دی۔ افغان قبائل 13 سال تک اس سپر طاقت کےخلاف لڑتے رہے اور 15 لاکھ نفوس اس جنگ کی نظر کر دیئے۔ ایک لاکھ روسی فوجی بھی مارے گئے۔ امریکہ نے پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی بنا کر مجاہدین کی بھرپور مدد کی۔ دنیائے اسلام اور پاکستان سے ایک لاکھ مجاہدین روس سے جنگ کےلئے افغانستان پہنچ گئے۔ سالہا سال کی خونر یزی کے بعد جب روسیوں کو احساس ہوگیا کہ وہ مجاہدین کو بزور شمشیر تابع نہیں کر سکتے تو اپنی فوج کو واپس بلا لیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی سپر طاقت کسی ملک پر حملہ آور ہوئی اتحادیوں کی فوجیں اسکے ساتھ آئیں۔ امریکہ نے 40 نیٹو ممالک کی مسلح افواج کےساتھ افغانستان پر فوج کشی کی جہاں پاکستانی حکومتوں اور مسلح افواج نے بھرپور ساتھ دیا۔ سالہا سال کی خونریز جنگوں میں دونوں اطراف بھاری جانی نقصان ہوا۔ امریکہ اور اتحادیوں کا بھاری بھرکم جنگی بیڑا افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں پھنس کر رہ گیا۔ وہ قبائلی جو پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کے محافظ تصور کئے جاتے تھے پاک فوج سے لڑ پڑے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ انہیں لڑا دیا گیا۔ اس طرح ملک کے اندر گوریلا جنگ شروع ہوگئی۔ پاکستانی دوست قبائل دشمن بنے دوسری طرف ڈیڑھ لاکھ پاک فوج مغربی سرحدوں پر تعینات کر دی گئی‘ جو سوات، مالاکنڈ، دیر، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں کئی آپریشن کر چکی ہیں‘ جن میں تین ہزار فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ اموات 65 اور 71 جنگوں سے زیادہ ہیں۔
اب امریکہ انتظامیہ اور ہائی کمان کا پرزور مطالبہ ہے کہ پاک فوج اور فضائیہ طالبان کےخلاف شمالی وزیرستان میں بھی آپریشن کرے۔ جنوبی وزیرستان میں آپریشن سے پہلے بعض مغربی صحافیوں کی رائے تھی کہ ”وزیرستان میں آپریشن پاک فوج کےلئے خودکشی کے مترادف ہوگا“۔ خدا کا شکر ہے کہ آپریشن بہت حد تک کامیاب رہا‘ ابھی تک پاک فوج کے سربراہ جنرل کیانی شمالی وزیرستان میں اپریشن سے انحراف کر رہے ہیں۔ شاید اس لئے کہ وہ تاریخی حقائق سے باخبر ہیں اور قبائلیوں سے مزید جنگ کر کے پاک فوج کو کمزورکرنا اور نہ دو محاذوں پر الجھانا چاہتے ہیں۔لیکن تاریخ سے بے خبر وزیر دا شاہ محمود قریشی اپریشن پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ (جاری ہے)