مہنگائی:انسدادی اقدامات کی ضرورت
ملک میں اشیاء خوردونوش کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ عوام کی قوت خرید مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث امیر اور غریب میں معاشی خلیج بھی وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ قانون کی حکمرانی معدوم اور مفقود ہے۔ ایک ہی چیز کے صبح کو نرخ کچھ اور ہوتے ہیں، شام کو اور۔ سرکاری ادارے اعدادوشمار جاری کرکے متعلقہ حکام کو خبردار کرتے ہیں کہ مہنگائی کا گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے۔ 2021-22ء کے بجٹ کے اثرات مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے دوران چینی، آلو، ٹماٹر، انڈے، پیاز، لہسن، مٹن، بیف، بناسپتی گھی، صابن، دال چنا، کھلا دودھ اور ایل پی جی سمیت 23 اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ 9 چیزیں سستی ہوئیں جبکہ 19 کی قیمتیں مستحکم رہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جن اشیاء کی قیمتیں کم ہوتی ہیں، ان کا بھی بآسانی حصول دشوار ہوکر رہ جاتا ہے اور مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بجٹ کے بعد تو مہنگائی تھمنے کو نہیںآ رہی ، ہر روز منی بجٹ آرہا ہے۔ کبھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے جاتے ہیں، کبھی عوام پر بجلی گرائی جاتی ہے۔ آ ج چینی، گھی، سبزیوں اور دیگر اشیاء خوردونوش کے نرخ تو قابو میں ہی نہیں آرہے۔ ناجائز منافع خور مافیا نے حکومتی رٹ کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ حکومت عوام کی بھلائی کیلئے فوری اقدامات کرے۔ ایسا نہ ہو کہ منہ زور مہنگائی عوام کے منہ سے نوالہ تک چھین کر لے جائے اور گورننس خواب بن کر رہ جائے۔ اشیاء خوردونوش کی ارزاں نرخوں پر فراہمی یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ گورننس بھی تب ہی نظر آئے گی جب حکومتی رٹ پوری طرح نافذ ہوگی۔