کیا پاکستان کورونا وبا کا عروج دیکھ چکا
اس وقت ہر پاکستانی کے ذہن میں کورونا کے حوالے سے ایک ہی سوال ہے کہ کیا کورونا اپنے جوبن پر پہنچ کر دم توڑ رہا ہے یا اس میں نظر آنے والی کمی یا سستی عارضی ہے اور یہ ایک بار پھر سر اٹھا ئے گا۔اگر کورونا وائرس کے حوالے سے اعداد و شمار کو بغور دیکھا جائے تو جون کے آغاز سے وسط جون تک ملک میں یومیہ متاثرین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ پاکستان میں یومیہ متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد 13 اور 14 جون کو دیکھی گئی تھی جو یومیہ6500 سے تجاوز کر گئی تھی۔پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں خود وزیراعظم پاکستان عمران خان کا کہنا تھا کہ کورونا کا عروج جولائی کے آخری دنوں میں یا اگست کے اوائل میں ہو گا۔ مگرگزشتہ دنوں حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ شاید ابتدائی اندازوں کے برعکس حالات جولائی کے پہلے ہی ہفتے میں بہتری کی جانب جانے لگے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان میں کورونا اپنی جوبن پر پہنچ چکا یا پاکستانی کورونا کا عروج دیکھ چکے۔کورونا کی آمد کے بعد سے اگر سرکاری اعداد و شمار کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو ایک دو بار اس سے ملتی جلتی صورتحال ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں جب مریضوں کی تعداد کم ہونا شروع ہوئی لیکن عیدالفطر کے بعد اس میں نہ صرف تیزی آئی بلکہ تعداد میں خاصا اضافہ بھی نظر آیا۔کورونا ایڈوائیزری کمیٹی کے چیئرمین کہتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ مریضوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ واقعتاً پاکستان اس وائرس کی انتہا سے گزر چکا ہے۔اگر ہم سائنسی اعتبار سے دیکھیں تو اس کے لیے ماہرین ’آر نوٹ‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، جس سے ہم یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ وائرس کا پھیلاؤ اس وقت کتنا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق جون کے مہینے میں آر نوٹ 2.25 فیصد تھا جو کہ اب ایک فیصد ہوچکا ہے لیکن یہاں یہ بات اہم ہے کہ اس سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس وائرس کی انتہا یا عروج دیکھ چکے اور اب اس کے زوال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اس کے لیے اس میں مسلسل کمی آنی ضروری ہے کسی ایک دن بھی گزشتہ دنوں کی نسبت اضافہ اس بات کی نفی کردے گا ہم بہتری کی طرف جارہے ہیں۔کچھ ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ ممکن ہے کمی کی وجہ یہ بھی ہو کہ ٹیسٹ ہی کم کیئے جارہے ہوں ظاہر ہے جب ٹیسٹ ہی کم کیئے جائیں گے تو نئے مریضوں کی تعداد میں بھی کمی آئے گی۔ جب کہ حکومت اس بات کی نفی کرتے ہوئے کہتی ہے کہ جتنے بھی ٹیسٹ کیئے جا رہے ہیں، چاہے روزانہ ایک ہزار یا دس ہزار ان میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو کہ کورونا میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ یعنی ہم اس شرح کا جائزہ لیتے ہیں کہ کُل کیئے گئے ٹیسٹوں میں سے کتنے لوگوں میں مرض کی تصدیق ہوتی ہے۔یہاں ایک بات اور بھی اہم ہے کہ ہمارے یہاں صرف ان لوگوں کے کورونا کے ٹیسٹ کیئے جارہے ہیں جن میں کورونا سے متاثر ہونے کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔دوسرا یہ کہ اب بیرونِ ملک سے آنے والوں کے بھی پالیسی کی تبدیلی کے بعد ٹیسٹ نہیںکیئے جارہے۔دوسری اہم بات یہ کہ کورونا کے حوالے سے ابتدائی وقت میں کچھ اس طرح کی خبریں آئیں جس کے بعد لوگوں نے علامات ظاہر ہونے پر بھی اس کو چھپایا۔ ایک اچھی اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ شدید بیمار مریضوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس میں کمی آنے کی کئی دوسری وجوہات بھی ہوسکتی ہیں جیسا کہ لوگوں میں اس حوالے سے مزید شعور آیا ہے اور لوگوں نے احتیاطی تدابیر اپنائی ہیں اور علامات ظاہر ہوتے ہی علاج کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ احتیاط کی۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ آنے والے دن پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں کیوں کہ عید الضحیٰ قریب ہے اور جانوروں کی خریداری نمازِ عید کے اجتماعات اور قربانی کا اہتمام اگر ان تمام کی ادائیگی میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لیا گیا تو ان شاء اللہ ہم اسی طرح کورونا سے دور ہوتے رہیں گے اور اگر پھر کوتاہی برتی تو شاید ہم اس کے شکنجے میں مزید سختی سے پھنس جائیں۔ کیوں کہ امریکہ سمیت کئی ممالک میں صورتحال دیکھ کر اندازہ لگایا گیا تھا کہ یہ کورونا کا عروج دیکھ چکے اور اب یہ زوال پذیر ہے لیکن اب پھر سے اس میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔