طویل لوڈشیڈنگ اُووربلنگ سیاسی بازی گراورکے الیکٹرک ..
کراچی مُلک کا معاشی حب ہے جِسے مفلوج کرنے میں آج کل کے الیکٹرک پیش پیش ہے۔اَب اِس میں شک نہیں کہ کے الیکٹرک نے کراچی والوں کو پتھرکے دور میں دھکیل دیاہے۔آج کے الیکٹرک میں 26فیصد شیئررکھنے والی وفاقی حکومت اپنی بے بسی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کیوں احتجاج کررہی ہے؟۔کیااِس کا کے الیکٹرک پر حکم نہیں چل رہاہے؟کیوں کے الیکٹرک کے خلاف وفاق چشم پوشی اختیار کیئے ہوئے ہے؟ کیوں وفاقی حکومت کے الیکٹرک کے خلاف عدالت کا دروزہ نہیں کھٹ کھٹارہی ہے؟ کیوں وفاقی حکومت شہر سے کے الیکٹرک کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے بجلی کی دوسری تقسیم کارکمپنیوں کو اجازت نامہ نہیں دے رہی ہے؟جب کہ اِس سے بھی اِنکار نہیں ہے کہ کے الیکٹرک نے دس سال میں صریحاََ اپنی نااہلی سے گیس اور فرنس آئل کی کمی ،مرمت اور بہانے بہانے سے کی جانے والی طویل لوڈشیڈنگ سے شہرکراچی کو اندھیروں میں غرق کرکے بھی اووربلنگ سے اربوں ، کھربوں کماکر مُلکی معیشت کو بیمار اور مسمار کرنے میں اپنا کردار اپنا فریضہ سمجھ کر اداکیا ہے۔ ایسا کے الیکٹرک نے اِس لئے کیا ہے کہ اِس نے اپنی آمدنی سے خود ایک یونٹ بجلی بھی پیدانہیں کی ہے۔ جب کہ اِس کے اِس فعلِ شنیع پر ماضی سے آج تک شہر کی سیاسی جماعتیں اور وفاق بھی خاموش ہے جس سے کے الیکٹرک کوہمیشہ تقویت ملی ۔خدارااَب ہمارے وفاقی وزراء عمرایوب اور اسد عمر کے الیکٹرک مافیا کی کسی جھوٹی تسلی اور لولی پاپ میں نہ آئیں کہ کے الیکٹرک اپنے سسٹم کو 2022تک اَپ گریڈ کرلے گا ۔اِس طرح دوسال بعد شہر کراچی سے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ختم ہوجائے گا ۔ارے بھئی...!! ایسی جھوٹی تسلی تو کے الیکٹرک دس سال سے پہلی والی حکومتوں کو دیتاآیاہے۔یقین ہے کہ اِس مرتبہ بھی کے الیکٹرک پھر کچھ نہ کرکے جھوٹی تسلی پر ٹرخا رہاہے۔خدشہ ہے کہ پھر ہماری حکومت ، وزراء اور عوام سبزخوابوں کی لولی پاپ لے کرپہلے والوں کی طرح بہل نہ جائیں ۔آج یہ تشویش ناک سوچ شہر قائد میں رہنے والے ہر اُس شہری کی ہے۔ جو کافی عرصے سے کے الیکٹرک کی ہٹ دھرمی سے ڈساہوا ہے۔ ،پچھلے دِنوں مون سون کی پہلی بارش میں بادلوں نے کراچی میں چند بالٹی پانی کیا گرایا؟ جب سے شہر کراچی میں کے الیکٹرک کی بجلی پرجاری غنڈہ گردی سے سارے ہی شہر میں اندھیروں کا ناختم ہونے والا راج ہے۔ جب کہ کے الیکٹرک کی نااہلی اور غفلت کے باعث بارش کی دو بوند سے رگِ گل سے بھی نازک سِلورکے تار ٹوٹنے اور کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہلاکتوں نے اہلیانِ کراچی، حکومت اور اپوزیشن میں کے الیکٹرک کے خلاف غم و غصہ بڑھادیاہے ۔جب کہ اُدھر کراچی میں مون سون سے قبل اور بعد میں ہونے والی کئی کئی گھنٹوں کی طویل لوڈشیڈنگ اوراُووربلنگ پر قومی اسمبلی اجلاس میں بھی حکومت اور اپوزیشن (نہ چاہتے ہوئے بھی دنیا دِکھاوے کے لئے ہی سہی)یک زبان تو ہورہے ہیں۔ مگر اِن کا ایسا کرنا بھی محض اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے ہی لگتا ہے۔اِس میں اہلیانِ کراچی کے دُکھ درد ، تکالیف کا احساس بہت کم معلوم دیتاہے ۔بہر حال ،آج اگر یہ سب واقعی کراچی والوں کے ساتھ مخلص ہیں تو پھر خاص طور تمام سیاسی جماعتیں مل کر حکومت پر اپنا دباؤ بڑھائیں کہ بس بہت ہوچکی ہے۔ اَب کے الیکٹرک کا باب کراچی سے بند کیا جائے ۔ پی ٹی آئی جس کی وفاق میں حکومت ہے یہ کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کرنے میں ذرابھی دیر نہ کرے جس نے اپنے فعلِ شنیع (کئی کئی گھنٹوں اور دنوں کی لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ سے) مُلک کے معاشی حب کراچی کی ترقی کا پہیہ روک دیاہے۔دس سال سے یہ کے الیکٹرک شہر کو اندھیرے میں ڈبونے کا رول بھی اداکررہاہے۔ اورکمابھی اندھادھن رہاہے مگر پھر بھی نہ بجلی مہیا کررہاہے اور نہ پیدا کررہاہے۔ غرض یہ کہ کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے دس سال میں ایک یونٹ کی بھی بجلی خود سے پیدانہیں کی ہے۔ اُلٹا کے الیکٹرک وفاق اور دوسرے صوبوں سے اپنی مرضی کے سیکڑوں اورہزاروں میگا واٹس بجلی مانگ تانگ کراپنا کام چلارہاہے ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ہے طویل لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ سے اربوں اور کھربوں کماکر اپنا اُلو سیدھا کررہاہے۔آج بھی کے الیکٹرک اِس روش پر قائم ہے مگر کوئی اِس کے خلاف کچھ بولنے اور کارروائی کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔کیوں کہ شہرکراچی کو سب نے سونے کا انڈادینے والی مرغی سمجھ لیا ہے۔ تو کے الیکٹرک کو اِس مرغی کا چوکیدار بنا کر سب مل بانٹ کر آپس میں کماکھارہے ہیں۔اِس سارے منظرنامے کا جائزہ لیں تو دس سال سے کے الیکٹرک اور سیاستدانوں کی لوٹ کھسوٹ سب کے سامنے ہے۔تعجب ہے کہ آج کس منہ سے کے الیکٹرک پر احتجاج کی دُکانیں سجانے والے اپنا ریٹ بڑھانے کے لئے ڈرامہ بازی کررہے ہیں۔تب یہ ساری کراچی کی سیاسی جماعتیں کہاں سُو گئیں تھیں؟ جب پرویزمشرف کے ای ایس سی کی نجکاری کررہے تھے۔ اُس وقت کسی نے پرویز مشرف کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت کیوں نہ کی؟بالخصوص متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پی ایس پی والے سارے کراچی کے ٹھیکیدار بنے رہنما ء کیوں خاموش تھے۔ آج بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ اِن دِنوں جتنے بھی کے الیکٹرک کے مرکزی آفس کے سامنے اور اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کے پروگرام بنارہے ہیںاگر اِن کے دِلوں میں شہرکراچی کے باسیوں کی تکالیف اور شہرقائد کی معیشت کی تباہی کا ذرابھی درد ہے۔ تو پھر سب مل کر حقیقی معنوں میں کے الیکٹرک کو دوبارہ قومی تحویل میں لینے تک حکومتی فیصلہ کرواکر ہی اپنے احتجاجوں اور دھرنوں کی سجی دُکانیں سمیٹ کر اُٹھیں۔