اردو سے مذاق کب تک ؟
جس طرح نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سُنتا ہے بالکل اُسی طرح مقتدر طبقوں میں اُردو کی آواز کون سُنتا ہے لیکن اُردو میں لکھنے والے اُردو زبان کو اُس کا حق دِلوانے کے لئے اپنی سی کوشش کرتے رہیں گے۔پڑھنے والے گاہے بگاہے اِن صفحات پر اُردو زبان کی حق تلفی پر احتجاج پڑھتے رہتے ہیں ۔ اُردو زبان کا ہم سب پر یہ حق ہے کہ ہم اُ سے اُس کا جائز مقام دِلائیں ۔اپنی زبان میں تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں بیٹھنے والے افراد اِس کو نافذ نہیں ہونے دیتے ۔خود ہر ایک حکومت اُردو ذر یعہء تعلیم میں سب سے بڑی رُکاوٹ بنتی رہی ہے اور اب بھی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے ملک کی سُپریم کورٹ نے حکومت کو کہا تھا کہ جلد از جلد تمام تر دفتری لکھت پڑھت اُردو زبان میں کی جائے نیز وفاقی اور صوبائی سطح کی مُلازمتوں کے تحریری اور زُبانی امتحانات بھی اُردو میں لئے جائیں۔ بجائے اِس کے کہ اِس حکم پر فوری عمل درآمد ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہا یہ گیا کہ ایسے کاموں کے لئے کچھ مہلت درکار ہو تی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ کمال کی بات ہے کہ حزبِ اختلاف سیاسی پارٹیوں ، دینی پارٹیوں اور دیگر ’ تھینک ٹینکوں ‘ کی طرف سے اِس حکم کے نفاذ کے لئے کوئی بیان بھی سامنے نہیں آتا بلکہ اب تو یہ حکم بھی قصّہء پارینہ بن چکا۔ وہ تمام چہرے جو مختلف ٹی وی چینلوں پر تواتر سے نظر آتے ہیں ، اِس سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہتے ۔ گویا اُن کی نظر میں اِس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ آج بھی طلباء کی اکثریت اُردو ذریعہء تعلیم کے تحت ثانوی جماعتوں میں بہترین نمبر لے کر جب اپنی قابلیت کی بُنیاد پر میڈیکل، انجینئرنگ یا اِس طرح کے دیگر پیشہ ورانہ کالجوں میں آتی ہے تو راتوں رات سب کچھ انگریزی میں پڑھایا جا نے لگتا ہے۔ چلیں اِن کے اساتذہ اِن کی مُشکلات کو دیکھتے ہوئے اُردو میں سمجھا بھی دیں تو تقریباََ تمام ہی کِتابیں انگریزی میں دستیاب ہیں۔اُردو کے نفاذ میں یہ واقعی ایک بہت بڑی رُکاوٹ ہے۔اور اِسی بات کو اردو زبان میں اعلیٰ تعلیم دینے کی مُخالفت کرنے والے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔نہ جانے دینی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما اِس مسئلے پر کوئی بات کیوں نہیں کرتے۔ حیرانی اِس بات کی ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین درس گاہوں کے حاضر اور ریٹائرڈ اساتذہ ، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کرتا دھرتا، وزارتِ تعلیم کے بزرجمہروں نے بھی کبھی اِس مسئلے کا حل نہیں سوچا۔کوئی کام نہ کرنے کے سو بہانے مگر قیامِ پاکستان سے قبل آخر جامعہ عثمانیہ بھی تو ایک مستند نام تھا۔کیا وہاں اُردو میں اعلیٰ تعلیم نہیں دی جاتی تھی؟ شعبہ تصنیف و تالیف تو جامعہ کراچی میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے زمانے میں بھی قائم ہوا تھا۔ کام بھی ہوا ۔۔۔۔ ۔۔۔ کیااِس جامعہ یا ملک کی دیگر جامعات میں قابِل لوگوں کی کوئی کمی واقع ہو گئی ہے؟کیا کوئی ایک بھی ایسا نہیں جِس کے دِل میں قوم کا درد ہو تو وہ خود اِس سلسلے میں آگے بڑھ کر میڈیکل اور دیگر پیشہ ورانہ نصاب کی کتابوں یا ڈاکٹریٹ کرنے والوں کے مقالات کا اُردو ترجمہ کر ے یا کروائے ؟ کیا انجمنِ ترقیء اُردو سے یہ کام نہیں کروایا جا سکتا؟ نظامِ تعلیم کی بات کرنا تو مذاق بن کر رہ گیا ہے۔کوئی ایک نظام پر اِتفاق کر کے نہ جانے کیوں نافذ نہیں کیا جاتا۔کئی ایک نظام چل رہے ہیں۔ ایک نظام میں وہ درس گاہیں آتی ہیں جہاں پڑھنے کا عوام سوچ بھی نہیں سکتے، پھر وہ درس گاہیں آتی ہیں جہاں کچھ لوگ اپنی ضروریات اور پیٹ کاٹ کر بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ اِس کے بعد گلی محلے کے انگریزی میڈیم اسکول آتے ہیں اور آخر میں سرکاری اسکول کا نمبرہے۔ مرکزی حکومت کے تحت چلنے والے فیڈرل گورنمنٹ اسکول اور صوبائی حکومتوں کے تحت چلنے والے گورنمنٹ اسکول ، جہاں سب اسکولوں سے زیادہ طلباء اور طالبات ہوتے ہیں۔اس اکثریت کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی گئی حالانکہ یہ ملک کا 70 فی صد ہے۔ نظامِ تعلیم کے تضاد نے واضح طور پر معاشرے میں دو نمایاں گروہ پیدا کر دیے ہیں۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلا گروہ اشرافیہ ( ایلیٹ ) طبقہ جو حکومت کرنے کے لئے ہی پیدا ہوا ہے اور دوسرا گروہ باقی 70 فی صد ہیں جو کبھی بھی اعلیٰ عہدوں پر نہیں پہنچ پاتے ۔۔۔۔۔۔۔ اِس تقسیم نے مجموعی طور پر معاشرے میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ کبھی بھی کوئی چیز ناممکن نہیں رہی۔جب کسی نے کوئی کام کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا تو پھر اُس کو مکمل کرنے میں کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آئی۔اِس کی سب سے بڑی مثال تُرکی کے اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا ہیں ۔ اُن کا فیصلہ غلط تھا یا درست ، اِس سے بحث نہیں، لیکن اُنہوں نے جب یہ فیصلہ کیا کہ تُرکی زبان عربی رسم الخط کے بجائے رومن رسم الخط میں لکھی جائے گی تو اِس کے نفاذ میں نہ کوئی دیر ہوئی، نہ کوئی رُکاوٹ آئی اور نہ ہی کوئی دقت پیش آئی۔بالآ خر عوام نے نہ صرف اِسے قبول کیا بلکہ بغیر کسی لیت و لعل کے اِس پر عمل درآمد بھی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس لئے کہ حکمران ایسا کرنے میں پر خلوص تھا اور نفاذ کی طاقت بھی رکھتا تھا۔اب اگر اُردو زبان کو ذریعہء تعلیم نہیں بنایا جاتا ، دفتری زبان نہیں بنایا جاتا ، مہلت مانگی جاتی ہے تو اِس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا ہمیں کبھی کوئی ایسا حکمران مِلے گا جو کم از کم عدالتی فیصلے کو تو تمام گروہی اور سیاسی مفاد سے بالا تر ہو کر نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہو !! ۔۔۔۔۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ۔ہر ایک حکومت اپنے وقت کے چھوٹے سیاسی گروپوں ؍ پارٹیوںکے دبائو میں رہتی ہے۔ملکی مفاد سے زیادہ اُنہیں اپنی کرسی عزیز ہوتی ہے۔اُردو زبان کا معاملہ تو رہا ایک طرف ۔۔۔۔۔۔ یہاں تو ملکی ترقی کے بڑے بڑے منصوبوں پر بھی حکومت ’ دبائو ‘ میں آ جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کیا ڈیم ، کیا بندر گاہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِن تک میں تو حکومتیں دھڑلے سے کوئی فیصلہ نہیں کر پاتیں ۔ ملکی مفاد کوئی نہیں دیکھتا، سب کو اپنی کُرسی عزیز ہوتی ہے۔پھر بھی ہم امید رکھتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی ، کوئی نہ کوئی ایسا شخص ضرور آئے گا جو گروہی اور سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر صرف اور صرف ملکی مفاد کی خاطر فیصلے کرے گا اور نافذ بھی کروائے گا۔شاید تبھی ہماری پیاری زبان اُردو کو بھی اُس کا حق مِل جائے اور معاشرے کے تمام طبقات کو بھی اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کے یکساں مواقع ملیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔