شخصی آزادی
کہتے ہیں متوسط طبقہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتا ہے کیونکہ دولت مند اور نچلے طبقے کو خود میں مگن رہنا اتنا پسند ہوتا ہے کہ اردگرد کیا ہورہا ہے انھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر اب دن بہ دن بڑھتے ہوئے واقعات نے سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کردیا ہے کہ یہ ہمارے معاشرہ میں ہو کیا رہا ہے؟؟کیا سوچھ سمجھ ناپید ہوتی جارہی ہے؟؟یا پھر دماغ پر تالے لگادیئے ہیں اور چابیاں سمندر میں بہادی ہیں۔اخبار ات میں یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ باپ نے بچے کو معمولی فرمائش پر گاڑی کے آگے پھینک دیا،شوہر نے بیوی کو خرچہ مانگنے پر قتل کردیا۔آفسوس آج ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہونے کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ یہاں والدین سمیت ہر دوسرا شخص کسی کی زندگی کی ڈور اپنے ہاتھ میں تھامنا چاہتا ہے اور اس حد تک تھامنا چاہتا ہے کہ اس شخص کاسانس بھی وہ اپنی مرضی کے مطابق چلاسکے جس سے فرسٹریشن جنم لیتی ہیں اور اس کا خمیازہ دیگر لوگ بھگتے ہیں۔حضور اکرم ﷺکے آنے سے پہلے غلام خریدنا اور بیچنا عام تھا مگر حضور اکرم ﷺنے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے ساتھ اس بات کی بھی تاکید کی کہ جس شخص کے پاس وسائل ہوں وہ غلام آزاد کروائے مطلب یہ کہ غلام رکھنا نبی کو پسند نہیں تھامگر آج بھی سوچ پست ہونے کی وجہ سے کسی کی سوچ اور حرکات کو اپنے قابو میں کرنے کی خواہش اتنی منہ زور ہیں کہ کسی کی دماغی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔ آج ترقی یافتہ دور میں موجود ہوتے ہوئے بھی معاشرتی لحاظ سے چودہ سو سال پہلے والے دور میں جیا جارہاہے ہیں کہ جہاں قبیلوں کے سردار اپنے قبیلے میں موجود لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کرتے کوئی برائی چھوڑنا چاہے تو وہ وہ نہیں چھوڑ سکتا اوراچھائے اپنانا چاہے تو اپنا نہیں سکتا۔ مبشرہ خالد۔کراچی