آج کل ہمارے ملک میں ریاست مدینہ کا بہت ذکر آتاہے اور اس کی وجہ وزیراعظم عمران کا وہ دعویٰ ہے جو انہوں نے اقتدار سنبھالتے وقت کیا تھا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز کی ریاست بنائینگے، اگر حقیقت میں دیکھاجائے تو ایک مسلمان کیلئے اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے اور ملک میں رہے جس کا نظام ریاست مدینہ کی طرز کا ہو، مدینے کی ریاست کے بانی ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ تھے، مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد جب آنحضورﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے اور دین اسلام ہر طرف تیزی سے پھیلنے لگا تو دنیا کی پہلی اسلامی ریاست کا قیام معرض وجود میں آیا جس کے خدوخال ہم تاریخ اسلامی میں پڑھ چکے ہیں، نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد ریاست مدینہ وسعت پاتی رہی اور حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں اس اسلامی ریاست نے عروج پایا، اس وقت کی اسلامی ریاست کے نظام کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں جو کہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے، آج جب ہم ریاست مدینہ کی باتیں کرتے ہیں تو اس بات سے ناآشنا ہوجاتے ہیں کہ مدینہ کی ریاست کا حکمران اپنے ہرعمل میں سب کیلئے مشعل راہ تھا، اس ریاست کا تصور حکمران کے اپنے عمل اور قول وفعل سے شروع ہونا چاہیے نہ کہ صرف باتوں اور نعروں سے۔ موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے تقریباً 11ماہ ہوچکے ہیں جوکہ اپنی ترجیحات اور طریقہ کار کو واضح کرنے کیلئے کافی وقت ہے اس عرصہ کے دوران کیا کوئی ایک بھی قدم ایسا اٹھایا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوسکے کہ کو مدینے کی طرز پر ایک ریاست بنانا چاہیے، اس مدینے کی ریاست کے بانی حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس ہو یا پھر خلفائے راشدین حکمران کی ذات سب کیلئے ایک نمونہ تھی، ہمارے آقا ﷺ نے ہمیشہ صاف گوئی حق و بے باکی، خوش اخلاقی، عوام کی فلاح وبہبود، سادگی ، عاجزی وانکساری اور دشمنوں سے بہترین سلوک پر نہ صرف زور دیا بلکہ کرکے بھی دکھایا، آج ہمارے وزیراعظم اور ان کے رفقاء کار سارا دن گالم گلوچ، اقربا پروری ، نفرت وعناد فضول خرچیوں، غرور تکبر ،بدزبانی، الزام تراشی اور اپنے مخالفین سے بدترین سلوک کرتے نظرآتے ہیں۔لیکن صمصام بخاری ایسی سیاسی شخصیت ہیں کہ انہوں نے جب بھی میڈیا پر بات کی غیراخلاقی گفتگو سے اجتناب کیا اور اگرکوئی سخت تنبیہہ بھی کرنی ہو تواخلاق کے دائرے میں رہ کر اور جملوں کے بہترین چنائو کے ساتھ کرتے ہیں۔ رعایا کی فلاح وبہبود بھی انکا مطمع نظرہوتی ہے اور مدینے کی ریاست میں سب سے اہم ترجیح جاتی تھی۔ لیکن ہمارے ہاں دوسرے سیاسی حکمران عوام کی خبرگیری رکھنے کی بجائے ان کی بدحالی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، ساہیوال میں12معصوم بچے حکومتی نااہلی کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگی، یہاں ہر روز ہزاروں لاکھوں لوگ بھوکے ہوتے ہیں مگر کسی کو پرواہ نہیں، اسلامی ریاست میں فحاشی اور بے حیائی کا تصور بھی نہیں تھاکہ جبکہ ہمارے ہاں یہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم کسی لحاظ سے بھی مدینے کی عظیم اسلامی ریاست کے قریب بھی نہیں لہٰذا اس صورتحال میں یہ کہنا کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنایاجائے گا یا بنایاجارہاہے ایک گناہ سے کم نہیں، ہمیں پہلے اپنے قول وفعل سے اس قابل بننا چاہیے پھر اپنے آقاﷺ کی عظیم ریاست سے اپنا موازنہ کریں اور چونکہ اس کا ذکر خود جناب وزیراعظم کرتے ہیں اس لیے سب سے پہلے وہ خود اپنے قول اور عمل سے یہ ثابت کریں کہ وہ واقع ایسا کرنا چاہتے ہیں، گزشتہ گیارہ ماہ کی حکومت میں انہوں نے کوئی ایک بھی ایسا کام نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ ایسا کرنے میں سنجیدہ ہیں حالانکہ اگر وہ ایسا کریں تو کوئی چاہتے ہوئے بھی ان کی مخالفت نہیں کرسکتا کیونکہ جب کسی سے زیادتی یانا انصافی ہی نہیں ہوگی تو مخالفت کیسی، اس کے برعکس وہ اور ان کے وزراء ہر وقت ایسے کام کرتے نظرآتے ہیں جوکہ ریاست مدینہ کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتے، آج کل ہمارے ملک کی جو حالت ہے اسے دیکھ کر بخوبی یہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ہم اسلام کے بنیادی تصور حکمرانی سے کوسوں دور ہیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سب یکدم نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک بگڑے ہوئے نظام کو درست کرنے کیلئے بہرحال وقت لگتاہے مگر کم ازکم کوشش تو شروع کی جائے جوکہ بالکل نظرنہیں آرہی، بہت سے اقدامات ایسے ہیں جو صرف بہتر حکمرانی اور اچھے طرز عمل سے ہی کئے جاسکتے ہیں اس کیلئے پیسوں یا انقلابی اقدامات کی ضرورت نہیں، اگر حکمران صرف بدزبانی، غلط بیانی، اقرباپروری اور ذاتی عناد ہی چھوڑ دیں تو ہم معاشرے میں مثبت تبدیلی شروع کردینگے، جب ایسا ہونا شروع ہوگا تو نہ صرف عوام کا اعتماد بھی بحال ہوتاجائیگابلکہ معاشرے میں تنائو اور کشیدگی بھی کم ہوگی، ضرورت اس امر کی ہے کہ پسنے والی عوام کو جواب دیاجائے کہ انہیں غربت کی کس نہج پرلے جایاجائیگا اور عوام کا قصور بھی بتایاجائے جو ریاست مدینہ جیسی حکومت کے لارے میں اپنی بربادی پر احتجاج بھی نہیں کرپارہی، سیاستدان اسی طرح سے عوام کو صلیبوں کے نیچے دفن کرتے رہے تومثبت نتائج نہیں حاصل کئے جاسکتے۔ اگر مقصد صرف اپنے اقتدار کو طول دینا، مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور بلند وبانگ دعوئوں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنانا ہو توپھر اچھائی کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024