حد درجہ احتیاط
رات آٹھ بجے کے قریب پہنچوں گا، کھانا کھاﺅں گا اور گپ شپ کے بعد اپنے گاﺅں روانہ ہو جاﺅں گا۔ پٹاکی شاہ صاحب کا پیغام سن کر دل ہی دل میں، میں خوش ہوا کہ ان دنوں واقعی ان کی بہت ضرورت تھی۔ کھانے فارغ ہو کر بیٹھے ہی تھے کہ شاہ صاحب کہنے لگے، جمعہ کو پھر نواز شریف اور مریم واپس آ رہے ہیں۔ اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب تو شک کی کو گنجائش ہی نہیں ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کہنے لگے کہ ابھی جمعہ تک تین دن ہیں یہ تین دن، تین ہفتے، تین مہینے بھی بن سکتے ہیں۔ یہ بڑے کاریگر ہیں پہلے آنکھیں دکھاتے ہیں، مطعون کرتے ہیں اور پھر پاﺅں پکڑ لیتے ہیں۔ انہوں نے بھارت، اسرائیل اور امریکن لابی کو ہر ممکن طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ مگر دوسری جانب ٹھوس شہادت کی بنیاد پر مقتدرہ قوتوں نے شریف فیملی سے جان چھڑانے کا مکمل فیصلہ کر لیا ہے۔ بات جاری رکھتے ہوئے شاہ صاحب کہنے لگے کہ فوج اداروں کے بارے میں سب کچھ سن سکتی ہے، اپنے آپ کو برا بلا کہلوا سکتی ہے مگر ملکی سلامتی پر ہر گز آنچ نہیں آنے دے گی۔ شریف فیملی کی پڑوسی ملک کے ساتھ بڑھتی محبت اس قدر خوفناک حد تک پہنچی کہ جب محسوس ہوا کہ سوچ اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ ملک جائے بھاڑ میں، کاروبار وسیع و عریض ہو، بادشاہت کی طرزِ زندگی ہو اور دونیا بھر میں جائیدادیں ہوں۔ ماضی کی باتوں کو تو رکھیں ایک طرف، ملتان کے انٹرویو کے بعد ہی عالموں طاقتوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب سابق وزیراعظم کی گواہی کے بعد پاکستان گوگرے زون میں رکھ دیا جائے گا۔ پاکستانیوں کو تو ابھی معلوم ہی نہیں ہوا کہ گرے زون کیا ہوتا ہے اور اس کے نقصانات کیا ہوتے ہیں؟ دوسری طرف بھارت نے ایک سے زیادہ بار پاکستانی حدود میں محدود اٹیک کیا دوسری طرف ہماری افواج ہر طرح سے چوکس ہیں۔ سلام ان نوجوانوں اور افسروں کو جو ہرلمحہ جان کی بازی لگانے کو تیار، بھارت اس طرح کی جرات کے لیے بار بار سوچے گا۔ بات جاری رکھتے ہوئے شاہ جی کہنے لگے کہ انسان اچھے مستقبل اور سکون کے لیے جائیداد بناتا ہے مگر کل رات سے نواز شریف کے ساتھ جو کچھ لندن میں ہو رہا ہے اس پر ....؟ نواز شریف ایک لمحے کے لیے بھی پرسکون نہیں رہ سکتے، یہ لوگ باہر نکلتے ہیں آوازیں سنتے ہیں اور جب گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں تو باہر ہجوم آوازیں دے کر کبھی دروازہ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں ۔شاہ صاحب کہنے لگے کہ ہم تو محض سنی سنائی اور مفروضوں پر بات کرتے ہیں، راوی یہ کہتا ہے کہ ہارے سٹریٹ دراصل لندن میں را کا ہیڈ آفس بھی ہے۔ 70 کے قریب پاکستانی الیکٹرک اور پرنٹ میڈیا کے رپورٹر لندن میں موجود ہیں۔ عام حالات میں جس کسی ہسپتال میں کوئی اہم شخصیت زیر علاج ہو تو رپورٹر حضرات پورا پوسٹمارٹم کر دیتے ہیں۔ مگر یہاں معاملہ الٹ ہے یاد رکھنا راجہ صاحب یہ بھی اب زیادہ دن نہیں چلے گا۔ یہ کہانی بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچنے والی ہے جس طرح پاکستانی نواز شریف سے سوالات کر رہے ہیں۔ ایک دن برطانوی عوام اپنی حکومت سے یہ سوال کرےں گے کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے جائیدادیں خریدنے والوں کو ہماری پرسکون زندگی خراب کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟
میں نے شاہ صاحب کی توجہ ا حتساب عدالت کے فیصلے بارے مرکوز کراکر کہا کہ کچھ صحافی کہہ رہے ہیں کہ جج کو 3 بجے باہر سے فیصلہ لکھا ہوا موصول ہوا؟ شاہ صاحب کہنے لگے فرض کریں ، یہ درست ہے مگر کیا پاکستانی عوام کو اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھنے کا حق حاصل نہیں کہ آپ لوگوں کے پاس یہ پیسہ آیا کہاں سے؟ یہ جائیدادیں بنیں کیسے؟ راجہ صاحب 2018ءکے انتخابات چوروں ، ڈاکوﺅں لٹیروں اور عوام کے درمیان ہیں۔ اس الیکشن میں نواز شریف ، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی، اسفندیار ولی اور دیگر سارے ایک طرف ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ابھی الیکشن نہیں ہوئے مگر ان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ انتخابات کے بعد تو وہ سیدھے جیل جائیں گے۔ دس سال میں 21 ہزار ارب روپے کا اضافی غیر ملکی قرضہ آخر یہ کہاں چلا گیا۔ مانا پانچ 7 ہزار ارب ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہو چکا ہو گا۔ باقی رقم کہاں ہے۔ آئی پی پیز کو دیکھیں مہنگی ترین بجلی اور 480 ارب روپے وصول کرنے کے بعد اب نہ جانے کتنی رقم کا تقاضا کر رہے ہیں، مرکز اور پنجاب میں جو کام ہوا۔ انتہائی مہنگے ریٹس پر اور وہ بھی ناقص ، ایک بارش نے ان کی گڈ گورننس کا پول کھول دیا اور ابھی ان کی ڈھٹائی دیکھیں شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ اگر ملک کو ملائیشیا نہ بنا دیا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ بالکل اسی طرح سندھ میں تو غالباً دس فی صد رقم استعمال ہوئی۔ 90 فیصد سیدھی سیدھی زرداری کی جیب میں، بعین ہی بلوچستان میں اچکزئی کے اکاﺅنٹس میں۔ غضب خدا کا ان لوگوں نے پانی بحران کا کبھی سوچا ہی نہ تھا اور نہ ہی ان کا اتنا ویژن تھا۔ ڈیم بنانا تو ان کے لیے گناہ کبیرہ تھا۔ یہ تو رب تعالیٰ خوش رکھے اور صحت دے ہمارے چیف جسٹس کو کہ جنہوں نے ہنگامی بنیادوں پر دو ڈیم مکمل کرنے کا اعلان کر کے قومی فنڈ قائم کر دیا ہے۔ میں نے پوچھا شاہ جی! یہ بیٹھے بیٹھائے زرداری کے ساتھ کیا ہاتھ ہو گیا۔ کہنے لگے یہ تو نوشتہءدیوار تھا۔ صرف مناسب وقت کی ضرورت تھی۔ اب تو ان کے نام بھی ای سی ایل میں ڈل چکے ہیں اور سپریم کورٹ سے بلاوا بھی آ گیا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے ”دو طوطے“ وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہو چکے ہیں کہ جن کے پاس رازوں کا خزانہ ہے۔ اس خزانے میں دی گئی معلومات نہ صرف کرپشن پر محیط ہے بلکہ اس میں ملکی سلامتی بارے گہرے راز بھی ہیں کہ جب وہ منظر عام پر آئیں گے تو لوگوں کو معلوم ہو گا کہ نواز شریف نے کیوں جنرل ظہیر الاسلام کو الوداعیہ اور شیلڈ دینے پر چوہدری نثار کو روکا تھا، بات صرف یہاں تک نہیں بلکہ اس کے پیچھے اور بھی بہت سارے ایسے راز ہیں جو چوہدری نثار ابھی لب پر نہیں لاتے مگر اُن کے اور نواز شریف کے درمیان اختلافات کا باعث ہیں۔
یار بہت دیر ہو گئی اب میں اجازت لوں گا ہاں چلتے چلتے اپنے دوستوں کے ذریعہ عمران خان کو پیغام پہنچاﺅ کہ حد سے زیادہ احتیاط کرے۔ وہ بڑا دلیر ہے مگر راءاور دیگر غیر ملکی ایجنسیاں ایک مضبوط حکمت عملی تیار کر چکی ہیں! خدانخواستہ اگر اس طرح کا کوئی سانحہ پیش آ گیا تو پھر ایمرجنسی کا نفاذ لازم ہو جائے گا، انتخابات التواءکا شکار ہو جائیں گے ۔