پانامہ کی داستان
میں شاہد خاقان عباسی کو بہت سادہ اور بھولا سا سیاستدان سمجھتا تھا‘ لیکن ایک ٹاک شو میں ان کی خود اعتمادی سے بھرپور مدلل گفتگو سن کر متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ان کے مدمقابل اوریا مقبول جان تھے وہ نظریہ پاکستان کا بڑے جذباتی انداز سے دفاع کرتے ہیں اور سیکولر طبقے سے بڑی خوش اسلوبی سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ میں انہیں ہمیشہ ایک بڑا آزاد مرد سمجھتا تھا لیکن میرا بھائی میری اس بات سے اتفاق نہیں کرتا تھا۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کا گریجویٹ ہے مگر مشتاق یوسفی کی طرح اپنے پیشہ کی نشست دوسروں شعبوں میں زیادہ بصیرت رکھتا ہے۔ مجھے اپنے نقطہ نظر سے قائل کرنے کے لئے اس نے شاہد خاقان عباسی اور اوریا مقبول جان کے درمیان اس مذاکرہ کی متذکرہ بالا ویڈیو بھیجی۔ میں شاہد خاقان عباسی کا انداز گفتگو ‘ خود اعتمادی اور سیاسی بصیرت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ ان کے سامنے اینکر دبادبا سا نظر آیا۔مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آزاد مرد کی گفتگو اور اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ شگوفوں کی طرح پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن مصلحتوں اور مفاہمتوں کے ساتھ زبان سے نکلے ہوئے الفاظ چغلی کھاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کا مطمع نظر یہ تھا کہ پانامہ کیس کو محض نواز شریف اور اس کے خاندان کے افراد کیخلاف استعمال کیا گیا اور دوسروں کا انہوں نے نام لے لے کر بتایا کہ باوجود ان کے خلاف بڑے بڑے بڑے کرپشن کے الزامات موجود ہیں‘ مگر آج تک ان کے خلاف کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسی پٹیشن بھی دائر کی گئی تھی جس میں 400 سے زائد افراد کے خلاف آف شور کمپنیاں بنا کر پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے دولت منتقل کرنے اور ٹیکس چوری کرنے کے الزامات تھے‘ لیکن ان کے خلاف کوئی قانونی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اینکران کی اس بات سے سختی سے تردید کر رہے تھے۔ مجھے یہ کالم لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ میں ان پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھا¶ں‘ جن کا ذکر عباسی صاحب کرنا چاہتے تھے۔ آف شور کمپنیوں کی تاریخ بہت پرانی ہے جس کا ذکر اس کالم کی دسترس سے باہر ہے۔ آف شور کمپنیوں کا راز مارچ 2016ءمیں پاکستانی میڈیا پر منظر عام پر آیا‘ تو سب سے پہلے میں نے اپریل 2018ءمیں سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کی۔ شاہد خاقان عباسی میری اسی پٹیشن کا حوالہ دے رہے تھے جس میں واقعی یہ ذکر ہے کہ پاکستان میں 400 سے زائد بااثر افراد جن میں ہر مکتب فکر کے لوگ شامل تھے۔ ‘ جو آف شور کمپنیوں کی آڑ میں ملک کی دولت لوٹ رہے تھے۔ لیکن میں نے نواز شریف فیملی اور پرویز مشرف سمیت ایسے لوگوں کی ایک لمبی لسٹ کا ذکراس پٹیشن میں کیا جنہوں نے آف شور کمپنیوں کی آڑ میں ملک کا پیسہ لوٹا تھا لیکن اس پر حسب دستور اعتراضات لگا کر واپس کر دیا گیا۔ میں نے اعتراضات کے خلاف اپیل دائر کی۔ مولوی سراج الحق اور عمران خان نے ستمبر / اکتوبر میں پٹیشنز دائر کیں۔ ان پر بھی وہی اعتراضات لگا کر واپس کردیا گیا۔ مولوی سراج الحق کی پٹیشن بڑی تفصیلی تھی‘ جس پر عملدرآمد بہت مشکل تھا ‘ کہ 1990ءسے آج تک جنہوں نے جتنی بھی کرپشن کی‘ ان کا محاسبہ کیا جائے۔ ان میں بھی اپیلیں دائر کی گئیں۔ لیکن نہ جانے عمران خان کے پاس کونسی گیڈر سنگھی تھی کہ اس کی اپیل کو اور ایسی دوسری اپیلوں کو بھی فوراً سماعت کے لئے فکس کردیا گیا۔ چونکہ میری پٹیشن پہلے دائر ہوئی تھی اس لئے اس کا نمبر سب سے پہلا 26/2016 تھا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کا 28/2018 اور پھر عمران خان 29/2018 تھا۔ سماعت شروع ہوئی تو کیس کا ٹائٹل میری پٹیشن کے نام سے ہی وابستہ رہا۔ چیف جسٹس نے قوم اور عدالت کا بہت قیمتی وقت ضائع کرنے کے بعد بنچ کو توڑ دیا کہ چونکہ وہ ریٹائر ہو رہے ہیں اور ریٹائرمنٹ سے 15 دن پہلے کام چھوڑ دیں گے‘ اس لئے آنے والے چیف جسٹس نیا بنچ تشکیل دیں گے۔ نیا بنچ بنا تو نشانہ صرف نواز شریف اور ان کا خاندان ہی تھا۔ میں نے عدالت کی توجہ مسلسل ان حقائق کی طرف مبذول کرائی کہ میری پٹیشن نہ صرف نواز شریف اور ان کے خاندان بلکہ ان تمام پاکستانی شہریوں کے بھی خلاف تھی جنہوں نے آف شور کمپنیوں کی آڑ میں ملک کی دولت کو ناجائز طریقے سے لوٹا تھا۔ دوران سماعت ایک بار جسٹس آصف سعید کھوسو نے یہ بھی کہا کہ طارق صاحب‘ آپ نے تو پرویز مشرف کے خلاف تین صفحات لکھ دئیے ہیں۔ میں نے برجستہ کہا کہ سر‘ ان کے خلاف یہ بھی بہت کم ہے۔ میرے اس اصرار پر کہ سب کے خلاف برابر کارروائی کی جائے‘ بالآخر عدالت نے مجھے یہ کہا کہ آپ کی پٹیشن کو ڈی لنک کر دیتے ہیں اور دوسرا بنچ اس کی سماعت کر لے گا چنانچہ عدالت نے میری پٹیشن کو ڈی لنک کر کے اس کیس کی کارروائی کو صرف نواز شریف اور ان کے خاندان تک محدود کر دیا چنانچہ یہ 2 افراد عمران بنام نواز شریف کے درمیان صرف ذاتی نوعیت کے مقدمہ کا روپ دھار گیا جو کہ آئینی حیثیت سے آرٹیکل 184 (3) کے دائرہ اختیار سے باہر تھا۔ میری پٹیشن کافی عرصہ فکس نہ ہوئی پھر ایک بار جسٹس صاحب کے بنچ میں فکس ہوئی اور نیب کو نوٹس جاری کر دیا گیا کہ وہ ان تمام لوگوں کے خلاف جو آف شور کمپنیاں کے مالکان ہیں انوسٹی گیشن کریں پھر پرنٹ میڈیا سے خبریں آتی رہیں کہ نیب میں فلاں فلاں کی آف شور کمپنیوں کی انوسٹی گیشن کی جا رہی ہے پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ایسی خبریں بھی آنا بند ہو گئیں اور اس کے بعد آج تک ہمارا کیس سماعت کے لئے فکس نہیں ہوا۔ میرا ایمان ہے کہ اگر ہمارے ادارے ملک کے ساتھ ہمدرد ہوتے اور سیاست میں ملوث نہ ہوتے تو نہ صرف نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف بلکہ ان تمام افراد کے خلاف برابر کارروائی کرتے جنہوں نے ملک کی دولت ناجائز ذرائع سے کما کر ملک سے غیر قانونی طریقے سے باہر منتقل کی اور انہیں سزائیں دینے کے علاوہ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ میری پٹیشن کو کوئی اہمیت نہ دی گئی جو پہلے دائر ہونے کے باوجود آج بھی عدم توجہی کا شکار ہے حالانکہ میری پٹیشن ہر لحاظ سے جامع اور مکمل ہے لیکن صرف عمران خان کی پٹیشن کو ہی دوام بخشا گیا۔ آخر کیوں؟ کیا اب صرف بچے ہی غیر سیاسی ہیں؟