بدھ ‘ 26؍ شوال المکرم 1439 ھ ‘ 11؍ جولائی 2018ء
مسلم لیگ (ن) میں اکثریت نوازشریف کے بیانئے سے اتفاق نہیں کرتی، ماروی میمن
ٹھنڈے دل سے اگر ماروی میمن کی باتوں پر غور کریں تو اس میں وزن معلوم ہوتا ہے، کیونکہ مسلم لیگ (ن) میں اکثریت دودھ پینے والوں کی ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو اقتدار میں شریک ہونے کیلئے اس جماعت میں شامل ہوتے ہیں جب اقتدار چھن جاتا ہے تو یہ فصلی بیڑے واپس اپنے اپنے ٹھکانوں میں پناہ لیتے ہیں یا دوسروں کی چھتوں پر جا بیٹھتے ہیں۔ نظریاتی مسلم لیگی اب رہ ہی کتنے گئے ہیں۔ سب اقتدار کی غلام گردشوں کے عادی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی ساری آن بان شان جن اداروں کی مرہون منت ہے اگر وہ ناراض ہو گئے تو سارے کاغذی محلات کے زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ سو یہی دکھڑا ماروی میمن بھی سنا رہی ہیں مگر جذباتی نعرے باز اس طرف دھیان نہیں دے رہے۔ جب میاں صاحب کیخلاف فیصلہ آیا اس وقت یہ ہمہ وقتی نعرے باز کہاں تھے۔ بات بات پر پریس کانفرنس کرنے والی توپیں کیوں خاموش ہو گئی تھیں۔ اس بات کا لگتا ہے ماروی میمن کو زیادہ احساس ہے اس لئے تو وہ کھل کر کہہ رہی ہیں کہ میاں صاحب کے لڑنے بھڑنے والے بیانیے سے مسلم لیگ (ن) والوں کی اکثریت اتفاق نہیں کرتی مگر یہ تو وہی چپ رہیں تو قیامت ہوتی ہے بولیں تو ستائے جاتے ہیں والی بات ہے۔ سو سب تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ مگر ماروی میمن نے بروقت یہ جان لیا ہے کہ اکثر لوگ میاں جی کے ساتھ نہیں اس لئے انہوں نے ہی اس کے اظہار میں پہل کرکے کم از کم یہ تو بتا دیا ہے کہ کوئی ہو نہ ہووہ بہرحال متفق قطعاً نہیں ہیں۔ بیان بھی اس لئے دیدیا ہے تاکہ سند ہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
٭…٭…٭
ایم ایم اے نے نظر انداز کیا ، ساجد میر۔ مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان
ایم ایم اے کی جنج(بارات) ابھی چڑھی (نکلی) ہی نہیں تھی کہ اس کے شریکوں(اتحادیوں) میں پھڈا پڑ گیا۔ شریکوں میں یہی تو سب سے بڑی خرابی ہوتی ہے کہ ہر ایک اپنا حصہ اپنی من مرضی کے مطابق چاہتا ہے جب وہ نہ ملے تو ان کی طرف سے بائیکاٹ اور تقریب چھوڑ کر چلے جانے کی کارروائی فی الفور عمل میں آتی ہے جس سے برادری میں ہی نہیں پورے علاقے میںناک کٹ جاتی ہے۔ ساجد میر صاحب ویسے بھی عرصہ دراز سے مسلم لیگ (ن) کے دیرینہ رفیق اور ہمدم رہے ہیں۔ ہر الیکشن میں ان کے ہمقدم بھی رہے۔ ان کی طرف سے جب ایم ایم اے میں شامل ہونے کی اطلاع ملی تو سب حیران تھے کہ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت اہلحدیث کے درمیان اتنے اختلافات پیدا کیسے ہو گئے، مگر چونکہ متحدہ مجلس عمل کے مردے کو زندہ کرنے کا تجربہ ہو رہا تھا اس لئے سب خاموش رہے۔ اب ساجد میر صاحب نے بھی دنیا دیکھی ہے ۔ انہیں جلد اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ایم ایم اے دراصل مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق کا شو ہے یہاں دوسری کسی جماعت کی دال نہیں گلنی۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ جے یو آئی ہر حکومت کے دامن سے بندھ جاتی ہے جماعت اسلامی کی کوشش تھی کہ مسلم لیگ (ن) سے کوئی معاملہ طے پائے مگر یہ نہ ہو سکا تو انہوں نے اپنا خیمہ کھڑا کر لیا جہاں ساجد میر کیلئے جگہ کم پڑ گئی تو انہوں نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ یوں ان کا ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) سے روایتی پیار کا بندھن بند گیا اور انہوں نے ایم ایم سے دامن چھڑا کر ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ شکوہ تو انہیں مسلم لیگ سے بھی وہی ہے جو ایم ایم اے سے تھا مگر چونکہ مسلم لیگ (ن) کا دامن وسیع ہے اس لئے یہاں بھی کچھ نہ کچھ گنجائش نکل سکتی ہے۔
٭…٭…٭
شاید میں پاکستانی سیاست کیلئے موزوں نہیں: چودھری نثار
یہ بات لگتا ہے بڑی دیر بعد چودھری صاحب کو سمجھ آئی ہے۔ ورنہ کون نادان ہے جو اس وقت عمران خان کی طرف سے من چاہی ٹکٹیں لینے کی دعوت کو ٹھکرا کر تن تنہا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرے۔ اس وقت بلا میدان سیاست میں چاروں طرف چوکے چھکے لگا رہا ہے بے پیندے کے لوٹے تک الیکٹ ایبلز کا نام سجا کر بلا ہاتھ میں لئے نگر نگر گھوم رہے ہیں۔ لوگوں کی ہی نہیں سیاستدانوں کی اکثریت بھی کہہ رہی ہے کہ لاڈے کیلئے انتخابی میدان صاف کیا جا رہا ہے تاکہ وہ من مرضی کی گیم کھیلے۔ اب معلوم نہیں یہ من مرضی لاڈے کی ہے یا اوپر والوں کی جن کی مرضی سے سب کچھ ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں تو چودھری جی کو ہاتھوں ہاتھ لیاجانا تھا دو چار سیٹیں انہیں تحفے میں دی جاتیں مگر یہ بات کہہ کر کہ میں شاید پاکستانی سیاست کیلئے موزوں نہیں چودھری صاحب کوئی ایسا فیصلہ کر نہیں سکے جو انکے مزاج کیخلاف ہو۔
اپنی پارٹی سے ٹکٹ مانگنے میں وہ شرم محسوس کرتے ہیں، دوسروں سے تحفے میں ملنے والے ٹکٹ انہیں پسند نہیں۔ ذات اور برادری ازم کیخلاف وہ بولتے ہیں جبکہ ابھی تک یہی ذات برادریاں فتح اور شکست میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اتنے عرصہ سیاست میں رہنے‘ حکومت کا حصہ ہونے ‘وزیر بننے کے باوجود آخر وہ اس بوسیدہ نظام میں تبدیلی کیوں نہ لا سکے۔ اب یہ اعتراف شکست کر رہے ہیں کہ میں شاید پاکستانی سیاست کیلئے موزوں نہیں۔ یہ شکوہ تو وہ سب سیاستدان کرتے ہیں جو خود کچھ کر نہیں سکتے الزام دوسروں کو دیتے ہیں۔ یاد رکھیںماحول کوئی خود موزوں نہیں ہوتا۔ بنانا پڑتا ہے۔
٭…٭…٭
عطیات اکٹھے کرتے کرتے تھک گیا ہوں، عمران خان کی ڈیموں کیلئے چندہ مہم سے معذرت
حیرت کی بات ہے پارٹی کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے کی مہم ہو تو خان صاحب پیش پیش ہوتے ہیں مگر ڈیموں کیلئے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کی بات ہو تو خان صاحب فرماتے ہیں کہ میں عطیات اکٹھے کرتے کرتے تھکن گیا ہوں، یہ تھکن یورپ، امریکہ اور عرب ممالک میں عطیات اکٹھا کرتے ہوئے طاری کیوں نہیں ہوتی جہاں گھنٹوں خان جی اپنے مداحوں کے ساتھ سلیفاں بنواتے ہیں۔ اب یہ بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ میں چندہ لینے والوں میں ہوں، دینے والوں میں سے نہیں۔ گویا آپ لینا جانتے ہیں دینا نہیں۔ اس وقت قوم کو ڈیمزکی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھاشا اور مہمند ڈیم کیلئے چندہ یا فنڈز کی اپیل کی ہے لوگ اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں، مگر آپ کس بے اعتنائی سے معذرت کرتے پھر رہے ہیں۔ منشور میں تو آپ نے ان دونوں ڈیموں کی تعمیر کی بات کی ہے۔
چیف جسٹس کی اپیل پر لبیک کہیں یہ جان چھڑانے پشت دکھانے کا وقت نہیں بلکہ ہمت ہے تو کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کرکے ڈٹ جائیں یہ ڈیم باقی دونوں ڈیموں کی نسبت بہت کم مدت میں کم سے کم لاگت میں تعمیر ہو سکتا ہے۔ افادیت کے اعتبار سے بھی یہ زیادہ بہتر ہے پھر دیکھیں پورا پاکستان کیسے آپ پر ووٹ اور نوٹ نچھاور کرتا ہے۔ آپ کی ساری تھکن یہ دیکھ کر ہی دور ہو جائے گی۔
٭…٭…٭