میں چودھری نثار کے ساتھ بہت تعلق رکھتا ہوں۔ میرے خیال میں وہ بڑے آدمی ہیں۔ جہاں وفا کی پھر وفا ہی کی۔بے وفائی بھی کی ہوگی‘ پتہ نہیں؟ چودھری صاحب کے ساتھ دو چار ملاقاتیں ہیں مگر میرے دل میں ہے کہ ابھی ان سے نہیں ملا۔ وہ بہت مختلف آدمی ہیں۔ کردار اور جرأت میں یکتا مگر محتاط؟ وہ دوست آدمی ہیں۔ وہ دوستی کے سارے رازونیاز جانتے ہیں۔
ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے مگر وہ کسی کو معتبر سمجھنے میں دیر لگا دیتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ وہ اپنی بڑائی اور سچائی کا ذکر بار بار کرنے سے نہیں کتراتے۔ وہ اپنے بارے میں بار بار بتائی جانے والی باتیں کرتے چلے جاتے ہیں مگر ایسی زبان تو استعمال نہ کریں جو بڑے سیاسی لیڈر کے شایان شان نہ ہو۔ چودھری صاحب نے کئی دفعہ کہا کہ میں نے نوازشریف سے کہہ دیا تھا ’’میں تھوک کر نہیں چاٹتا۔‘‘ یہ بات ٹھیک ہے۔ ایک پرانا محاورہ بھی ہے مگر یہ بار بار دہرانے سے بھی نیا نہیں بن جائے گا۔ ویسے بھی اس جملے میں ایک کراہت ہے جسے چھپایا نہیں جا سکتا۔
مجھے چودھری نثار کی زبان سے بولا گیا یہ جملہ بھی اتنا برا نہیں لگتا۔ ان سے تین چار ملاقاتیں ہوئیں جیسے ایک ہی ملاقات تھی۔ انہوں نے نوازشریف کو لیڈر بنایا۔ یہ کوئی معرکے کی بات نہیں ہے۔ لیڈر تو نوازشریف کا چودھری نثار کو ہونا چاہئے تھا۔ ایسے اقدامات کے بعد ان کے اندر جو لیڈر تھا‘ وہ شرم کے مارے کہیں چھپ گیا ہے۔ وہ لیڈر اب بھی ہمیں مل سکتا ہے مگر اسے کس کیلئے سنبھال کے رکھیں۔
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو نوازشریف نے وزیراعظم بنا کے کارنامہ نہیں کیا مگر چودھری صاحب کی غیر ضروری بے نیازیاں ان کے راستے میں آڑے آتی رہیں۔ میرے خیال میں چودھری نثار وزیراعظم ہوتے تو معاملات کچھ مختلف ہوتے اور بہتر ہوتے۔ مگر چودھری صاحب اپنے حال میں مست رہے۔
ایک دفعہ ایک ملاقات میں انہوں نے کہا میں نے چاہا تھا کہ میں وزیرخارجہ بنایا جائوں۔ اگر بنایا جائوں کی جگہ یہ لفظ ہوتا کہ میں وزیرخارجہ بن جائوں تو یقینا وہ وزیرخارجہ ہوتے اور اچھے نتائج ظاہر ہوتے اور ہمارے خارجہ امور میں کوئی فخر کی بات بھی ہوتی۔
یہ بھی چودھری صاحب کی زیادتی ہے جبکہ میں تو چاہتا ہوں کہ وہ وزیراعظم ہوتے۔ وزیرخارجہ تو خواجہ آصف بھی ہو گئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ کبھی انہوں نے سنجیدگی سے وزیراعظم یا وزیرخارجہ بننے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ پوری خواہش ہی نہیں کی ہوگی۔
کوئی بھی سیاستدان چودھری نثار جیسا نہیں ہے۔ اب تو (ن) لیگ سے بھی تقریباً باہر ہو چکے ہیں۔ اب آبائی حلقے چکری سے وہ اپنے طورپر الیکشن لڑیں گے۔ میری خواہش ہے کہ چودھری صاحب کے مقابلے میں کوئی امیدوار نہ ہو‘ ہم اپنے سچے اور بڑے لوگوں کیلئے اتنی رعایت تو کیا کریں۔
چودھری نثار نے ٹھیک کہا کہ میں شاید پاکستان کی سیاست کے لئے موزوں نہیں ہوں۔ یہاں برادری کے بغیر سیاست نہیں ہوتی۔ چودھری صاحب نے مزید کہا کہ عمران سکول کے زمانے کا میرا دوست ہے۔ اس نے کہا تھا کہ جتنی ٹکٹیں چاہو گے دے دوں گا جبکہ نواز شریف نے کہا تھا کہ ٹکٹ مانگو تو مل جائے گا۔ چودھری صاحب نے کہا کہ میں نے کبھی درخواست نہیں دی اور کبھی تھوک کر چاٹتا نہیں یہ بات ہم نے مان لی ۔ اب چودھری صاحب یہ کہنا چھوڑ دیں کہ تھوک کر چاٹتا نہیں۔
تحریک انصاف کے ساتھ مسلم لیگ ن کی کبھی بنی نہیں اس کے باوجود چودھری نثار نے عمران کے لئے جب بات کی تو دوستانہ اسلوب میں کی۔ عمران نے بھی جب چوہدری نثار کے لئے بات کی۔ اپنے تعلق کو سامنے رکھا ۔
چودھری صاحب نے کبھی کسی دوست کو اپنی وفا کا تذکرہ بار بار کرکے یقین دلانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ایک بار کسی کے لئے اچھی بات کہہ دیں تو پھر کوئی اور بات ان کی زبان پر نہیں آتی۔ یہ سیاسی معاملات کے حوالے سے نہیں کہا جا سکتا۔ عمران خان سے اتنا تعلق ہونے کے باوجود کسی نے یہ نہیں سوچا کہ وہ تحریک انصاف میں چلے جائیں گے ۔ عمران کے ساتھ اپنے روابط کو ہمیشہ قائم رکھا۔ لیکن کبھی اپنی دوستی کو ثابت کرنے کی غیر ضروری کوشش نہیں کی۔ وہ دو ٹوک آدمی ہیں ان سے جب بھی ملاقات ہو تو نوائے وقت اسلام آباد کے سینئر ساتھی نواز رضا میرے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ میں جب بھی چودھری نثار کے بارے میں کچھ لکھنے لگوں تو مجھے اپنے لیجنڈ شاعر مرزا غالب ضرور یاد آتے ہیں۔ ان کا شعر تو آپ کو یاد ہوگیا ہوگا مگر مجھے وہ شعر اس وقت یاد نہیں آ رہا ۔ ان کے ایک مصرعے پر گزارہ کیجئے
میں نہیں جانتا وفا کیا ہے
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024