سی پیک منصوبہ چینی معیشت کا مرکزی خیال
چین کا پاکستان کے چھوٹے فشنگ ٹاؤن گوادر میں اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی-آر-آئی) کیلئے غیر معمولی ترقی دینے کو جنوبی ایشیا اور دیگر ملکوں میں بغور دیکھا گیا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری میں اہم مقام ہونے کے باعث گوادر بندرگاہ ایک دفعہ آپریشنل ہونے کے بعد پانچ سال کے اندر اندر جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ بن سکتی ہے۔ سی پیک چونکہ پاکستان کی توانائی ، بنیادی ڈھانچے اور نقل و حمل کے شعبے میں تبدیلی برپا کرے گا اس لئے ۶۲ بلین ڈالر کے اس منصوبے سے متعلق پاکستانی جوش و خروش سمجھ میں آتا ہے۔اس گیم پلان کا مطلب سی-پیک کو ‘‘ہر دو حالت میں جیت’’ یعنی وِن وِن کا نام دیا جا سکتا ہے۔
تاہم اس منصوبے سے چین کے اس قدر تزویراتی مفادات وابستہ ہیں کہ دیگر ممالک اس منصوبے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ گوادر پاکستان کی نسبت چین کیلئے زیادہ اہم ہے۔ چین کی معیشت کا ساحلوں پر انحصار ہے اور اس گوادرمنصوبے کی تعمیر چین کے مغربی صوبوں کوبھی مشرقی صوبوں کی طرح تیز تر ترقی پر گامزن کر دے گی۔ مبصرین نے گوادر کو چین کی ‘‘سٹرنگ آف پرلز’’ حکمتِ عملی کا حصہ مانا ہے جسکا مطلب چین کی طرف سے بھارت کا سمندری احاطہ کرنا ہے۔ ۵۱۰۲ میں افتتاح کے بعد سے سی-پیک کامیابی کی طرف گامزن ہے چونکہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں اور اسی لئے امریکہ کیلئے سی-پیک سے چینی مفادات کا اندازہ لگانے میں مشکل آرہی ہے۔
ان بیرونی شکوک کے باوجود، پاکستان کے اندر جوش و خروش برقرار ہے۔ بلاشبہ معاشی راہداری ترقی کے متلاشی پاکستان کیلئے ایک ‘گیم چینجر’ منصوبہ بن سکتا ہے اگر اسلام آباد اس معاملے پر اندورنی طور پر اتفاقِ رائے پیدا کر لے بالخصوص بڑھتے بیرونی قرضوں اور ملکی مزدوروں کے سلسلے میں۔
تمام فوائد چین کی طرف:
چین کے جنوبی سمندر میں عسکری اقدامات اور بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات نے چین کے ایشیا میں تو سیع پسندانہ منصوبہ آشکار کیا ہے۔ دباؤ اور جبر کے بجائے چین نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے بی-آر-آئی کے ذریعے امدادی پیکجز اور ترقی دینا مناسب سمجھا۔ ایشین انفراسٹکچر انویسٹمینٹ بینک ، شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن اور بی-آر-آئی کے منصوبوں کے ذریعے چین نے عالمی برادری کو اپنی سافٹ لیڈرشپ کی طرف متوجہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
اگر چین بی-آر-آئی کے ذریعے تبدیلی لاتا ہے تو یہ اس کو تجارت کے عالمی مرکز میں لا کھڑا کرے گا اور چین کی کامیابی کے ساتھ ایشیا اور اس سے آگے زمینی راستوں کو باہم ملانے کی چینی کوششوں کی تصدیق کرے گا۔ سی-پیک اس سلسلے کی اہم کڑی ہے اور پاکستان کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ چین کی وسطی ایشیائی ریاستوں ، افغانستان اور ایران تک پہنچنے کے معاشی منصوبے میں دروازے کا کردار ادا کر سکے۔
۸۱۰۲میں سی پیک سے وابستہ توقعات:
سی پیک میں توانائی اور ربط سازی دو اہم ستون ہیں اور قابل تجدید اور دیگر توانائی کے ۲۱ منصوبوں کا اعلان ہو چکا جبکہ ان میں سے ۱۹ کا آغاز اگلے کچھ مہینوں میں ہو جائے گا۔ نومبر۷۱۰۲ میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ۰۲۳۱ میگاواٹ صلاحیت کے حامل کوئلہ پر چلنے والے منصوبے کا افتتاح کر دیا اور کہا کہ منصوبہ ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا جس نے پاکستان کو توانائی میں خود کفالت کی طرف بھی گامزن کر دیا ہے۔
چین نے ملک بھر میں وسیع ریل اور سڑکوں کے نیٹ ورک کو بنانے کا وعدہ بھی کیا ہے جس سے ملک کے اہم تجارتی ضلعوں کو ۰۳۰۲ تک رابطہ سازی میسر آجائے گی۔ بہت سے اہم منصوبے مارچ ۸۱۰۲ میں تکمیل کو پہنچ رہے ہوں گے۔ گوادر ایسٹرن ایکسپریس کی تکمیلاسی سال دسمبر میں متوقع ہے جس سے گوادر بندرگاہ کے قریب سامان کی نقل و حمل آسان ہو جائے گی۔ سندھ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے اور کراچی سے پشاور تک ٹرانسمیشن لائن کابھی ۸۱۰۲ میں آغاز ہو جائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ –ن کے زیر سایہ لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین کا ۷۵ فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور یہ ایسا منصوبہ ہے جس میں تقریباً ۰۰۰۰۵۲ افراد روزانہ سفر کریں گے۔ کوئلہ سے چلنے والے پورٹ قاسم پلانٹ میں مزید یونٹس کی پیداوار کیلئے منصوبہ بھی ۸۱۰۲ میں تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
اندرون خانہ کیا چل رہا ہے؟
اگرچہ چین نے بارہا یہ بات دوہرائی ہے کہ سی-پیک پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہو گا تاہم بیجنگ کے بیانات سے یہ کہیں بھی عیاں نہیں ہوتا کہ سی-پیک منصوبوں کا فائدہ مزدور طبقے یا داخلی کاروبار کو کس حد تک پہنچے گا۔ مثال کے طور پر تمام بڑے سٹیک ہولڈرز اسلام آباد کی اس نا اہلی پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ گوادر سے متعلقہ مقامی مزدوروں اور تاجروں کے خدشات کو کہاں تک ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔ پاکستانی قانون سازوں نے جنوری۸۱۰۲ میں مسلم لیگ –ن کے چینی کمپنیوں کو ٹیکس میں خاطر خواہ چھوٹ دینے کی منطق پر سوال اٹھائے ہیں۔مزید برآں چین منصوبوں میں کس حد تک سرمایہ لگائے گا اس بارے میں بھی کوئی واضح بات سامنے نہیں آ رہی ہے۔
دسمبر ۸۱۰۲ میں سری لنکا نے اپنی ہمبنٹوٹا بندرگاہ کو بیرونی قرضوں (زیادہ تر چینی) کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ۹۹ سالہ لیز پر چین کے حوالے کر دیا۔ سری لنکا کی معیشت ۸.۱ بلین امریکی ڈالر کی مقروض ہے جسکی وجہ سے وہ معیشت سست روی کا شکار ہے۔ پاکستان پہلے ہی چینی حمائت یافتہ قرضوں کا سب سے بڑا حاصل کنندہ ہے اور یہ رقم ۴ بلین امریکی ڈالر ہے۔ پاکستان میں پلاننگ، ڈویلپنٹ اینڈ ریفارمز کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے ریلوے کی مین لائن کی ترقی کیلئے قرض حاصل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ مزید برآں پاکستان نے حال ہی میں جاپانی حکومت سے قرضہ لینے کی پیشکش مسترد کر دی ہے جو چینی قرضوں کی نسبت کم شرح سود پر ملنے کا امکان تھا۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے سی پیک سے متعلق کم معلومات فراہم کرنے کی وجہ سے بھی صورتحال واضح نہیں۔ پاکستانی مرکزی بینک کی طرف سے گفت و شنید کے بغیر تجارت میں ڈالر کو یوان سے تبدیل کر دینے کے عمل نے بھی چند خدشات کو جنم دیا ہے۔
سی پیک سے متعلق کئی طرح کے بد عنوانی کے مسائل بھی موجود ہیں۔ پاکستان کا شورش زدہ صوبہ بلوچستان سکیورٹی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ۵ فروری کو ایک سینئیر چینی ایگزیکٹو کو کراچی میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ جون ۷۱۰۲ میں داعش نے بلوچستان میں دو چینی باشندوں کو اغوا کرکے مار ڈالا تھا۔اس دوران چین نے بد عنوانی کی شکایات پر سڑک بنانے کے تین منصوبوں پر کام بھی روک دیا تھا۔ بد عنوانی جیسے مسائل سی پیک اور چین کیلئے کوئی اچھی علامت نہیں ہے اور اس سے منصوبوں کی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے جو پاکستانی مفاد میں ہیں۔
لامتناہی خوش امید ی پر ایک نظر:
گیلپ کے ۷۱۰۲ میں ایک سروے کے مطابق قریباً دو تہائی افراد نے سی پیک کو پاکستانی معیشت کیلئے اہم قرار دیا۔اگر چین سی-پیک کے ذریعے پاکستانی معیشت میں ڈرامائی تبدیلی نہیں لاتا تو عوام کا چین پر اعتماد کم ہو جائے گا اس لئے چین بد عنوانی اور سکیورٹی مسائل سے احتیاط برتتے ہوئے آگے چلے گا۔ اسلام آباد سی پیک سے بہت زیادہ پْر امید ہے تاہم وہ راستے میں حائل رکاوٹوں سے کیسے نبرد آزما ہوتا ہے اْسے دیکھ کر پتا چلے گا کہ کیا منصوبہ واقعتاً گیم چینجر ہے یا محض خیال آرائی۔
(بی بی سی اردو)