ڈاؤ یونیورسٹی میں محفوظ ترین انتقالِ خون کے لیے "NAT" نیٹ کے استعمال کا آغاز
کراچی (ہیلتھ رپورٹر):ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائچ چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے نیو کلیک ایسڈ ایمپلی فیکیشن ٹیسٹینگ شروع کرکے پاکستان میں انتقالِ خون کے نتیجے میں پھیلنے والے مہلک امراض ہیپاٹاٹس بی، سی اور ایچ آئی وی ایڈز اور ویسٹ نائل وائرس کے خطرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، یہ بات انہوں نے نیٹ کے آغاز کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی، اس موقع پر پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد مسرور، پروفیسر ڈاکٹر شاہین شرافت، ڈاکٹر شاہین کوثر، ڈاکٹر آصف قریشی، روش پاکستان کے کنڑی مینیجر قدیر رضا، ڈائر یکٹر عبدالقیوم، مقصود احمد خان، صابرہ اور دیگر بھی موجود تھے۔انکا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی دنیا میں دستیاب جدید ترین اور محفوظ ترین ٹیکنالوجی ہے، جو نہ صرف ونڈو پیریڈ کو کم کرتی ہے۔ بلکہ وائرل انفیکشن کا سراغ لگانے میں نہایت حساس ہے، اس سے محفوظ ترین انتقال خون ممکن ہوتاہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خون کی اسکریننگ کے پہلے سے موجود روایتی طریقوں سے جو امیونوسے ((imumoassayکہلاتے ہیں، یا عام طور پر سیر ولوجی ((serorlogyٹیسٹ یہ صرف اینٹی باڈیز سے وائرس یا وائرل اینٹی جینٹس کا ہی کھوج لگا پاتے ہیں۔ حالانکہ اس قسم کے وائرل انفیکشن کے ابتدائی مرحلے یعنی ونڈو پیریڈ کے دوران اینٹی باڈیز ہی موجود نہیں ہوتے، اسلیے یہ روایتی طریقے انہیں اجاگر ہی نہیں کر پاتے،ونڈو پیریڈ در حقیقت وہ عرصہ ہوتاہے،جب کسی خون کا عطیہ دینے والے میں وائرس ظاہر ہوجاتا ہے وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز بھی جنم لینے لگتے ہیں، اور اس عطیہ کردہ خون کے انتقال سے انفیکشن کا خطرہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بس یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب عام روایتی طریقوں کے اسکرین ٹیسٹ کے یہ وائرس کی صحتمند جسم میں منتقل ہوجاتاہے، اور یہ آلودہ خون کم از کم تین مریضوں کو خطرات وائرس لگاسکتاہے، جبکہ یہ بڑھتابھی جاتا ہے۔