جب کسی قوم کا عزم ارادہ اور حوصلہ مضبوط ہو جاتا ہے تب وہ قومی یک جہتی اور بہبود کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات بھی موثر نتائج مرتب کرتے ہیں۔ اگر ہم طائرانہ نظر تیونس اور برطانیہ میں ہونیوالی دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہونیوالوں کی تعداد کا مواز نہ کریں تو ان کی تعداد کو باآسانی گنا جا سکتا ہے لیکن ہمارا مسئلہ یہ رہا کہ پچاس ہزار سے کہیں زیادہ افراد دہشت گردی کی نذر ہو گئے لیکن اس دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس موثر حکمت عملی کا فقدان رہا۔ 2009ء میں قائم کی گئی دہشت گردی اتھارٹی کی کارکردگی مثبت نتائج سامنے نہ لا سکی۔
2013ء میں اسے فعال کیا گیا لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ کیے جا سکے۔ بے عملیت اور بے مقصدیت کا شکار ہو کر رہ گئی۔ قومی ایکشن پلان کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ نہ صرف دہشت گردی کو ختم کیا جائیگا بلکہ انتہا پسندی میں ملوث سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جائیگی لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ کا سلسلہ روکنے اور قومی ایکشن پلان کو فعال بنانے میں ہم کس حد تک کامیاب ہوئے۔ آج بھی ہمارے شہری دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
درحقیقت آج ہماری قیادت کو سخت فیصلے اور بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے جمہوریت کا فعال ہونا، تمام جماعتوں کا اس موقف پر اکٹھا ہونا، بہتر کارکردگی اور اس قانون کی ضرورت ہے جو شہری کو تحفظ فراہم کر سکے۔ ملکی تحفظ اور دہشت گردے کے سدباب کیلئے بنائے جانیوالے قوانین اس وقت موثر ثابت ہوتے ہیں جب مملکت کا قانون عوام دوست ہو۔ فعال اور آزاد عدالتی نظام ہو اور قانون کی حکمرانی ہو۔ دنیا میں ایک بھی ایسے ملک کی مثال نہیں دی جا سکتی کہ جہاں جمہوریت کے ساتھ عدالتیں فعال اور آزاد رہی ہوں عوام کو حکومت پر اعتماد ہو اور ملکی سالمیت کیلئے حکمران ہمہ وقت اندرونی اور بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوں وہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو پنپنے کا موقع مل سکے۔
آج مملکت خداداد کے حالات واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمیں فکری اصلاحات کی ضرورت ہے آج جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فوج ہمیشہ سیاستدانوں کی نااہلی کی وجہ سے مداخلت کرتی رہی تو یہ نااہلی معاشی، سیاسی اور معاشرتی عدم استحکام کا باعث ضرور بنی اور آج بھی ہم اس نااہلی کے چکر سے نکل نہیں پاتے ہیں اور نہ ہی ہم نے اس چکر کو توڑنے کی کوشش کی۔ کراچی میں ہلاکتیں اور بدانتظامی نے نہ صرف یہاں کی حکومت کی انتظامی نااہلی کو واضح کیا بلکہ وفاق اور صوبوں میں اختلافات بھی کھل کر سامنے آ گئے۔ کور کمانڈر نے یہاں کی بدانتظامی کو نااہلی قرار دے دیا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں کشمکش، دہشت گردی، پانی نہ ملنے سے اور لوڈشیڈنگ سے ہلاکتیں ایک سوالیہ نشان ہیں۔ ان دنوں پاکستان کے شہری خود کو پھر سے غلام محسوس کر رہے ہیں پاکستان کی خودمختاری اور یہاں کے شہریوں کی سیاسی آزادی، قانون کی حاکمیت، انکے جان و مال کے تحفظ اور اقتصادی ترقی سے وابستہ ہے جس کا نہ تو پہلے کوئی پرسان حال تھا نہ اب ہے۔ پہلے بھی بچے افلاس سے مرتے تھے انکی تھانے کچہریوں میں تذلیل ہوتی تھی۔ اب بھی وہی صورتحال ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
اگر ہم واقعی عوام کو تحفظ دینا چاہتے ہیں اور قومی ایکشن پلان کے مفہوم کو وسیع کرنا چاہتے ہیں اور اس کا عملی نفاذ چاہتے ہیں تو حکومتی مشینری کا فعال ہونا ضروری ہے اور وہ اس وقت تک بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکتی جب تک کہ سیاسی عسکری قوت اور حزب مخالف میں اس ناسور سے نمٹنے کیلئے اتحاد، حکومتی ترجیحات میںدہشت گردی کو سر فہرست حیثیت حاصل ہونا سنجیدگی اور قوت فیصلہ سے بروقت اقدامات، جمہوریت کا عملی نفاذ، دیانت اور عوام سے ہمدردی کا جذبہ لازمی حیثیت رکھتا ہے۔
جمہوریت کا تسلسل ہی مسائل کے حل کا باعث ہے۔ حضرت عمرؓ کے مضبوط قومی ایکشن پلان میں سر فہرست ملکی سلامتی، دفاع، قانون کا احترام، عدلیہ کی آزادی معاشی مضبوطی بنیادی ترجیحات میں شامل رہیں جس کی وجہ سے انہوں نے ایک مضبوط اور آہنی حکومت کی بنیاد رکھی۔
ہم خلفائے راشدینؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اکثر احساس ذمہ داری اور جواب دہی جیسے محرکات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیں تو میرا یقین ہے کہ ہم نہ صرف اس ناسور کا جڑ سے خاتمہ کر سکتے ہیں بلکہ مضبوط پاکستان اور مضبوط عوام کے تصور کو زندہ کر سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ہمیں اپنے اندر سے خود غرضی اور بے حسی کے وائرس کو ختم کرنا ہو گا جو جمہوریت، عوام کے حقوق اور ملکی بقا کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024