نیٹو سپلائی کی بحالی پر بات ختم نہیں ہو جاتی‘ پاکستان میں موجود دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے بہت کچھ کرنا ہے: منٹر
اسلام آباد ( بی بی سی / آئی این پی / آن لائن) پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کہا ہے کہ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لیے رسد کے زمینی راستے کی بحالی کے باوجود، بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی انہیں ابھی اقتصادی تعاون اور پاکستان میں موجود دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ان کا اصرار تھا کہ پاکستان کو حل کا حصہ بننے کی ضرورت ہے مسئلے کا نہیں۔کراچی میں بی بی سی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ انہیں پاکستان کے اندر موجود دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے تعاون بہتر بنانے کے لیے افغان دوستوں کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑے گا تاکہ افغان جنگ میں تعاون میں اضافہ یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا ہم نیٹو رسد کی اہمیت کو کم یا زیادہ نہیں کرنا چاہتے۔’یہ پاکستان کے لیے ایک مسئلہ تھا، دراصل اس نے پاکستان کو دنیا میں اس کے ایسے پچاس دوستوں سے الگ تھلگ کر دیا تھا جو مل کر دہشتگردی سے لڑ رہے ہیں، انہی دہشتگردوں سے جن سے پاکستانی فوج بھی لڑ رہی ہے۔ اب رسد کی بحالی نے دراصل ایک ایسا دروازہ کھول دیا ہے کہ ہم اس مشترکہ لڑائی میں مل کر کام کر سکیں۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان نے نیٹو رسد کی بحالی کے لیے اخراجات طلب کیے تھے تو کیمرون منٹر نے کہا کہ وہ نیٹو رسد کی بحالی کے لیے مذاکرات میں شامل نہیں تھے۔ لیکن جو میں سمجھتا ہوں وہ یہی ہے کہ دراصل ہوا یہ ہے کہ دونوں جانب اس حقیقت کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ دونوں کو ایک ساتھ کام کرنا پڑے گا۔ جب امریکی سفیر سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ نے سلالہ حملے پر معافی مانگی ہے، تو انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کنلٹن کے الفاظ خود بتاتے ہیں۔ انہوں (ہلیری کلنٹن) نے پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کھر کو فون کیا اور دل کی گہرائیوں سے وہ سب کچھ کہا جو بیان کا حصہ ہے۔ یہ ان کے دل کی آواز تھی۔‘ لیکن جب پوچھا گیا کہ اگر معافی ہی مانگنی تھی تو اس میں اتنی دیر کیوں لگی، تو منٹر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ سلالہ کا واقعہ انتہائی جذباتی واقعہ تھا۔ ’ان فوجیوں کی ہلاکت، ان کے لواحقین کا دکھ، سب کچھ۔۔۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کیوں اتنی جذباتی کیفیت بن گئی تھی لیکن جو دیگر عوامل اس تاخیر کی وجہ تھے، ان میں پاکستان کی اندرونی سیاست کی وجہ سے فیصلہ سازی میں دیر ہونا اور ہماری جانب بھی کچھ معاملات کا شامل ہوجانا تھا۔ اور پھر دونوں جانب محسوس کیا گیا کہ اس تعطل کا فائدہ کسی کو نہیں پہنچ رہا۔‘ ان سے سوال کیاگیا کہ بعض حلقوں کو پاکستان کے اس قدر تیزی سے فیصلہ کر لینے پر حیرانی ہے اور ان کا خیال ہے کہ امریکی کانگریس میں حقانی نیٹ ورک کو دہشتگرد قرار دینے کا معاملہ دراصل اس تیزی اور اچانک فیصلے کی وجہ بنا، تو امریکی سفیر نے کہا کہ میرا خیال بالکل مختلف ہے یہ جلد بازی میں نہیں کیا گیا۔ جب امریکی سفیر کی توجہ جاپان میں افغانستان کے مستقبل اور مالی امداد پر غور کے لیے دارالحکومت ٹوکیو میں اجلاس کے دوران افغان صدر حامد کرزئی کے اس موقف پر دلوائی گئی کہ دنیا اس وقت تک محفوظ نہیں جب تک افغانستان کے باہر دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں قائم ہیں، تو امریکی سفیر نے کہا کہ وہ درست کہہ رہے ہیں۔ افغانستان میں موجود طالبان اور افغان سرحد سے جڑے پاکستانی قبائلی علاقے میں موجود شدت پسندوں کے دوہرے خطرے سے نمٹنے کے بارے میں امریکی سفیر نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان خود مختار ہو۔ خود مختاری کا کیا مطلب ہے؟ خود مختاری کا مطلب ہے کہ پاکستانی علاقے پر کنٹرول پاکستانی قیادت، بشمول پاکستانی فوج کا ہو۔ ’اب جو لوگ اس خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ دہشتگرد ہیں اور پاکستان کا فائدہ اٹھا کر قبائلی علاقوں میں موجود ہیں۔ تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت پورے ملک میں اپنی قوت سے ان لوگوں کو شکست دیں اور ہم اس میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘ مگر جب ان سے کہا گیا کہ بات جب پاکستان کی خودمختاری تک جاتی ہے تو امریکی جاسوس طیاروں (ڈرون حملوں) تک بھی جاتی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ خود مختاری کا معاملہ اس ملک میں موجود لوگوں سے متعلق ہے جو اس ملک پر اندر سے حملہ آور ہیں۔ اس سوال پر کہ کیا پاکستان مسئلے کا حصہ ہے یا حل کا، امریکی سفیر کیمرون منٹر نے کہا کہ اس کے لیے قیادت، حوصلے اور تعاون کی ضرورت ہے۔ ’ہمیں پاکستان کے ساتھ کام کرنے لیے برداشت اور کشادہ سوچ کی ضرورت ہے۔ پاکستان حل کا حصہ بن سکتا ہے مگر اس کے لیے ہماری قیادت منتظر ہے کہ پاکستان قائدانہ کردار کا مظاہرہ کرے۔‘ اس سوال پر کہ بعض حلقے الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان دہرا کھیل کھیل رہا ہے اور بعض حلقے الزام لگاتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ بھی دہرا کھیل رہی ہے تو کیمرون منٹر نے کہا کہ دونوں ملکوں کے پاس خفیہ ادارے ہیں، جو ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کچھ حلقوں میں سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست بننے جا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی طاقت پر یقین کرنا ہوگا اس کے عوام ہی پاکستان کی طاقت ہیں انہیں ماننا ہوگا کہ ہاں ہمیں مسائل درپیش ہیں اور ہم ہی ان کو حل کر سکتے ہیں۔ اس سوال پر کہ جب امریکہ افغانستان سے جائے گا تو پاکستان کی حیثیت کیا رہ جائے گی، ان کا کہنا تھا کہ ملکوں کا تعلق ملکوں سے ہوتا ہے۔ اگر آپ افغانستان سے جانے کی بات کرتے ہیں تو کیا ہماری فوج افغانستان میں رہے گی، ہاں۔۔۔ کیا ہماری ساری فوج افغانستان سے چلی جائے گی، نہیں۔۔۔ ہم نے افغانستان سے معاہدہ کیا ہے کہ ہماری فوج وہاں رہے گی۔ لیکن معاملہ اتنا ہی سا نہیں ہے افغانستان اور امریکہ کا تعلق فوج تک محدود نہیں۔ سال 2013 ءکے مجوزہ انتخابات کے بعد عمران خان یا نواز شریف کی قیادت میں کسی نئی مگر امریکہ سے گریز کرتی ہوئی حکومت کی قیام کے امکان پر انہوں نے کہا کہ وہ عمران خان سے بھی ملے ہیں اور نواز شریف سے بھی اور دونوں ہی نے انہیں یقین دلوایا ہے کہ دونوں ہی مکمل طور پر امریکہ کے حامی ہیں۔ بلوچستان کے معاملے پر کانگریس میں قرارداد کی منظوری سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ کو کانگریس کو سمجھنا ہوگا۔ اگر کانگریس کا کوئی رکن اپنی سوچ کا اظہار کرنا ہے وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن ہم پاکستان کی علاقائی سلامتی کے حامی ہیں۔ ہماری کانگریس بھی اس کی حامی ہے۔ مگر جب انہیں یاد دلوایا گیا کہ امریکہ تو پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے خلاف ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ پاکستان کے اعلیٰ رہنماو¿ں سے بات کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ بجلی کی کمی ہرگز نہیں۔’بس صرف اچھے انتظام، اصلاحات اور نئے نرخوں کی ضرورت ہے۔‘ دریں اثناءامریکہ نے ایک بار پھر پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کی سرگرمیاں روکنے کا مطالبہ کر دیا۔ واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے ڈائریکٹر پیٹرک وینٹرل نے نیوز بریفنگ سے خطاب میں کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون پر پاکستان سے مذاکرات جاری ہیں۔ ٹوکیو سہ فریقی مذاکرات میں بھی حقانی نیٹ ورک کا معاملہ سرفہرست تھا۔ کانفرنس کے دوران امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنی پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کھر سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی سرگرمیاں روکے۔ ترجمان نے کہاکہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کی سرگرمیاں روکنے کیلئے مزید اقدامات کرنا ہونگے۔ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں امریکیوں پر حملوں میں براہ راست ملوث ہے۔ نیٹو سپلائی کھلنے کے بعد بھی مختلف مسائل پر مذاکرات جاری ہیں۔ آن لائن کے مطابق ڈیوڈ وینٹرل نے کہا کہ امریکہ طالبان کی طرف سے ایک خاتون کو افغانستان میں سرعام پھانسی دینے کی شدید مذمت کرتا ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ طالبان سے مفاہمتی عمل کے بارے میں کوئی تازہ اطلاع نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف بڑی کارروائی کا سوچ رہے ہیں۔ترجمان پینٹاگون نے کہا ہے کہ پاکستان کو حقانی گروپ سے نمٹنے کیلئے مزید اقدامات کرنا ہونگے
اسلام آباد (مقبول ملک/ نیشن رپورٹ) پاکستان اور امریکہ کے درمیان مستقبل میں تعلقات کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ دونوں ملک اپنے اختلافات پر کس طرح قابو پاتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف موثر تعاون کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ انتہائی اہم ذرائع نے ”دی نیشن“ کو بتایا کہ پاکستان اور امریکہ سٹریٹجک مذاکرات کے اگلے دور کیلئے ایجنڈا تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے معاملات دونوں ملکوں کیلئے بڑا چیلنج ہونگے۔
اسلام آباد (مقبول ملک/ نیشن رپورٹ) پاکستان اور امریکہ کے درمیان مستقبل میں تعلقات کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ دونوں ملک اپنے اختلافات پر کس طرح قابو پاتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف موثر تعاون کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ انتہائی اہم ذرائع نے ”دی نیشن“ کو بتایا کہ پاکستان اور امریکہ سٹریٹجک مذاکرات کے اگلے دور کیلئے ایجنڈا تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے معاملات دونوں ملکوں کیلئے بڑا چیلنج ہونگے۔