تنویر ظہور
میں نے اپنے کالم کا نام ”یادیں“ اس لئے رکھا ہے کہ اس میں گزرے ہوئے دنوں کی یادیں بیان کر سکوں۔ ایک یاد محترم مجید نظامی سے بھی وابستہ ہے جس کا ذکر کروں گا۔ میری عمر اس وقت 65 برس کی ہے۔ صحافت اور ادب کی خدمت میں 40 برس گزر چکے ہیں۔ اس دوران مجید نظامی صاحب سے میری ایک ملاقات ہوئی۔ یہ 1985ءکی بات ہے۔ میں ایک معاصر روزنامہ میں کام کرتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ ”نوائے وقت“ Join کروں۔ اس سلسلے میں میں نے جناب شریف فاروق سے بات کی جو روزنامہ جہاد پشاور کے مالک اور چیف ایڈیٹر ہیں۔ شریف فاروق صاحب‘ میرے دوست اور سکول کے کلاس فیلو طارق فاروق (اب مرحوم) کے والد ہیں۔ شریف فاروق صاحب جب لاہور آئے تو طارق فاروق کے گھر ان سے ملاقات ہوئی۔ شریف فاروق صاحب نے روزنامہ جہاد کے لیٹر پیڈ پر یہ جملے لکھے۔
محترم المقام جناب مجید نظامی صاحب!
سلام مسنون
میں نے مسٹر تنویر ظہور کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ انہیں آپ کے پاس بھجوا رہا ہوں۔ مجھے کامل توقع ہے کہ یہ نوجوان (واضح رہے کہ ان دنوں میں واقعی نوجوان تھا) آپ کے لئے بے حد مفید ثابت ہوں گے۔
یہ لیٹر لے کر میں نے جناب مجید نظامی سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا لاہور آفس میں کوئی سیٹ خالی نہیں ہے۔ راولپنڈی جانا چاہو تو میں طارق وارثی صاحب کے نام لکھ دیتا ہوں جو ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جس اخبار میں‘ میں کام کر رہا ہوں۔ طارق وارثی صاحب وہاں کچھ عرصہ نیوز ایڈیٹر رہے ہیں اور میں نے ان کے ماتحت کام کیا ہے لہٰذا وہ صحافت میں وہ میرے استاد بھی ہیں۔
میرے اس جملے کے بعد لیٹر ہی پر یہ جملہ لکھ دیا ”طارق وارثی صاحب! یہ آپکے شاگرد بھی ہیں“ میں پکا لاہوری ہوں آپ نے واقعہ سنا ہو گا کہ لاہور کا ایک شخص حج کی سعادت حاصل کرنے گیا۔ طواف کعبہ کے بعد وہ بیمار پڑ گیا۔ اس نے لاہور اپنی والدہ کو فون کیا کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر جا کر میری صحت یابی کے لئے دعا کرنا۔ وہ شخص پتہ نہیں لاہور میں کہاں رہتا تھا۔ میری رہائش (جسے میں فقیر خانہ کہتا ہوں) داتا صاحب کے عقب میں واقع ہے۔
سو میرا رزق اسی اخبار میں لکھا تھا اور 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا مگر دل مچلتا رہا کہ کسی طریقے سے ”نوائے وقت“ کے ساتھ وابستگی ہو جائے۔ نظامی صاحب کی مہربانی سے کالم شروع ہو گیا ہے۔
جب میں نے شاہد رشید صاحب کی مرتب کردہ کتاب ”مجید نظامی‘ اعتراف خدمت“ کا مطالعہ کیا تو مجھے سمجھ آگئی کہ مجید نظامی صاحب اسم بامسمیٰ ہیں۔ کتاب ”اعتراف خدمت“ کے مطالعے کے بعد دو شعر جناب مجید نظامی کی نذر کر رہا ہوں
قائم رکھا وقار صحافت کا ملک میں
روح رواں ہیں وقت کی آواز کے مجید
جو آئی ہے صحافتی خدمات پر کتاب
تنویر مستحق تھے اس اعزاز کے مجید
560 صفحات پر محترم مجید نظامی کی پچاس سالہ صحافتی زندگی کا جس طرح احاطہ کیا گیا ہے اس میں کوئی پہلو ایسا نہیں جو تشنہ رہ گیا ہو۔ اس کے لئے جناب شاہد رشید مبارک باد کے مستحق ہیں۔ میں جب بھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ جاتا ہوں‘ سب سے پہلے شاہد رشید اور پھر اپنے دیرینہ دوست پروفیسر محمد سعید شیخ سے ملاقات کرتا ہوں۔ پروفیسر صاحب سے میری 35 سالہ رفاقت ہے۔ وہ گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہور میں ہسٹری اور پولیٹیکل سائنس کے سربراہ تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے منسلک ہو گئے اور پاکستان آگہی پروگرام کے تحت مختلف تعلیمی اداروں میں لیکچر دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہتر جگہ پر پہنچ گئے ہیں۔ کام بھی ان کے ذہن کے مطابق ملا ہے۔ پاکستان آگہی پر لیکچر دینا ان کا مشن بھی ہے۔ روزی کی روزی‘ مشن کا مشن۔
میں نے اپنے کالم کا نام ”یادیں“ اس لئے رکھا ہے کہ اس میں گزرے ہوئے دنوں کی یادیں بیان کر سکوں۔ ایک یاد محترم مجید نظامی سے بھی وابستہ ہے جس کا ذکر کروں گا۔ میری عمر اس وقت 65 برس کی ہے۔ صحافت اور ادب کی خدمت میں 40 برس گزر چکے ہیں۔ اس دوران مجید نظامی صاحب سے میری ایک ملاقات ہوئی۔ یہ 1985ءکی بات ہے۔ میں ایک معاصر روزنامہ میں کام کرتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ ”نوائے وقت“ Join کروں۔ اس سلسلے میں میں نے جناب شریف فاروق سے بات کی جو روزنامہ جہاد پشاور کے مالک اور چیف ایڈیٹر ہیں۔ شریف فاروق صاحب‘ میرے دوست اور سکول کے کلاس فیلو طارق فاروق (اب مرحوم) کے والد ہیں۔ شریف فاروق صاحب جب لاہور آئے تو طارق فاروق کے گھر ان سے ملاقات ہوئی۔ شریف فاروق صاحب نے روزنامہ جہاد کے لیٹر پیڈ پر یہ جملے لکھے۔
محترم المقام جناب مجید نظامی صاحب!
سلام مسنون
میں نے مسٹر تنویر ظہور کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ انہیں آپ کے پاس بھجوا رہا ہوں۔ مجھے کامل توقع ہے کہ یہ نوجوان (واضح رہے کہ ان دنوں میں واقعی نوجوان تھا) آپ کے لئے بے حد مفید ثابت ہوں گے۔
یہ لیٹر لے کر میں نے جناب مجید نظامی سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا لاہور آفس میں کوئی سیٹ خالی نہیں ہے۔ راولپنڈی جانا چاہو تو میں طارق وارثی صاحب کے نام لکھ دیتا ہوں جو ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جس اخبار میں‘ میں کام کر رہا ہوں۔ طارق وارثی صاحب وہاں کچھ عرصہ نیوز ایڈیٹر رہے ہیں اور میں نے ان کے ماتحت کام کیا ہے لہٰذا وہ صحافت میں وہ میرے استاد بھی ہیں۔
میرے اس جملے کے بعد لیٹر ہی پر یہ جملہ لکھ دیا ”طارق وارثی صاحب! یہ آپکے شاگرد بھی ہیں“ میں پکا لاہوری ہوں آپ نے واقعہ سنا ہو گا کہ لاہور کا ایک شخص حج کی سعادت حاصل کرنے گیا۔ طواف کعبہ کے بعد وہ بیمار پڑ گیا۔ اس نے لاہور اپنی والدہ کو فون کیا کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر جا کر میری صحت یابی کے لئے دعا کرنا۔ وہ شخص پتہ نہیں لاہور میں کہاں رہتا تھا۔ میری رہائش (جسے میں فقیر خانہ کہتا ہوں) داتا صاحب کے عقب میں واقع ہے۔
سو میرا رزق اسی اخبار میں لکھا تھا اور 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا مگر دل مچلتا رہا کہ کسی طریقے سے ”نوائے وقت“ کے ساتھ وابستگی ہو جائے۔ نظامی صاحب کی مہربانی سے کالم شروع ہو گیا ہے۔
جب میں نے شاہد رشید صاحب کی مرتب کردہ کتاب ”مجید نظامی‘ اعتراف خدمت“ کا مطالعہ کیا تو مجھے سمجھ آگئی کہ مجید نظامی صاحب اسم بامسمیٰ ہیں۔ کتاب ”اعتراف خدمت“ کے مطالعے کے بعد دو شعر جناب مجید نظامی کی نذر کر رہا ہوں
قائم رکھا وقار صحافت کا ملک میں
روح رواں ہیں وقت کی آواز کے مجید
جو آئی ہے صحافتی خدمات پر کتاب
تنویر مستحق تھے اس اعزاز کے مجید
560 صفحات پر محترم مجید نظامی کی پچاس سالہ صحافتی زندگی کا جس طرح احاطہ کیا گیا ہے اس میں کوئی پہلو ایسا نہیں جو تشنہ رہ گیا ہو۔ اس کے لئے جناب شاہد رشید مبارک باد کے مستحق ہیں۔ میں جب بھی نظریہ پاکستان ٹرسٹ جاتا ہوں‘ سب سے پہلے شاہد رشید اور پھر اپنے دیرینہ دوست پروفیسر محمد سعید شیخ سے ملاقات کرتا ہوں۔ پروفیسر صاحب سے میری 35 سالہ رفاقت ہے۔ وہ گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہور میں ہسٹری اور پولیٹیکل سائنس کے سربراہ تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے منسلک ہو گئے اور پاکستان آگہی پروگرام کے تحت مختلف تعلیمی اداروں میں لیکچر دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہتر جگہ پر پہنچ گئے ہیں۔ کام بھی ان کے ذہن کے مطابق ملا ہے۔ پاکستان آگہی پر لیکچر دینا ان کا مشن بھی ہے۔ روزی کی روزی‘ مشن کا مشن۔