شہر یار اصغر مرزا
اولڈ ایج بینیفٹ انسی ٹیوشن (ای او بی آئی) پنشن سکیم جو پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے منشور میں کئے گئے وعدہ کے مطابق 1974ءمیں شروع کی تھی۔ انہوں نے فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں‘ محنت کشوں اور پرائیویٹ سیکٹر کے تمام ملازمین کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ انہیں بھی سرکاری ملازمین کی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن دی جائے گی۔ ابتدا میں اسے ایک ہزار روپے ماہوار تنخواہ پانے والوں تک محدود رکھا گیا تھا بعدازاں اس کا دائرہ تمام ملازمین تک بڑھا دیا گیا تھا اور سوائے ایگزیکٹو کلاس کے تمام پرائیویٹ ملازمین کو رجسٹرڈ کر لیا گیا تھا۔
اس سکیم کا طریق کار سب کے لئے یکساں تھا‘ تمام مالکان اپنے رجسٹرڈ ملازمین کی تنخواہ کی کچھ مقرر کردہ شرح کے مطابق رقم ای او بی آئی کے دفاتر میں جمع کراتے تھے اور قانون کے مطابق اتنی ہی رقم حکومت اپنی طرف سے بھی جمع کراتی تھی۔ تمام مرد ملازمین کو ساٹھ سال اور خواتین کو پچپن سال عمر ہونے پر پنشن شروع ہو جاتی ہے جو تاحیات جاری رہتی ہے۔ ابتدا میں یہ پنشن ڈیڑھ سو روپے ماہوار سے شروع ہوئی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی 2008ءمیں پندرہ سو سے دو ہزار روپے کی کر دی گئی۔ 2008ءکے بعد مہنگائی میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا‘ خیال تھا کہ حکومت سرکاری ملازمین کی پنشن کی طرح ای او بی آئی کی پنشن بھی بڑھائی جائے گی لیکن 2009ءمیں اس پر غور کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا جبکہ 2010ءمیں اسے دو ہزار سے تین ہزار روپے کر دیا گیا۔ 2011ءمیں اسی برسراقتدار حکومت نے ان خاموش اور بزرگ شہریوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی۔ حکومت نے اپنی تسلیم شدہ مہنگائی کے برعکس صرف بیس فیصد اضافہ کیا ہے جو صرف چھ سو روپے ماہوار اضافہ ہے۔ یعنی دو سال کے پنشن تین ہزار سے چھتیس سو روپے ماہوار ہو جائے گی۔ اس دوران تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن تقریباً دو تین گنا ہو چکی ہے۔
ہمارے یہ بزرگ جن کے ہاتھ لرز رہے ہیں اور ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں‘ دعاوں کے یہ ستون‘ یہ مینار ہر وقت اپنے رب کائنات اور آقائے نامدار سے ملک و ملت کی سلامتی کے طلب گار ہیں اور ہم سب ان کی دعاوں کے سہارے زندہ ہیں۔ ملک میں سہولتوں سے محروم جوان طبقہ تو اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر بھی آتا رہتا ہے لیکن اس طبقہ کو تو سڑکوں پر نکلنے کے لئے مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ چودھری افتخار محمد صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ازخود نوٹس لیکر ان بزرگوں کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ اور بقول حضرت علیؓ ”کوئی بھی معاشرہ ظلم کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے‘ ناانصافی کے ساتھ نہیں۔“
اولڈ ایج بینیفٹ انسی ٹیوشن (ای او بی آئی) پنشن سکیم جو پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے منشور میں کئے گئے وعدہ کے مطابق 1974ءمیں شروع کی تھی۔ انہوں نے فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں‘ محنت کشوں اور پرائیویٹ سیکٹر کے تمام ملازمین کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ انہیں بھی سرکاری ملازمین کی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن دی جائے گی۔ ابتدا میں اسے ایک ہزار روپے ماہوار تنخواہ پانے والوں تک محدود رکھا گیا تھا بعدازاں اس کا دائرہ تمام ملازمین تک بڑھا دیا گیا تھا اور سوائے ایگزیکٹو کلاس کے تمام پرائیویٹ ملازمین کو رجسٹرڈ کر لیا گیا تھا۔
اس سکیم کا طریق کار سب کے لئے یکساں تھا‘ تمام مالکان اپنے رجسٹرڈ ملازمین کی تنخواہ کی کچھ مقرر کردہ شرح کے مطابق رقم ای او بی آئی کے دفاتر میں جمع کراتے تھے اور قانون کے مطابق اتنی ہی رقم حکومت اپنی طرف سے بھی جمع کراتی تھی۔ تمام مرد ملازمین کو ساٹھ سال اور خواتین کو پچپن سال عمر ہونے پر پنشن شروع ہو جاتی ہے جو تاحیات جاری رہتی ہے۔ ابتدا میں یہ پنشن ڈیڑھ سو روپے ماہوار سے شروع ہوئی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی 2008ءمیں پندرہ سو سے دو ہزار روپے کی کر دی گئی۔ 2008ءکے بعد مہنگائی میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا‘ خیال تھا کہ حکومت سرکاری ملازمین کی پنشن کی طرح ای او بی آئی کی پنشن بھی بڑھائی جائے گی لیکن 2009ءمیں اس پر غور کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا جبکہ 2010ءمیں اسے دو ہزار سے تین ہزار روپے کر دیا گیا۔ 2011ءمیں اسی برسراقتدار حکومت نے ان خاموش اور بزرگ شہریوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی۔ حکومت نے اپنی تسلیم شدہ مہنگائی کے برعکس صرف بیس فیصد اضافہ کیا ہے جو صرف چھ سو روپے ماہوار اضافہ ہے۔ یعنی دو سال کے پنشن تین ہزار سے چھتیس سو روپے ماہوار ہو جائے گی۔ اس دوران تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن تقریباً دو تین گنا ہو چکی ہے۔
ہمارے یہ بزرگ جن کے ہاتھ لرز رہے ہیں اور ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں‘ دعاوں کے یہ ستون‘ یہ مینار ہر وقت اپنے رب کائنات اور آقائے نامدار سے ملک و ملت کی سلامتی کے طلب گار ہیں اور ہم سب ان کی دعاوں کے سہارے زندہ ہیں۔ ملک میں سہولتوں سے محروم جوان طبقہ تو اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر بھی آتا رہتا ہے لیکن اس طبقہ کو تو سڑکوں پر نکلنے کے لئے مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ چودھری افتخار محمد صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ازخود نوٹس لیکر ان بزرگوں کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ اور بقول حضرت علیؓ ”کوئی بھی معاشرہ ظلم کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے‘ ناانصافی کے ساتھ نہیں۔“