سکندر خان بلوچ(ملتان)
بنگالی مےجر صفی اللہ 2اےسٹ بنگال رجمنٹ کا سےکنڈ ان کمانڈتھا۔ےہ شخص مغربی پاکستانےوں کے سخت خلاف تھا۔اس کے بہت پہلے سے بھارتےوں سے رابطے قائم ہو چکے تھے اور باقاعدگی سے اگر تلہ جاتا رہا تھا۔ےہ خفےہ طور پر بنگالی افسروں اور جوانوں کو بھی منظم کرتا رہا۔مغربی پاکستانےوں کو قتل کرنے اور بغاوت کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی ۔27مارچ کو اس شخص نے زبردستی ےونٹ کی کمان سنبھال لی ۔اس ےونٹ کے ساتھ مغربی پاکستان کے چار آفےسرز ،کچھ جے سی اوز اور تقرےبا ً تےس کے قرےب جوان تھے۔ اس نے ان سب کو گھےر کر شوٹ کر دےا۔کچھ آفےسرز اور جوانوں نے فےملےز ساتھ رکھی ہوئی تھےں، ان سب کو بے دردی سے بے حرمتی کے بعد ذبح کےا۔جب مغربی پاکستانی فوج وہاں پہنچی تو بھےانک منظر دےکھ کرجوان اپنے حواس قابو مےں نہ رکھ سکے۔اےک نوجوان کپتان کی بےگم مادر زاد ننگی پڑی تھی۔اسکا پےٹ چاک تھا، پاﺅں کٹے تھے ،جسم جگہ جگہ سے نوچا ہوا تھا اور اسکا معصوم بچہ اس کی خشک چھاتےوں سے دودھ پےنے کی کوشش کر رہا تھا۔کپتان صاحب خون مےں لت پت مردہ پڑا تھا۔یہی حالت تقرےباً باقی فےملےز کی تھی۔اےک صوبےدار صاحب کی چار جوان بےٹےاں تھےں۔انہےں گےنگ رےپ کے بعد بےدردی سے قتل کر دےا گےا۔سب کے پےٹ چاک تھے ،انتڑےاں باہر نکلی ہوئی تھےں۔گلے مےں رسےوں کے ساتھ کارڈ بندھے ہوئے تھے”پنجابےوں کےلئے تحفہ“۔مےجر جنرل سکھونت سنگھ نے اپنی کتاب\\\"India\\\'s Wars Since Independence\\\"مےں لکھا کہ اس ےونٹ نے سب سے زےادہ مغربی پاکستانےوں کو قتل کےا۔اسی طرح مےمن سنگھ کےڈٹ کالج مےں اےک پنجاب رجمنٹ کے کپتان صاحب بطور اےڈجوٹنٹ تعےنات تھے۔ان کے گھر پر حملہ کےا گےا۔خاوند کے سامنے اس کی بےوی کی بے حرمتی کرنے کے بعد اسے اےذائےں دے دے کر ذبح کےا گےااور اسکا چھوٹا بچہ ماں کی چےخےں سن کر چلاتا رہا لیکن کسی کو رحم نہ آےا۔ماں کو ختم کرنے کے بعد ان ظالموں نے بچے کو ہوا مےں اچھالا اور نےچے بندوق کی سنگےن پر روکا۔تھوڑی دےر کےلئے بچہ تڑپا اور پھر اللہ کو پےارا ہوگےا۔کپتان صاحب کو پکڑ کر باری باری اسکی ٹانگےں کاٹےں،پھر بازو کاٹے اور آخر مےں اسکے گلے مےں رسی ڈال کر جےپ کے پےچھے باندھ دےا۔چند منٹوں کے بعد وہ بھی اپنی فےملی سے جا ملا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
27مارچ کو چٹا گانگ مےں 2کمانڈو بٹالےن کے پچاس آدمی شہےد کر دئے گئے جن مےں کمانڈنگ آفےسر سمےت 3اور آفےسر ز بھی شامل تھے۔اتنے ہی لوگ زخمی ہوئے۔فوجی بھی آخر انسان ہےں کوئی فرشتے تو نہےں۔جب انکے سامنے انکے ساتھی،انکی بےٹےاں،بےوےاں،بہنےں اس طرح بے دردی کے ساتھ قتل کی جائےں گی ،انہےں گےنگ رےپ کےا جائے گا تو وہ اپنے حواس کو کےسے قابو مےں رکھ سکتے تھے؟ یہ تفصیل کافی لمبی ہے۔ بہرحال یہ قیامت خیز لمحات تھے۔جو کچھ بنگالیوں نے غیربنگالیوں کے ساتھ کیا کوئی درندہ صفت انسان بھی شاید ایسا نہ کر سکے۔ ان سب واقعات کی تفصیل محترم بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) آصف ہارون نے اپنی تحقیقی تخلیق Roots of 1971 Tragedy میں صفحہ 240 سے لیکر 260 تک دی ہے۔ محترم بریگیڈیئر صاحب اُس خونیں دَور میں مشرقی پاکستان میں اس خونیں ڈرامے کے عینی شاہد اور حصہ تھے۔
مختلف اخبارات کے مطابق 1,76,000 تربےت ےافتہ بنگالےوں نے مختلف فورسز سے بغاوت کی۔اتنی ہی تعداد مےں مکتی باہنی کے پوری طرح مسلح غنڈے تھے جنہوں نے پورے ملک مےں تباہی مچادی۔گےنگ رےپ انہوں نے فرض سمجھ کر کئے۔ گلے گھونٹ کر لوگوں کی آنکھےں نکالےں۔ہجوم کے سامنے بچوں۔عورتوں اورمردوں کو کوڑے مارے ۔ نعرے مارتے ہوئے عورتوں کی چھاتےاں کاٹی گئےں۔سنگےنوں سے جسم چھلنی کرنا۔اعضاءکاٹنا اور جےپوں کےساتھ باندھ کرجسموں کو چےر دےنااورپھر خوشی سے نعرے لگاناوہ کھےل تھے جو پوری دنےا کے رپورٹرز نے دےکھے۔2مئی 1971ءکے دی سنڈے ٹائمز نے لکھا کہ برہمن باڑےہ کے علاقے مےں 82معصوم بچوں کوقطارمےں کھڑاکرکے اڑا دےا گےا۔تےن سوبہارےوںاور مغربی پاکستانےوںکی لاشےں اسی علاقے مےںجےل کے اردگرد بکھری پڑی ملےں۔ تےن ہزار عورتوں اور بچوں کی لاشےںاٹھا کر گاو¿ںکے علاقے سے۔ دو ہزارا تردی گاو¿ں۔ پانچ سو بھراب بازاراوردوسوترپن کلورگھاٹ کی مل سے ملےں۔اسی طرح نو ہزارچٹاگانگ سے اور تقرےباًاتنی ہی لاشےںکھلناسے ملےں۔
اےک مقام پر بہت سی نوجوان بہاری لڑکےوں اور بچےوں کی برہنہ لاشےں ملےں جنہےں بےدردی سے رےپ کرکے مارا گےا تھا اورانکے زخموں مےںبنگلہ دےش کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ان تمام مظالم کے باوجودمغربی پاکستان مےں اس وقت جو بنگالی تھے وہ ےہاں پورے عزت و احترام کےساتھ آخر تک اپنے گھروں مےں پوری مراعات کے ساتھ رہتے رہے۔یاد رہے کہ یہاں اس وقت پندرہ سے بیس ہزار بنگالی موجود تھے۔ بہت سے لوگ اپنی فیمیلیز کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اےک بھی بنگالی پر ےہاں حملہ نہےں ہوا۔ہم پھر بھی انہےں بھائی سمجھتے رہے۔جنگ کے بعد انہےں پوری مراعات کےساتھ مختلف کےمپوں مےں رکھا گےا اور عزت و احترام سے واپس بھےجا گےا۔ جن بنگالیوں کی یہاں جائیدادیں تھیں انہوں نے آرام سے یہ جائیدادیں بیچیںاور کسی نے اعتراض نہ کیا۔ذلیل و خوار ہم ہوئے، ظلم و بربریت کا نشانہ بھی ہم بنے، انسانیت سوز سلوک بھی ہماری خواتین کے ساتھ ہوا، عصمتیں بھی ہماری خواتین کی لٹیں۔ بندوقوں کی سنگینوں سے قتل بھی ہمارے بچے اور ہماری خواتین ہوئیں اور پھر مجرم بھی ہم ٹھہرے۔ ہمیں انصاف کون دے گا؟
معزز قارئین یہ ہے بنگالی بھائیوں کی دوستی کی ایک جھلک ہم نے حال ہی میں ڈھاکہ میں ہونے والے کرکٹ مقابلوں میں بھی دیکھی۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم صاحبہ اس وقت تک سٹیڈیم میں مہمانوں کی گیلری میں موجود رہیں جب تک بنگلہ دیش کی کامیابی کے چانسز تھے۔ جونہی پاکستانی ٹیم کا پلہ بھاری نظر آیا تو وہ برداشت نہ کر سکیں اور اٹھ کر چلی گئیں۔بعد میں بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم نے پاکستان آکر کھیلنے سے بھی انکار کردیا۔ حالانکہ انٹر نیشنل کرکٹ میں بنگلہ دیشی ٹیم کو لانے والی پاکستانی ٹیم ہی تھی۔ بین الاقوامی معاملات میں بھی بنگلہ دیش نے ہمیشہ پاکستان کےخلاف بھارت کا ساتھ دیا ہے۔
بعض اوقات تاریخ کے فیصلے بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ ہمارے آباﺅ اجداد نے لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد بھارتیوں کے مقابلے میں آزادی حاصل کی لیکن تاریخ کا ظلم دیکھیں کہ 1971کی جنگ کی وجہ سے بنگلہ دیش بھارت کی ایک طفیلی ریاست میں بدل چکا ہے اور پاکستان کو ہمارے پیارے راہنماﺅں نے پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو پیش کر دیا ۔ باقی کیا بچا؟ ان لاکھوں لوگوں کی شہادتیں جو پاکستان پر قربان ہوئے۔
بنگالی مےجر صفی اللہ 2اےسٹ بنگال رجمنٹ کا سےکنڈ ان کمانڈتھا۔ےہ شخص مغربی پاکستانےوں کے سخت خلاف تھا۔اس کے بہت پہلے سے بھارتےوں سے رابطے قائم ہو چکے تھے اور باقاعدگی سے اگر تلہ جاتا رہا تھا۔ےہ خفےہ طور پر بنگالی افسروں اور جوانوں کو بھی منظم کرتا رہا۔مغربی پاکستانےوں کو قتل کرنے اور بغاوت کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی ۔27مارچ کو اس شخص نے زبردستی ےونٹ کی کمان سنبھال لی ۔اس ےونٹ کے ساتھ مغربی پاکستان کے چار آفےسرز ،کچھ جے سی اوز اور تقرےبا ً تےس کے قرےب جوان تھے۔ اس نے ان سب کو گھےر کر شوٹ کر دےا۔کچھ آفےسرز اور جوانوں نے فےملےز ساتھ رکھی ہوئی تھےں، ان سب کو بے دردی سے بے حرمتی کے بعد ذبح کےا۔جب مغربی پاکستانی فوج وہاں پہنچی تو بھےانک منظر دےکھ کرجوان اپنے حواس قابو مےں نہ رکھ سکے۔اےک نوجوان کپتان کی بےگم مادر زاد ننگی پڑی تھی۔اسکا پےٹ چاک تھا، پاﺅں کٹے تھے ،جسم جگہ جگہ سے نوچا ہوا تھا اور اسکا معصوم بچہ اس کی خشک چھاتےوں سے دودھ پےنے کی کوشش کر رہا تھا۔کپتان صاحب خون مےں لت پت مردہ پڑا تھا۔یہی حالت تقرےباً باقی فےملےز کی تھی۔اےک صوبےدار صاحب کی چار جوان بےٹےاں تھےں۔انہےں گےنگ رےپ کے بعد بےدردی سے قتل کر دےا گےا۔سب کے پےٹ چاک تھے ،انتڑےاں باہر نکلی ہوئی تھےں۔گلے مےں رسےوں کے ساتھ کارڈ بندھے ہوئے تھے”پنجابےوں کےلئے تحفہ“۔مےجر جنرل سکھونت سنگھ نے اپنی کتاب\\\"India\\\'s Wars Since Independence\\\"مےں لکھا کہ اس ےونٹ نے سب سے زےادہ مغربی پاکستانےوں کو قتل کےا۔اسی طرح مےمن سنگھ کےڈٹ کالج مےں اےک پنجاب رجمنٹ کے کپتان صاحب بطور اےڈجوٹنٹ تعےنات تھے۔ان کے گھر پر حملہ کےا گےا۔خاوند کے سامنے اس کی بےوی کی بے حرمتی کرنے کے بعد اسے اےذائےں دے دے کر ذبح کےا گےااور اسکا چھوٹا بچہ ماں کی چےخےں سن کر چلاتا رہا لیکن کسی کو رحم نہ آےا۔ماں کو ختم کرنے کے بعد ان ظالموں نے بچے کو ہوا مےں اچھالا اور نےچے بندوق کی سنگےن پر روکا۔تھوڑی دےر کےلئے بچہ تڑپا اور پھر اللہ کو پےارا ہوگےا۔کپتان صاحب کو پکڑ کر باری باری اسکی ٹانگےں کاٹےں،پھر بازو کاٹے اور آخر مےں اسکے گلے مےں رسی ڈال کر جےپ کے پےچھے باندھ دےا۔چند منٹوں کے بعد وہ بھی اپنی فےملی سے جا ملا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
27مارچ کو چٹا گانگ مےں 2کمانڈو بٹالےن کے پچاس آدمی شہےد کر دئے گئے جن مےں کمانڈنگ آفےسر سمےت 3اور آفےسر ز بھی شامل تھے۔اتنے ہی لوگ زخمی ہوئے۔فوجی بھی آخر انسان ہےں کوئی فرشتے تو نہےں۔جب انکے سامنے انکے ساتھی،انکی بےٹےاں،بےوےاں،بہنےں اس طرح بے دردی کے ساتھ قتل کی جائےں گی ،انہےں گےنگ رےپ کےا جائے گا تو وہ اپنے حواس کو کےسے قابو مےں رکھ سکتے تھے؟ یہ تفصیل کافی لمبی ہے۔ بہرحال یہ قیامت خیز لمحات تھے۔جو کچھ بنگالیوں نے غیربنگالیوں کے ساتھ کیا کوئی درندہ صفت انسان بھی شاید ایسا نہ کر سکے۔ ان سب واقعات کی تفصیل محترم بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) آصف ہارون نے اپنی تحقیقی تخلیق Roots of 1971 Tragedy میں صفحہ 240 سے لیکر 260 تک دی ہے۔ محترم بریگیڈیئر صاحب اُس خونیں دَور میں مشرقی پاکستان میں اس خونیں ڈرامے کے عینی شاہد اور حصہ تھے۔
مختلف اخبارات کے مطابق 1,76,000 تربےت ےافتہ بنگالےوں نے مختلف فورسز سے بغاوت کی۔اتنی ہی تعداد مےں مکتی باہنی کے پوری طرح مسلح غنڈے تھے جنہوں نے پورے ملک مےں تباہی مچادی۔گےنگ رےپ انہوں نے فرض سمجھ کر کئے۔ گلے گھونٹ کر لوگوں کی آنکھےں نکالےں۔ہجوم کے سامنے بچوں۔عورتوں اورمردوں کو کوڑے مارے ۔ نعرے مارتے ہوئے عورتوں کی چھاتےاں کاٹی گئےں۔سنگےنوں سے جسم چھلنی کرنا۔اعضاءکاٹنا اور جےپوں کےساتھ باندھ کرجسموں کو چےر دےنااورپھر خوشی سے نعرے لگاناوہ کھےل تھے جو پوری دنےا کے رپورٹرز نے دےکھے۔2مئی 1971ءکے دی سنڈے ٹائمز نے لکھا کہ برہمن باڑےہ کے علاقے مےں 82معصوم بچوں کوقطارمےں کھڑاکرکے اڑا دےا گےا۔تےن سوبہارےوںاور مغربی پاکستانےوںکی لاشےں اسی علاقے مےںجےل کے اردگرد بکھری پڑی ملےں۔ تےن ہزار عورتوں اور بچوں کی لاشےںاٹھا کر گاو¿ںکے علاقے سے۔ دو ہزارا تردی گاو¿ں۔ پانچ سو بھراب بازاراوردوسوترپن کلورگھاٹ کی مل سے ملےں۔اسی طرح نو ہزارچٹاگانگ سے اور تقرےباًاتنی ہی لاشےںکھلناسے ملےں۔
اےک مقام پر بہت سی نوجوان بہاری لڑکےوں اور بچےوں کی برہنہ لاشےں ملےں جنہےں بےدردی سے رےپ کرکے مارا گےا تھا اورانکے زخموں مےںبنگلہ دےش کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ان تمام مظالم کے باوجودمغربی پاکستان مےں اس وقت جو بنگالی تھے وہ ےہاں پورے عزت و احترام کےساتھ آخر تک اپنے گھروں مےں پوری مراعات کے ساتھ رہتے رہے۔یاد رہے کہ یہاں اس وقت پندرہ سے بیس ہزار بنگالی موجود تھے۔ بہت سے لوگ اپنی فیمیلیز کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اےک بھی بنگالی پر ےہاں حملہ نہےں ہوا۔ہم پھر بھی انہےں بھائی سمجھتے رہے۔جنگ کے بعد انہےں پوری مراعات کےساتھ مختلف کےمپوں مےں رکھا گےا اور عزت و احترام سے واپس بھےجا گےا۔ جن بنگالیوں کی یہاں جائیدادیں تھیں انہوں نے آرام سے یہ جائیدادیں بیچیںاور کسی نے اعتراض نہ کیا۔ذلیل و خوار ہم ہوئے، ظلم و بربریت کا نشانہ بھی ہم بنے، انسانیت سوز سلوک بھی ہماری خواتین کے ساتھ ہوا، عصمتیں بھی ہماری خواتین کی لٹیں۔ بندوقوں کی سنگینوں سے قتل بھی ہمارے بچے اور ہماری خواتین ہوئیں اور پھر مجرم بھی ہم ٹھہرے۔ ہمیں انصاف کون دے گا؟
معزز قارئین یہ ہے بنگالی بھائیوں کی دوستی کی ایک جھلک ہم نے حال ہی میں ڈھاکہ میں ہونے والے کرکٹ مقابلوں میں بھی دیکھی۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم صاحبہ اس وقت تک سٹیڈیم میں مہمانوں کی گیلری میں موجود رہیں جب تک بنگلہ دیش کی کامیابی کے چانسز تھے۔ جونہی پاکستانی ٹیم کا پلہ بھاری نظر آیا تو وہ برداشت نہ کر سکیں اور اٹھ کر چلی گئیں۔بعد میں بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم نے پاکستان آکر کھیلنے سے بھی انکار کردیا۔ حالانکہ انٹر نیشنل کرکٹ میں بنگلہ دیشی ٹیم کو لانے والی پاکستانی ٹیم ہی تھی۔ بین الاقوامی معاملات میں بھی بنگلہ دیش نے ہمیشہ پاکستان کےخلاف بھارت کا ساتھ دیا ہے۔
بعض اوقات تاریخ کے فیصلے بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ ہمارے آباﺅ اجداد نے لاکھوں جانوں کی قربانی کے بعد بھارتیوں کے مقابلے میں آزادی حاصل کی لیکن تاریخ کا ظلم دیکھیں کہ 1971کی جنگ کی وجہ سے بنگلہ دیش بھارت کی ایک طفیلی ریاست میں بدل چکا ہے اور پاکستان کو ہمارے پیارے راہنماﺅں نے پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو پیش کر دیا ۔ باقی کیا بچا؟ ان لاکھوں لوگوں کی شہادتیں جو پاکستان پر قربان ہوئے۔