عامرہ احسان (سابق ایم این اے)
9/11 کے بعد کی دنیا، بش کے پھیلائی صلیبی دجالی معرکوں کی دنیا میں اصطلاحات اور الفاظ کا انتخاب بے انتہا اہمیت کا حامل ہے۔ مسلسل سات ماہ غیر مشروط معافی unconditional apology پر مصر پارلیمنٹ کی قرار داد اور پاکستانی عوام کے مطالبے حکمرانوں کی بڑھکوں کے پہاڑ تلے سے ایک مریل سا بھیگا ہوا ’سوری‘ sorry کا چوہا برآمد ہوا۔ بھاری بھر کم سامان سے لدے، مسلمانوں کے خون کے پیاسے نیٹو سپاہیوں کو قوت بخشنے کنٹینر رواں دواں ہو گئے! یہ ’سوری‘ تو مغربی تہذیب میں بدتمیزیوں پر پھیرے جانےوالا وہ پوچا ہے جو مہذب پاکستانی گھرانوں میں والدین اولاد سے بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مکالمہ ملاحظہ ہو: ’بیٹا سوری‘ کہہ دو۔ بداخلاقی کے مظاہرے کے بعد خالی خولی سوری؟.... ہر گز نہیں.... سر جھکا کر معافی مانگو۔ کہو مجھ سے غلطی ہوئی ہے معاف کر دیجئے....، شرفاءکے ہاں یہ لفظ سادہ بدتہذیبی پر بھی کفایت نہیں کرتا۔ کجا یہ کہ انسانی جانوں کے دیدہ دلیرانہ قصداً اتلاف پر ایک مضحکہ خیز، نیم دلانہ ایک حرفی ’سوری‘ جسے اماں ہلیری اور حنا نے مل کر دو طرفہ بنا کر ادا کیا۔
(برسر اقتدار ٹولے اصلاً امریکہ یورپ ہی کے شہری ہوتے ہیں کاغذی کارروائیوں سے قطع نظر، پاکستان میں صرف کرسی اور قومی خزانے کی خاطر رہنا گوارا کرتے ہیں حسن حقانی یاد نہیں کیا؟)یہ پوری قوم، نام نہاد جمہوریت، تمام سیاسی جماعتوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ اتنے شور شرابے کے بعد یہ منہ کالا کروانے والی ’سوری‘؟ یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا؟ اس پر طرہ یہ کہ نیٹو سپلائی بحالی کی خوشی میں تھینک یو پاکستان، کہنے کیلئے فوراً ہی ’تشکر‘ سے لبریز پے در پے ڈرون بھیج کر 24 سلالہ والوں کے بعد 24شہادتیں وزیری شہریوں کی تحفے میں پیش کر دیں۔ پاکستان نے امریکہ کو یوم آزادی کا تحفہ دینے کی خاطر اتنی جلدی مچائی کہ 4جولائی نکل نہ جائے فوری بحالی کر دو! امریکی روایت اس دن آتش بازی کی ہے سو وہ انہوں نے وزیرستان میں کر دی، اسی پر بس نہیں امریکہ پہلے اپنی بات منواتا ‘پھر ڈٹ کر ہر فورم پر پاکستان کا مذاق بھی اڑاتا ہے۔ ’پاگل ای اوے، کہہ کہہ کر‘۔ محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کا استہزائی قہقہہ دیکھ لیجئے۔
یہ ’سوری‘ زخم پر نمک چھڑک کر اوپر ’بینڈ ایڈ‘ لگا دینے کے مترادف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تڑپے گا صرف وہ جس میں زندگی اور غیرت کی حرارت ہے کیا غضب ہے کہ تحریک انصاف کی نمائندگی کرتے ہوئے آصف احمد علی نے یہ واضح کرنا ضروری جانا کہ ہمارا مسئلہ نظریاتی نہیں ہے! مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا شکار جاری رکھنے کیلئے تقریباً مفت سپلائی جاری کرنا اس مخصوص طبقے کیلئے نظریاتی مسئلہ نہیں ہے! قوم مسلم پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والے یہ کون لوگ ہیں؟ حکومت اور اپوزیشن میں موجود یہ وہ طبقہ ہے جس نے قرآن صرف اپنے حقیر دنیاوی سیاسی مقاصد پر اٹھانے کےلئے اٹھا رکھا ہے۔ زرداری، ذوالفقار مرزا سے ریاض ملک تک۔ قرآن، آداب حکمرانی، قوانین صلح و جنگ، دوست دشمن بارے مالک الملک، اللہ رب العالمین کے کیا احکام صادر کرتا ہے۔ اس سے یہ کلیتاً نابلد، کورے، چٹے ان پڑھ ہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے پیٹ کی نگاہ سے دنیا کو دیکھنے والوں نے پاکستان تباہ کر دیا۔ ایک طرف جوع البقر اور تونس (وہ پیاس جو کسی طرح نہ بجھے) گلے بیچارے بھوکے پیاسے صاحبان اقتدار اور کرسی طلب یہ حضرات ہیں جن کی غربت نہ ختم ہونے والی ہے (اور اسی خاطر سپلائی بحالی ہے جو اصلاً ڈالر سپلائی ہے)۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کےمطابق پاکستان میں غرباءکی تعداد بڑھ کر دس کروڑ ہو گئی ہے ایک طرف ایک کمرے میں چھ تا آٹھ افراد گرمی، مچھر، چوہوں اور حشرات الارض کے بیچ زندگی کے دن پانی میں نمک مرچ گھول کر روٹی کھانے والے ہیں جن کی زندگی کیڑے مکوڑوں سے بدتر ہے۔
دوسری طرف انکے نام پر حکمرانی کرنے والوں لاکھوں کے جوڑے زیب تن کرکے ان مکوڑوں کی عزت نفس، جان، مال کا سودا کفر کے ہاتھوں چکا کر ڈالر بٹورنے والے ہیں جہاں قصر صدارت میں مقیم تنہا ایک شخص ایکڑوں میں گزر بسر کرنےوالے اسی جیسے بے شمار اور بھی ہیں ہم وارث تو انکے ہیں کہ جو گورنر بنے تو سلمان فارسیؓ اور سعید بن عامرؓ جیسے تھے۔ سیدنا عمرؓ کے پاس مفلس و نادار افراد کی فہرست آئی تو پہلا نام گورنر سعید بن عامرؓ کا تھا! یہ مفلسی خود اختیاری تھی تقوے اور خشیت الٰہی کے سبب جو تھیلی اشرفیوں کی بھیجی وہ فوراً عوام پر لٹا دی، تقسیم کر دی اور خود خالی ہاتھ۔ ہم پھنسے ہیں سوٹڈ بوٹڈ، فرفر انگریزی بولنے جمہوری حکمرانوں اور کرسی طلبوں کے بیچ جو اللہ کی نسبت امریکہ سے ڈرنا عقل کا زیادہ بڑا تقاضا سمجھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بیچارے عوام کے نمائندے وہ ہیں کہ جب عوام کے غرباءکیلئے زلزلوں، سیلابوں میں ڈالر، خیمے، کمبل، خشک دودھ آتا ہے تو وہ بھی انہی مساکین (نمائندوں، جرنیلوں) میں بٹ جاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹیں پرانی دیکھ لیجئے! خلافت کے نمائندے وہ تھے جو سب کچھ عوام پر لٹا دیتے تھے، جمہوری بادشاہ وہ ہیں کہ 18کروڑ مل کر یہ سول فوجی حکمران پال رہے ہیں اور خود دس کروڑ خط غربت سے نیچے جا بیٹھے ہیں! جان لیجئے ہمیں ریموٹ کنٹرول غلامی کے اس دور سے نکلنے کیلئے بھاری قربانیاں دینی ہونگی۔
ہر مسلم ملک میں کفر کے گماشتے انکے مفادات کے تحفظ اور اپنی جیب کے تحفظ کی بنیاد پر حکمران ہیں۔ حسنی مبارک جسے ٹاﺅٹ امریکہ اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کی خاطر برسہا برس مسلمانوں پر خون آشام بلا بن کر مسلط رہے۔ وہ ہٹا تو تحریر سکوائر کی تحریک کا برادہ بنانے کیلئے امریکہ نے البرادی کو میدان میں اتار دیا۔
مصر میں براہ راست امریکہ اسرائیل کے محافظوں کے خلاف مصری عوام نے جنگ لڑی ہے ہمارے ہاں امریکہ بھارت کے مفادات کے محافظ براجمان ہیں۔ ہمیں مکمل تبدیلی کیلئے کمربستہ ہونا ہے یہ بھی جان لیجئے کہ جمہوریت مسلمان کے حصے یا وہ آتی ہے جسے فوجی بوٹوں تلے سسک سسک کر جینا پڑے یا ترکی کی طرح کہ عوام کو کھانے کو روٹی تو مل جائے جینے کو ایک آزاد، حکمران اسلام ہر گز میسر نہ آئے۔ شراب خانوں، نائٹ کلبوں اور ساحل سمندر کی برہنہ تہذیب کو کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ مسجد کے زیر سایہ خرابات جوں کی توں جاری رہےں یا پھر وہ پاکستانی ماڈل جو چار سالوں میں پارلیمنٹ کی ایک قرار داد پر عمل نہ کروا سکے۔ اصحاب پارلیمنٹ اپنی مراعات لئے چپکے بیٹھے، جمہوری حسن والی جو تم پیزار اور اپنی باری کے انتظار میں لائن میں لگے رہیں حکمران، لوہا، پانی، بجلی، جو کچھ لوٹ سکیں لوٹ لیں۔ عوام کی مصروفیت کو ٹارگٹ کلنگ‘ بھوک ننگ، لاپتہ، ڈرون کافی ہیں۔ ہر جمہوری سحر کے بعد یہ کہتے حلق میں کانٹے پڑ گئے۔ ’یہ وہ سحر تو نہیں!‘ وہ سحر جمہوری نہیں خلافت کی سحر ہو گی جس کیلئے جبہ وستار کی صرف علامت نہیں بلکہ سیرت و کردار کی ضوفشانی ہو گی اور تاریکیاں چھٹیں گی۔ادھر ہم افغان مسلمانوں کیلئے خون ریزی بھرے تحائف کی سپلائی جاری کر رہے ہیں۔ دوسری طرف برما میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ بڑے پیمانے پر قتل عام کا خطرہ ہے۔ اب تک بھی بے شمار بستیاں اجاڑی جا چکیں شام الگ خونچکاں ہے۔ اقوام متحدہ، جنیوا، کنونشنز انسانی حقوق، یہ جتنے سوانگ بھرے گئے اس دور نے سب کی قلعی کھول دی ہے۔ کانے دجال کے یک چشمی انصاف فراہم کرنےوالے، جن کی مسلمان کو دیکھنے والی آنکھ پھوٹ چکی ہے المیہ یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا بھی اندھی گونگی بہری ہو گئی ہے۔ اپنی ذات اپنے مفادات سے آگے نگاہ کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہے۔
اللہ کی بے آواز لاٹھی کی چال ہمیشہ لطیف ہوتی ہے خاموشی سے برس پڑتی ہے مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی کے آنسوﺅں کا سیلاب، بددعاﺅں کے جھکڑ اور آہوں کے طوفان اب زیادہ تسلسل سے امریکی ساحلوں، بستیوں آبادیوں پر برس رہے ہیں۔ واشنگٹن سمیت سات ریاستوں میں 35لاکھ افراد بجلی سے محروم کئی دن تک بیٹھے رہ گئے۔ عراق پاکستان، افغانستان کی بجلیاں گم کرنے اور بجلیاں گرانے والے خود کب تک محفوظ بیٹھیں گے! اس مرتبہ یوم آزادی پر ان کے ہاں روایتی آتش بازی بھی بہت کم ہو پائی کیونکہ غیر معمولی خشک سالی اور بے شمار جنگلات میں بھڑکتی آگ کے پیش نظر یہ ممکن نہ ہو سکا! دنیا بھر میں آپ کا ’فائر ورکس‘ آپ کے بھس میں بھی چنگاری تو بھرے گا بالآخر! دیر تو ہے اندھیر نہیں!
9/11 کے بعد کی دنیا، بش کے پھیلائی صلیبی دجالی معرکوں کی دنیا میں اصطلاحات اور الفاظ کا انتخاب بے انتہا اہمیت کا حامل ہے۔ مسلسل سات ماہ غیر مشروط معافی unconditional apology پر مصر پارلیمنٹ کی قرار داد اور پاکستانی عوام کے مطالبے حکمرانوں کی بڑھکوں کے پہاڑ تلے سے ایک مریل سا بھیگا ہوا ’سوری‘ sorry کا چوہا برآمد ہوا۔ بھاری بھر کم سامان سے لدے، مسلمانوں کے خون کے پیاسے نیٹو سپاہیوں کو قوت بخشنے کنٹینر رواں دواں ہو گئے! یہ ’سوری‘ تو مغربی تہذیب میں بدتمیزیوں پر پھیرے جانےوالا وہ پوچا ہے جو مہذب پاکستانی گھرانوں میں والدین اولاد سے بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مکالمہ ملاحظہ ہو: ’بیٹا سوری‘ کہہ دو۔ بداخلاقی کے مظاہرے کے بعد خالی خولی سوری؟.... ہر گز نہیں.... سر جھکا کر معافی مانگو۔ کہو مجھ سے غلطی ہوئی ہے معاف کر دیجئے....، شرفاءکے ہاں یہ لفظ سادہ بدتہذیبی پر بھی کفایت نہیں کرتا۔ کجا یہ کہ انسانی جانوں کے دیدہ دلیرانہ قصداً اتلاف پر ایک مضحکہ خیز، نیم دلانہ ایک حرفی ’سوری‘ جسے اماں ہلیری اور حنا نے مل کر دو طرفہ بنا کر ادا کیا۔
(برسر اقتدار ٹولے اصلاً امریکہ یورپ ہی کے شہری ہوتے ہیں کاغذی کارروائیوں سے قطع نظر، پاکستان میں صرف کرسی اور قومی خزانے کی خاطر رہنا گوارا کرتے ہیں حسن حقانی یاد نہیں کیا؟)یہ پوری قوم، نام نہاد جمہوریت، تمام سیاسی جماعتوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ اتنے شور شرابے کے بعد یہ منہ کالا کروانے والی ’سوری‘؟ یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا؟ اس پر طرہ یہ کہ نیٹو سپلائی بحالی کی خوشی میں تھینک یو پاکستان، کہنے کیلئے فوراً ہی ’تشکر‘ سے لبریز پے در پے ڈرون بھیج کر 24 سلالہ والوں کے بعد 24شہادتیں وزیری شہریوں کی تحفے میں پیش کر دیں۔ پاکستان نے امریکہ کو یوم آزادی کا تحفہ دینے کی خاطر اتنی جلدی مچائی کہ 4جولائی نکل نہ جائے فوری بحالی کر دو! امریکی روایت اس دن آتش بازی کی ہے سو وہ انہوں نے وزیرستان میں کر دی، اسی پر بس نہیں امریکہ پہلے اپنی بات منواتا ‘پھر ڈٹ کر ہر فورم پر پاکستان کا مذاق بھی اڑاتا ہے۔ ’پاگل ای اوے، کہہ کہہ کر‘۔ محکمہ خارجہ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کا استہزائی قہقہہ دیکھ لیجئے۔
یہ ’سوری‘ زخم پر نمک چھڑک کر اوپر ’بینڈ ایڈ‘ لگا دینے کے مترادف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تڑپے گا صرف وہ جس میں زندگی اور غیرت کی حرارت ہے کیا غضب ہے کہ تحریک انصاف کی نمائندگی کرتے ہوئے آصف احمد علی نے یہ واضح کرنا ضروری جانا کہ ہمارا مسئلہ نظریاتی نہیں ہے! مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا شکار جاری رکھنے کیلئے تقریباً مفت سپلائی جاری کرنا اس مخصوص طبقے کیلئے نظریاتی مسئلہ نہیں ہے! قوم مسلم پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والے یہ کون لوگ ہیں؟ حکومت اور اپوزیشن میں موجود یہ وہ طبقہ ہے جس نے قرآن صرف اپنے حقیر دنیاوی سیاسی مقاصد پر اٹھانے کےلئے اٹھا رکھا ہے۔ زرداری، ذوالفقار مرزا سے ریاض ملک تک۔ قرآن، آداب حکمرانی، قوانین صلح و جنگ، دوست دشمن بارے مالک الملک، اللہ رب العالمین کے کیا احکام صادر کرتا ہے۔ اس سے یہ کلیتاً نابلد، کورے، چٹے ان پڑھ ہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے پیٹ کی نگاہ سے دنیا کو دیکھنے والوں نے پاکستان تباہ کر دیا۔ ایک طرف جوع البقر اور تونس (وہ پیاس جو کسی طرح نہ بجھے) گلے بیچارے بھوکے پیاسے صاحبان اقتدار اور کرسی طلب یہ حضرات ہیں جن کی غربت نہ ختم ہونے والی ہے (اور اسی خاطر سپلائی بحالی ہے جو اصلاً ڈالر سپلائی ہے)۔دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کےمطابق پاکستان میں غرباءکی تعداد بڑھ کر دس کروڑ ہو گئی ہے ایک طرف ایک کمرے میں چھ تا آٹھ افراد گرمی، مچھر، چوہوں اور حشرات الارض کے بیچ زندگی کے دن پانی میں نمک مرچ گھول کر روٹی کھانے والے ہیں جن کی زندگی کیڑے مکوڑوں سے بدتر ہے۔
دوسری طرف انکے نام پر حکمرانی کرنے والوں لاکھوں کے جوڑے زیب تن کرکے ان مکوڑوں کی عزت نفس، جان، مال کا سودا کفر کے ہاتھوں چکا کر ڈالر بٹورنے والے ہیں جہاں قصر صدارت میں مقیم تنہا ایک شخص ایکڑوں میں گزر بسر کرنےوالے اسی جیسے بے شمار اور بھی ہیں ہم وارث تو انکے ہیں کہ جو گورنر بنے تو سلمان فارسیؓ اور سعید بن عامرؓ جیسے تھے۔ سیدنا عمرؓ کے پاس مفلس و نادار افراد کی فہرست آئی تو پہلا نام گورنر سعید بن عامرؓ کا تھا! یہ مفلسی خود اختیاری تھی تقوے اور خشیت الٰہی کے سبب جو تھیلی اشرفیوں کی بھیجی وہ فوراً عوام پر لٹا دی، تقسیم کر دی اور خود خالی ہاتھ۔ ہم پھنسے ہیں سوٹڈ بوٹڈ، فرفر انگریزی بولنے جمہوری حکمرانوں اور کرسی طلبوں کے بیچ جو اللہ کی نسبت امریکہ سے ڈرنا عقل کا زیادہ بڑا تقاضا سمجھتے ہیں۔ لہٰذا یہ بیچارے عوام کے نمائندے وہ ہیں کہ جب عوام کے غرباءکیلئے زلزلوں، سیلابوں میں ڈالر، خیمے، کمبل، خشک دودھ آتا ہے تو وہ بھی انہی مساکین (نمائندوں، جرنیلوں) میں بٹ جاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹیں پرانی دیکھ لیجئے! خلافت کے نمائندے وہ تھے جو سب کچھ عوام پر لٹا دیتے تھے، جمہوری بادشاہ وہ ہیں کہ 18کروڑ مل کر یہ سول فوجی حکمران پال رہے ہیں اور خود دس کروڑ خط غربت سے نیچے جا بیٹھے ہیں! جان لیجئے ہمیں ریموٹ کنٹرول غلامی کے اس دور سے نکلنے کیلئے بھاری قربانیاں دینی ہونگی۔
ہر مسلم ملک میں کفر کے گماشتے انکے مفادات کے تحفظ اور اپنی جیب کے تحفظ کی بنیاد پر حکمران ہیں۔ حسنی مبارک جسے ٹاﺅٹ امریکہ اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کی خاطر برسہا برس مسلمانوں پر خون آشام بلا بن کر مسلط رہے۔ وہ ہٹا تو تحریر سکوائر کی تحریک کا برادہ بنانے کیلئے امریکہ نے البرادی کو میدان میں اتار دیا۔
مصر میں براہ راست امریکہ اسرائیل کے محافظوں کے خلاف مصری عوام نے جنگ لڑی ہے ہمارے ہاں امریکہ بھارت کے مفادات کے محافظ براجمان ہیں۔ ہمیں مکمل تبدیلی کیلئے کمربستہ ہونا ہے یہ بھی جان لیجئے کہ جمہوریت مسلمان کے حصے یا وہ آتی ہے جسے فوجی بوٹوں تلے سسک سسک کر جینا پڑے یا ترکی کی طرح کہ عوام کو کھانے کو روٹی تو مل جائے جینے کو ایک آزاد، حکمران اسلام ہر گز میسر نہ آئے۔ شراب خانوں، نائٹ کلبوں اور ساحل سمندر کی برہنہ تہذیب کو کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔ مسجد کے زیر سایہ خرابات جوں کی توں جاری رہےں یا پھر وہ پاکستانی ماڈل جو چار سالوں میں پارلیمنٹ کی ایک قرار داد پر عمل نہ کروا سکے۔ اصحاب پارلیمنٹ اپنی مراعات لئے چپکے بیٹھے، جمہوری حسن والی جو تم پیزار اور اپنی باری کے انتظار میں لائن میں لگے رہیں حکمران، لوہا، پانی، بجلی، جو کچھ لوٹ سکیں لوٹ لیں۔ عوام کی مصروفیت کو ٹارگٹ کلنگ‘ بھوک ننگ، لاپتہ، ڈرون کافی ہیں۔ ہر جمہوری سحر کے بعد یہ کہتے حلق میں کانٹے پڑ گئے۔ ’یہ وہ سحر تو نہیں!‘ وہ سحر جمہوری نہیں خلافت کی سحر ہو گی جس کیلئے جبہ وستار کی صرف علامت نہیں بلکہ سیرت و کردار کی ضوفشانی ہو گی اور تاریکیاں چھٹیں گی۔ادھر ہم افغان مسلمانوں کیلئے خون ریزی بھرے تحائف کی سپلائی جاری کر رہے ہیں۔ دوسری طرف برما میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ بڑے پیمانے پر قتل عام کا خطرہ ہے۔ اب تک بھی بے شمار بستیاں اجاڑی جا چکیں شام الگ خونچکاں ہے۔ اقوام متحدہ، جنیوا، کنونشنز انسانی حقوق، یہ جتنے سوانگ بھرے گئے اس دور نے سب کی قلعی کھول دی ہے۔ کانے دجال کے یک چشمی انصاف فراہم کرنےوالے، جن کی مسلمان کو دیکھنے والی آنکھ پھوٹ چکی ہے المیہ یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا بھی اندھی گونگی بہری ہو گئی ہے۔ اپنی ذات اپنے مفادات سے آگے نگاہ کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہے۔
اللہ کی بے آواز لاٹھی کی چال ہمیشہ لطیف ہوتی ہے خاموشی سے برس پڑتی ہے مسلمانوں کی مظلومیت اور بے بسی کے آنسوﺅں کا سیلاب، بددعاﺅں کے جھکڑ اور آہوں کے طوفان اب زیادہ تسلسل سے امریکی ساحلوں، بستیوں آبادیوں پر برس رہے ہیں۔ واشنگٹن سمیت سات ریاستوں میں 35لاکھ افراد بجلی سے محروم کئی دن تک بیٹھے رہ گئے۔ عراق پاکستان، افغانستان کی بجلیاں گم کرنے اور بجلیاں گرانے والے خود کب تک محفوظ بیٹھیں گے! اس مرتبہ یوم آزادی پر ان کے ہاں روایتی آتش بازی بھی بہت کم ہو پائی کیونکہ غیر معمولی خشک سالی اور بے شمار جنگلات میں بھڑکتی آگ کے پیش نظر یہ ممکن نہ ہو سکا! دنیا بھر میں آپ کا ’فائر ورکس‘ آپ کے بھس میں بھی چنگاری تو بھرے گا بالآخر! دیر تو ہے اندھیر نہیں!