بجلی کا بحران ذمہ دار ماضی کے حکمران!!!!

پاکستان میں بلیک آؤٹ ہوا ہے۔ دنیا میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اکثر اوقات ایسے واقعات کسی فنی خرابے یا حادثے کے باعث ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں ہونے والا بلیک آؤٹ ٹرانسمشن لائن کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ حکومت اس معاملے میں حقائق عوام کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہی ہے یوں ہر طرف سے انہیں برا بھلا کہا جا رہا ہے اور اس بلیک آؤٹ کا ذمہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ رات گیارہ بج کر اکتالیس منٹ پر گدو میں پیدا ہونیوالی خرابی کی وجہ سے ملک کی ہائی ٹرانسمیشن میں ٹرپنگ ہوئی اور ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں سسٹم کی فریکونسی پچاس سے صفر پر آنے کی وجہ سے بریک ڈاؤن ہو گیا۔ بریک ڈاؤن کے بعد منگلا، تربیلا اور جہلم پاور پلانٹس بند ہونے کی وجہ سے آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ حکومت اس حوالے سے ماضی کی حکومتوں کی ناکامیوں کا بوجھ بھی اٹھائے پھر رہی ہے حالانکہ اس ناکامی سے موجودہ حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ کیا دھرا ماضی کی حکومتوں کا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی بھی یہ تسلیم کر چکی ہے کہ اس نے اپنی ناکامیوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ناکامیوں کا بوجھ بھی اٹھانا ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ بہتر ہوتا کہ حکومت واپڈا کے موجودہ چیئرمین اور سابق سربراہوں کو وفاقی وزیر کے ساتھ بٹھاتی، بجلی کی پیداوار اور ٹرانسمشن کے نظام کی استعداد اور خرابیاں عوام کے سامنے رکھتی لیکن ایسا کرنے کے بجائے حکومت نے صرف یہ کہنے پر ہی اکتفا کیا کہ ماضی میں حکومتوں نے اس شعبے پر کام نہیں کیا۔
ٹرانسمشن کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے میاں نواز شریف کو چین نے ٹرانسمشن لائن کے حوالے سے حکومت سے کہا تھا کہ اگر یہی ٹرانسمشن لائن رہیں تو یہ بیس بائیس ہزار سے زائد میگا واٹ کا بوجھ نہیں اٹھا سکیں گی۔ چین نے اس وقت پاکستان کی ٹرانسمشن لائن کو تبدیل کرنے کے لیے سو بلین ڈالرز کا تخمینہ لگایا تھا لیکن حکومت نے اسے نظر انداز کر کے صرف پروڈکشن بڑھانے کی طرف توجہ دی اور ٹرانسمشن کے نظام کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ صرف پروڈکشن بڑھاتے رہنے سے قوم کو کیا فائدہ ہے جب بجلی ان تک پہنچ ہی نہ سکے، جب ٹرانسمشن لائنز بیس بائیس ہزار سے زائد میگا واٹ برداشت ہی نہیں کر سکتیں تو اس سے زائد بجلی سسٹم میں موجود بھی ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ سوال تو میاں نواز شریف اور ان کی جماعت سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے اس ملک کے ساتھ کیا ظلم کیا ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے کئی ایسے معاہدے بھی کیے ہیں جن کی وجہ سے آج بجلی مہنگی ہو رہی ہے، نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں کئی ایسے معاہدے کئے ہیں کہ اگر اگر بجلی پیدا ہو رہی ہے یا بجلی پیدا نہیں ہو رہی، پاور پلانٹس چل رہے ہیں یا نہیں چل رہے ہیں دونوں صورتوں میں حکومت ادائیگیوں کی پابند ہے۔ اس صورتحال میں یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کرنا کہ ہم نے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے یہ کس حد تک اس قوم کے ساتھ زیادتی ہے کہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا۔ آج یہی وجہ ہے کہ کہ واپڈا اور پاکستان ریلویز کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی وقت کا تقاضا ہے۔ اگر ہم ان دونوں اداروں کے بنیادی ڈھانچوں میں تبدیلی نہیں کرتے اور انہیں اپنی ضروریات اور جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر ایسے بلیک آؤٹ ہوتے رہیں گے ہم لڑکھڑاتے رہیں گے اور نقصان برداشت کرتے رہیں گے۔
اس تاریخی پس منظر کو دیکھتے ہوئے بجلی کے بحران میں عمران خان کو موردِ الزام الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ایسے مسائل حل کرنے کے لیے اضافی فنڈز کی فراہمی نہایت ضروری ہوتی ہے۔ ایسے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے قومیں متحد ہو کر کام کرتی ہیں۔ سیاسی قیادت ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کرتی ہے لیکن پاکستان کی سیاسی حکومتوں نے قومی مفادات کے بجائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کو ترجیح دی ہے۔ آج حکومت کے پاس ایک راستہ یہ بھی ہے کہ وہ چودہ پندرہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتی رہے تو یہی ٹرانسمیشن لائنز بہترین انداز میں کام کرتی رہیں گی اور کوئی دشواری بھی پیش نہیں آئے گی لیکن پھر پھر طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صنعتوں کا پہیہ رک جائے گا، معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوں گے عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے حکومت کے خلاف مظاہرے ہونگے اور یہ لگے گا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بجلی کے بحران سے نمٹنے میں ناکام رہی لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ ماضی کے حکمرانوں نے بنیادی مسائل حل کرنے کے بجائے وقت گزاری کے لیے ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے نا صرف ملک کو بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑا بلکہ قوم کو بھی اذیت سے سے گزرنا پڑا ہے۔ یقینا اس وقت ان ٹرانسمیشن لائنز کی تبدیلی پر اٹھنے والی لاگت سو بلین ڈالر سے بڑھ کر ڈیڑھ سو بلین ڈالر ہو چکی ہو گی لیکن قوم کو صرف یہی بتایا گیا ہے کہ میاں نواز شریف نے بجلی کی پیداوار کو بڑھا دیا ہے۔کوئی میاں نواز شریف سے پوچھے بڑھی ہوئی پیداوار عوام تک کیسے پہنچ سکتی ہے تو اس کا جواب نہ اس کا جواب میاں نواز شریف کے پاس ہو گا نہ ان کے معاشی جادوگروں کے پاس اس کا کوئی جواب ہو گا۔ اس سارے عمل میں نقصان عام آدمی کا ہوا ہے۔ اب یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہاں سے ان مسائل سے کیسے نمٹنا ہے سیاسی حکومت صحت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق سے سے عوام کو آگاہ کریں کریں۔ حقائق عوام کے سامنے رکھیں اور نظام میں موجود خامیوں یا نظام میں موجود خامیوں کو عوام کے سامنے رکھیں۔ ملکی معیشت کو مضبوط کیے بغیر یہ بڑے منصوبے مکمل نہیں ہو سکتے۔ ماضی کی حکومتوں نے مجرمانہ غفلت کی ہے۔ حکومت کو اب بھی یہی مشورہ ہے ہے کہ وہ قوم کو حقائق سے آگاہ کرے کہ ہم اس قابل ہی نہیں ہے کہ پینتیس چالیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کریں اور پھر انہی ٹرانسمیشن لائنز کے ذریعے تقسیم کریں۔ یہ قومی مسئلہ ہے پی ٹی آئی کو کیا فرق پڑتا ہے انہیں تو لعن طعن کی عادت ہو چکی ہے۔ وہ اپنی مدت پوری کریں گے اور چلے جائیں گے۔ انہیں پہلے سے اندازہ تھا کہ یہ مسائل پیش آئیں گے اور وہ کچھ نہیں کر سکیں گے کیونکہ جانے والے اتنا نقصان پہنچا کر گئے ہیں کہ وہ یہ ملبہ اٹھاتے رہیں گے اور عوامی غیض و غضب کا نشانہ بھی بنتے رہیں گے۔مسلم لیگ نون کے رہنما خرم دستگیر کہتے ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفے دینا ہدف نہیں ہے بلکہ اصل ہدف شفاف انتخابات ہیں۔ اب خرم دستگیر اور ان کے ساتھیوں کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ استعفوں کا اعلان کر کے جو غلطی ہوئی ہے اس پر "وی ٹرن" کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اب وہ یو ٹرن نہیں بلکہ شارپ ٹرن لیں گے یعنی اچانک موڑ کاٹیں گے لیکن عوام یاد دلاتے رہیں گے کہ استعفوں کا وعدہ کیا تھا۔ رہی بات خرم دستگیر کی کی تو وہ یاد رکھیں کہ الیکشن 2023 میں ہوں گے اور خرم دستگیر یہ الیکشن ہار جائیں گے۔ انہیں ان دنوں اپنی بھی کوئی خبر نہیں ہے وہ نا صرف اپنی جماعت کے وی ٹرن کے چکر میں الجھے ہوئے ہیں بلکہ کہ وہ خود بھی کبھی لاہور سے بھاگتے ہیں تو کبھی گوجرانوالہ سے بھاگتے ہیں ہیں۔ 2023 کے عام انتخابات میں انہیں بھاگنے نہ ان کی جماعت کو بھاگنے کا موقع ملے گا۔
پاکستان کی وزارت داخلہ کو ان دنوں منا بھائی انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ شیخ رشید کے بیانات اور کام کسی بھی طرح منا بھائی سے مختلف نہیں ہیں منا بھائی تو پھر بھی کسی کا فائدہ کر دیتے تھے لیکن پاکستانی منا بھائی سے کسی کو خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ شیخ رشید کو راولپنڈی کے دفاع کی فکر کھائے جا رہی حالانکہ راولپنڈی والوں کو اپنے پاکستانیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کیوں کہ پاکستان کے عوام اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں پاکستان کے عوام اپنی فوج پر جان قربان کرتے ہیں پاکستان کے عوام یہ جانتے ہیں کہ فوج اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے قوم کے دفاع کو یقینی بناتی ہے۔ اس لیے راولپنڈی والے ملک و قوم کے دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر بیٹھے دشمنوں کا مقابلہ بھی کرنے کی پوری اہلیت اور طاقت رکھتے ہیں۔ اس لئے شیخ رشید کو چاہیے کہ وہ وزارت داخلہ کو چلانے کی کوشش کریں ویسے یہ حقیقت ہے کہ وہ جتنی مرضی کوشش کر لیں انہیں کامیابی نہیں مل سکتی کیونکہ انہوں نے ساری زندگی بیانات جاری کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ انہیں بیانات جاری کرنے کے علاوہ کوئی کام آتا بھی نہیں ہے۔ اس لیے منا بھائی لگے رہے ہیں وزارت داخلہ تو مزاح سے بھرپور ہے اور میں اس سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔
لاہور کچرے کے ڈھیر میں بدلتا جارہا ہے اس کو کچھ بھی کہا جائے لیکن یہ انتظامی ناکامی ہے اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو ذاتی حیثیت میں اس معاملے کو دیکھ کر ذمہ داروں کو نشان عبرت بنانا چاہیے۔ کیونکہ وزیر اعلی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ ان کے ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے یہ سارا کام ہو رہا ہے۔ لاہور میونسپل کمیٹی کس مرض کی دوا ہے۔ اگر لاہور ویسٹ مینجمنٹ والے کام نہیں کر رہے رہے تو میونسپل کمیٹی والے تنخواہ حلال کیوں نہیں کرتے۔ لاہور کو صاف رکھنا چاہیے یہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔