علی محمد خان قومی اسمبلی میں بولے ہیں کہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایسا وزیراعظم آیا ہے جو ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے۔ جو باتیں مساجد کے منبروں پر ہوتی تھیں اب وہ ایوان میں ہوتی ہیں۔ نوائے وقت کی خبر کے مطابق انہوں نے ایوان میں یہ باتیں سودی نظام کے خاتمے کے حوالے سے کی ہیں۔ علی محمد خان اچھے مقرر ہیں، قرآن و حدیث کے حوالے بھی خوب دیتے ہیں۔ یقیناً اس حوالے سے وہ ہم سے بہت بہتر جانتے بھی ہوں گے۔ بقول حبیب جالب دس کروڑ یہ گدھے جن کا نام ہے عوام سے تو ان کی سوچ، فکر، علم اور تحقیق بہت زیادہ ہو گی۔ پھر وہ کیسے ایوان میں ریاست مدینہ کی بات کرتے ہوئے سودی نظام کے خاتمے کے حوالے سے کیے گئے سوالات کو سیاسی قرار دے سکتے ہیں یا کوئی بھی عذر پیش کر سکتے ہیں۔ کیا سود کے بارے انہوں نے قرآن کریم میں اللہ کا حکم نہیں پڑھا اگر وہ یہ جانتے ہیں تو پھر معزز رکن کوئی بھی سوال اٹھائے اس سوال کو کیسے سیاسی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جہاں حکم موجود ہے وہاں کوئی عذر قابل قبول کیسے ہو سکتا ہے۔ سیاسی دفاع ضرور کریں لیکن ایسے معاملات جہاں قرآن کا حکم موجود ہے اس پر دفاع کرنا اور ساتھ ریاست مدینہ کے فلسفے کا پرچار کرنا بات کچھ جچتی نہیں ہے۔ جہاں تک ان کی اس بات کا تعلق ہے کہ جو باتیں مساجد میں منبروں پر ہوتی تھیں وہ اب ایوان میں ہو رہی ہیں تو ایسی باتوں کے لیے حبیب جالب فرما گئے ہیں
سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں
ایسی تقریروں کا کیا فائدہ ہے جہاں عوام کے غم کا علاج ہی نہ کیا جائے۔ جہاں سود کے خاتمے کی بات ہو وہاں مسائل کا رونا رونا شروع کر دیں۔ ان حالات میں جب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ بابائے قوم نے سٹیٹ بینک کو سود کے خاتمے کا کہا تھا لیکن ہم عمل نہیں کر سکے۔ ریاست مدینہ کے فلسفے کا پرچار کرنے والے عوام کو یہ تو بتائیں کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں اب تک اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھائے ہیں یا صرف تقاریر ہی جھاڑی ہیں۔ جب آپ ریاست مدینہ کے فلسفے کی بات کرتے ہیں تو معیار اتنے بلند ہو جاتے ہیں کہ انسان کو بہت بڑی بڑی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ صرف تقاریر میں ریاست مدینہ ریاست مدینہ کرتے رہنا مسائل کا حل نہیں ہے۔ علی محمد خان جب مدینہ منورہ جائیں گے روضہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر کھڑے ہوں گے وہاں یہی الفاظ ان کے ذہن میں گھوم گئے تو کیا جواب دیں گے کہ چونکہ میں حکومتی بنچوں پر تھا میرے مسائل تھے سودی نظام کے خاتمے کا سوال سیاسی تھا سو جواب بھی
سیاسی دینا پڑا۔ مذہب کے ساتھ، قوم کے ساتھ اس ملک کی تاریخ کے ساتھ، نوجوانوں کے ساتھ اور ریاست مدینہ کے فلسفے سے محبت کرنے والوں کے ساتھ یہ ظلم تو نہ کریں کہ سودی نظام کے سوال کے جواب میں کوئی دلیل دینے کے بجائے اسے سیاسی قرار دیا جائے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ اس نظام کے خاتمے کے لیے اب تک حکومت کی طرف سے اقدامات ایوان کے سامنے پیش کیے جاتے اور کچھ نہیں تو مجموعی طور پر ایک فیصد خاتمے کے اعدادوشمار اور مستقبل کا لائحہ عمل ہی پیش کر دیتے تاکہ جب روضہ رسول پر کھڑے ہوں، بیت اللہ میں موجود ہوں اور ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوں تو یہ کہہ سکیں کہ یااللہ ہم نے اپنے ملک سے سودی نظام کے خاتمے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ صرف علی محمد ہی نہیں کیا اس پورے ایوان میں سے کوئی ایک بھی وہاں جا کر اس حوالے سے صرف ایک فیصد اقدامات پیش کر کے اپنا مقدمہ پیش کر سکتا ہے۔ یہاں سرا ٹھا کر تقاریر کرنے والے وہاں سر جھکائے کھڑے ہوں گے۔ یہاں ہزاروں دلیلیں دینے والوں کی وہاں زبانیں گنگ ہو جائیں گی اور جو اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر لوگوں کو اپنے پیچھے لگائے پھر وعدہ نہ نبھائے تو اسے بھی اپنے انجام کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جہاں تک منبروں پر باتوں کا تعلق ہے تو انہوں نے بھی قوم کو مسالک میں تقسیم کیا ہے۔ آج مسلکی اختلافات اس حد تک ہیں کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، سلام کا جواب نہیں دیتے۔ اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا۔ جو کام منبروں پر بیٹھ کر ہوا وہ ایوانوں میں بھی ہو رہا ہے۔ جو جو شخص اللہ کے احکامات سے روگردانی کرتا ہے وہ یہ جان لے وہ یہ یاد رکھے کہ وہاں کوئی دلیل نہیں چلے گی وہاں تو ذرہ ذرہ کھول کر اللہ سامنے رکھ دیں گے اور وہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے جو بھی کریں یہ یاد رکھیں کہ بالخصوص حکمران کی صرف نیت کافی نہیں ہے انہیں اللہ نے طاقت عطاء کی ہے طاقت اس لیے نہیں ہے کہ اسکو صرف دور اقتدار کو طوالت دینے کے لیے استعمال کیا جائے جب طاقت ہے تو پھر اس طاقت کا استعمال سودی نظام کے خاتمے کے لئے ہوا ہے یا نہیں یہ بات اہم ہے۔
مان لیا کہ آپ فوراً ختم نہیں کر سکتے لیکن اس کے خاتمے کے لیے اب تک آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں وہ تو بتا سکتے ہیں۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے اسمبلی کے تمام اراکین کے لیے مشورہ ہے کہ وہ روزانہ قرآن و حدیث کا مطالعہ فرمائیں اور اس پیغام کی روح کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ جو طاقت ان کے پاس ہے اس کا بہتر استعمال کر سکیں۔
ایسے ایوان میں ریاست مدینہ کے فلسفے کی بات ہوتی ہے وہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہوں تو حکمرانوں کو حضرت عمر فاروق کے دور حکومت کو بھی یاد کر لینا چاہیے۔ ایک طرف ریاست مدینہ کی بات کی جا رہی ہو اور دوسری طرف عزتیں لٹ رہی ہوں، ڈکیتیاں ہو رہی ہوں، قتل ہو رہے ہوں، ناانصافی عروج پر ہو، عام آدمی کے لیے زندگی مشکل تر ہوتی جائے تو حکمرانوں کو شیشے کے سامنے کھڑے
ہو کر جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی ایوان میں جہاں ریاست مدینہ کی بات ہوتی ہے وہیں معزز اراکین کے سامنے قومی اسمبلی میں حکومث نے مہنگائی بڑھنے کا اعتراف کیا ہے۔ حکومت نے اس حوالے سے عذر بھی پیش کیے ہیں لیکن مہنگائی کم کرنے کے لیے اقدامات کی تفصیلات ایوان کے سامنے پیش نہیں کی گئیں۔ پارلیمانی نظام کی خاص بات عوام کی آواز ہے۔ پارلیمان میں منتخب نمائندے عوام کی آواز بنا کرتے ہیں، یہ عوام کی نشاندہی کرتے ہیں پھر مسائل حل کرنے کے لئے تجاویز پیش کرتے ہیں پھر ان مسائل کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کرتے ہیں اور پھر ان قوانین کے نفاذ کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ کیا دونوں طرف بیٹھے اس ایوان کے معزز اراکین یہ بتا سکتے ہیں کہ مہنگائی کم کرنے، اشیاء خوردونوش کی مناسب قیمتوں پر بلا تعطل فراہمی کے حوالے سے اب تک کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ دونوں طرف بیٹھے اراکین عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن ووٹ دینے والے مر رہے ہیں اور جنہوں نے ووٹ حاصل کیے ہیں وہ تقریر پر تقریر کیے چلے جا رہے ہیں۔ کیا اس ایوان کے تمام معزز اراکین کے لیے یہ لازم نہیں کہ اپنے اپنے حلقوں میں جائیں اور جن سے ووٹ لیے ہیں اپنی کارکردگی ان کے سامنے رکھیں۔ خدارا اس ملک پر رحم کریں، اس ملک کی سادہ اور معصوم عوام پر رحم کریں، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرنے والے پاکستانیوں پر رحم کریں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024