لگتا تو ایسا ہے کہ عوام کی دسترس میں قابلِ قبول معیاری تعلیم کے لئے تمام چیخ پُکار لا حاصل رہے گی۔ البتہ اندرونِ سندھ سے ایک خبر ہے جس کو پڑھ کر محکمہ ء تعلیم کے بزرجمہروں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے لیکن بھلا وہ ایسا کیوں کرنے لگے؟ شرم سے ڈوب مرنا بھی قسمت والوں ہی کو نصیب ہوتا ہے !! گورنمنٹ شاہ ولی اللہ اسکول میر پورخاص سے 1995 میں میٹرک کرنے والے کچھ ہم خیال نوجوان مل کر 25 سال بعد اپنی مادرِ علمی میں یادیں تازہ کرنے گئے۔ظاہر ہے دیگر ملکی اداروں کی طرح یہ سرکاری اسکول بھی لوٹ کھسوٹ کی بنا پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آیا۔اِن نوجوانوں کو اپنا اسکول اِس ’ حالت ‘ میں دیکھ کربے حد افسوس ہوا۔انہوں نے فوراََ اپنی مدد آپ کے سنہری اصول کے تحت اپنی اس عزیز درس گاہ ، گورنمنٹ شاہ ولی اللہ اسکول کی مرمت کا کام شروع کر دیا۔اسکول کے بیت الخلا تو ایک زمانے سے نا قابلِ استعمال تھے۔بے چارے’ عوام کے بچے ‘ اس تمام زمانوں میں کیسے گزارا کرتے تھے بھلا کراچی میں بیٹھے وزارتِ تعلیم کے اعلیٰ افسران کو اس سے کیا!! اِس اور اِس جیسے اندرونِ سندھ سرکار ی اسکولوں میں بیت الخلا کس حال میں ہیں؟ اللہ بہتر جانتا ہو گا۔آپ خود اندازہ لگائیے کہ ایک سال نہیں دو سال نہیں بلکہ سالوں سے خراب واش روم سالانہ اسکول معائنہ کے لئے محکمہ تعلیم کی بھیجی گئی کسی ایک بھی ٹیم کو نظر نہیں آئے !! کلاس روم کی ٹوٹ پھوٹ اور شکستہ حالی دیکھ کر اُن نوجوانوں کو تو افسوس ہوا ہی ہو گا۔کیوں کہ کبھی انہوں نے بھی یہاں ’ بیٹھ ‘ کر تعلیم حاصل کی تھی ۔اور اب … اب وہ اُجڑے دیار کی عملی تصویر ہو کر رہ گئی تھیں۔کلاسوں کے فر نیچر جو ایک زمانے سے مرمتوں کو ترس رہے تھے اب اُن کی تمنا بھی پوری ہوئی۔شاید بھینس کے سامنے مستقل بین بجا کر اُس کی تھوڑی بہت توجہ حاصل ہو سکتی ہے لیکن بقول شاعر: ’’ دریا اُلٹا چل سکتا ہے، جم سکتی ہے سورج کی کِرَن پانی میں دِیا جَل سکتا ہے ‘‘ لیکن مجال ہے کہ محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں پر اس نیک کام کا اک معمو لی سا بھی اثر ہوا ہو !! اِن نوجوانوں نے اپنی ’ مادر علمی ‘ کی خدمت میں کوئی کمی نہیں ہونے دی اور ریکارڈ کم مدت میں یہ کام مکمل کر کے صوبائی محکمہ تعلیم کے ذمہ داروںکو وہ کام کر دکھایا جس کی وہ پچھلے 25 سالوں سے مرمتوں کے نام پر نہ جانے کتنی رقم وصول بھی کر چکے ہوں گے۔ اگر ملک میں جمہور یت اور عوام کی سُنی جاتی ہے تویہ خاکسار اُ مید کرتا ہے کہ میر پور خاص میں جہاں یہ اسکول واقع ہے وہاں کے ممبر صوبائی اور قومی اسمبلی یہ معاملہ متعلقہ وزارت تک ضرور پہنچائیں گے۔یہ ایک اہم صوبائی اور قومی معاملہ ہے۔بھلا اس سے زیادہ اہم معاملہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ ضرورت پڑے تو سینیٹ میں اس معاملے پر قائمہ کمیٹی بننا چاہیئے۔اس معاملے کی خوب اچھی طرح سے چھان بیِن ہونا بہت ضروری ہے۔پھر 25 سال سے گورنمنٹ شاہ ولی اللہ اسکول میر پورخاص کی اصل سالانہ رپورٹوں کا ’ فرانزک ‘ معائنہ کروایا جائے۔ اسکول کی مرمتیں کیوں نہیں کی گئیں؟اگر کاغذوں میں ہو گئی ہیں تو کِن مجاز افسران کے دستخط سے کی گئیں؟ جو بھی ذمہ دار ہوں بلا تفریق انہیں قانون میں موجود سخت ترین سزا ملنا چاہیئے۔ یہ تو ایک اسکول کا معاملہ ہے… ابھی تو نہ جانے اورکتنے ایسے گورنمنٹ اسکول ہوں گے جو محکمہ تعلیم کی بے حسی اور لوٹ کھسوٹ کا شکار رہے ہوں گے۔اندرونِ سندھ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ جب کسی ایسے اسکول کے مدرس نے سرکار ی اسکولوں سے کی جانے والی زیادتی کی نشاندہی کی تو اُس غریب کو ’ اُس کی اوقات ‘ اچھی طرح سے یاد دلا د ی گئی اور لوٹ مار کرنے والے چین کی بانسری بجاتے رہے۔کراچی کے معروف روزناموں میں کبھی کبھار ایسی خبریں شائع ہوتی ہیں لیکن کبھی متعلقہ محکمہ اور وزارتِ تعلیم سے کسی قسم کا کوئی بھی تردیدی بیان نہیں آتا۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ محکمہ، وزارت اور تعلیم کے کرتے دھرتے اپنے آپ کو کسی کے آگے جواب دہ ہی نہیں سمجھتے۔یہ سب اسی لئے ہو اہے کہ اِن کو کبھی نکیل ہی نہیں ڈالی گئی۔ آج تک وہی ہوتا آیا ہے جو اِن شتر بے مہاروں نے چاہا۔ ٹی وی چینلوں پر ٹاک شو کرنے والوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اِس گورنمنٹ شاہ ولی اللہ اسکول میر پورخاص والی خبر کی موقع پر جا کر تحقیق کروائیں پھر اس پر دانشوروں سے مکالمہ کروائیں اور متعلقہ وزارت کے وزیر اور مشیر کو بلوا کر اُن کاموقف سنا جائے کہ وہ اپنی نا لائقی پر کس طرح سے پردہ ڈالتے ہیں؟ اہلِ کراچی اور اہلِ پاکستان کو اُن نوجوانوں پر فخر ہے جنہوں نے بے لوث ہو کر اپنے اسکول کے لئے وہ کام کر دیا جو محکمہ اور وزارتِ تعلیم 25 سالوں میں نہ کر سکا۔آخر میں عرض ہے کہ للہ زبانی جمع خرچ اب بہت ہو گیا ۔ اب تعلیم اور نظامِ تعلیم کو محض باتیں نہیں بلکہ عمل درکار ہے اور یہ ہی وقت کا تقاضہ بھی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024