امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کو بغداد میں نشانہ بنایا اور کچھ دیگر افراد کے ساتھ شہید کر دیا ۔ایران نے مناسب وقت اور مناسب Responseکا اعلان کیا ہے ۔الزام یہ لگایا کہ وہ بہت بڑا دہشت گرد تھا اور علاقائی امن کے لیے خطرہ بھی ۔امریکہ میں حزب اختلاف نے بلا اجازت کانگریس ٹرمپ کے اس اقدام کو بلا اجازت قرار دیا مگر غور کیا جائے تو امریکی حکومتیںڈیموکریٹس کی ہوں یا ری پبلکن کی سوچ میں فرق نہیں اور وہاں کا بنیاد پرست شدید اسلام فوبیا کا شکار ہے یہ بات 9/11پر کھل کر سامنے آگئی تھی اور اس کے بعد جس طرح عراق ،لیبیا ،افغانستان اور ایران کے خلاف جنگ کا طبل بجا سب کے سامنے ہے لاکھوں انسان ہلاک ہوئے اور بین الاقوامی امن کے ٹھیکیدار جن میں امریکہ اور نیٹوممالک شامل ہیں مسلم ممالک کے خلاف دندناتے رہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ایران کے خلاف امریکی یلغار کوئی نئی بات نہیں اس سے قبل سعودی تیل تنصیبات آرامکو پر چند ماہ قبل راکٹ حملہ ابھی تک سوالیہ نشان ہے الزام اسرائیل پر بھی آراہے اور امریکن بہرحال شامل حال ہیں ہر صورت۔امریکہ نے چند سال سے ایٹمی پروگرام پر اعتراضات شروع کر رکھے ہیں اور بعض معاہدوں کو یکطرفہ طور پر منسوخ بھی کر دیا ہے ۔یورپی ممالک نیمے دروں نیمے بڑوں ساتھ چل رہے ہیں مگر اسرائیلی دباؤ اور امریکی سخت خُو بہرحال اپنی بین الاقوامی بالادستی کسی صورت بھی نہیں چھوڑنا چاہتے ۔بلکہ جنگ جوئی تو ان کی معیشت کی ریڈھ کی ہڈی ہے کہ اسلحہ کی صنعت کہا ں جائے اگر جنگیں برپا نہ کریں ۔دیت نام کمبوڈیا اور مشرق بعید سے جنوبی امریکہ اور 9/11کے بعد مشرق وسطیٰ کی تباہی عراق پر الزام لگایا گیا کہ Weapon of mass destructionاس کے پاس ہیں اقوام متحدہ اور دیگر ذرائع کی رپورٹ میں ایسی کوئی چیز نہ پائی گئی پھر بھی عراق کو تباہ کر کے رکھ دیا اب خیر سے شام بھی برباد ہو چکا امریکہ اور یورپ ایک طرف روس اور چین دوسری طرف کچھ حصہ ترکی کا بھی ہے بوجوہ کیونکہ کردوں کا معاملہ تاریخی طور پر موجود ہے ۔ایران ،عراق اور ترکی کے بارڈر پر کُرد موجود ہیں اور مسئلہ موجود ہے ان کا ۔بہرحال ترکی متوازن کردار ادا کر رہا ہے اپنے بارڈر اورمفادات کے تناظر میں اور امریکی دھمکیوں کے باوجود معاملات کا سنبھالا تدبر سے دے رہا ہے ۔
ایران میں عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور قم کی مسجد پر سرخ جھنڈا لہرا دیا گیا تھا جس کا مقصد شدید جنگ اور ردعمل ہے ۔ایرانی لیڈر شپ نے ہمیشہ تدبر اور حکمت کا مظاہرہ کرتی ہے ان کی بہرحال مسلکی ایشو اپنی جگہ ایرانی مفادات پر نظر رہی رہا معاملہ مسلکی امر کا توا س حوالہ سے سعودی عرب اور ایران اور کچھ عرب ممالک متحارب ہیں خیال تھا کہ شاید ان کو یہ بات سمجھ آجائے کہ امریکہ اور یورپ ان کو مکمل طور پر برباد کر کے دم لیں گے مگر ایسا نہ ہوا کیونکہ بیشتر عرب ممالک امریکہ کے زیر اثر ہیں ان کا نظارہ پچھلے دنوں ملیشیا ء میں سعودی اور امریکی دباؤ کے سبب وزیراعظم عمران خان حتیٰ کہ کوئی نمائندہ بھی نہ بھیجا سمٹ کانفرنس میں جبکہ ترکی،ایران ،ملیشیاء اور کئی مسلم ممالک کے سربراہ اور نمائندے کوالمپور گئے کشمیر ،فلسطین اور دیگر مسلم ممالک کے مسائل اور مسلمانوں کی حالت زار پر اسرائیل اور بھارت کے حوالے سے باتیں ہوئیں ۔سعودی نقطہ نظر ہے کہ او آئی سی کو کمزور کرنے کی کوشش تھی ۔ویسے او آئی سی عضو معطل کے سوا کیا ہے آج تک اسرائیل اور بھارت کے مسلمانوں پر ظلم اور کشمیر کی آزادی کے معاملہ میں کیا کردار ادا کیا ہے ۔کیا قومیں اسلحہ اور مال و دولت کی فراوانی کے بل بوتے پر دنیا میں باعزت اور باوقار مقام برقرار رکھ سکتی ہیں جواب نفی میں ہے روس کا اسلحہ شکست و ریخت سے نہ بچا سکا ۔برطانیہ کا سورج ڈوبتا نہیں تھا مگر صرف ایک جزیرہ ہے اور وہاں بھی سکاٹ لینڈ علیحدگی مانگ رہا ہے ۔آئرلینڈ پہلے ہی تقسیم ہے ۔امریکہ اور ایران تنازعہ سے خطے کی صورت حال خاصی گھمیبر ہوگئی ہے ۔اگر تنازعہ شدت اختیار کرتا ہے جس کا خطرہ اور خدشہ موجود ہے وہ صرف موجودہ تناظر میں ہی نہیں سابقہ واقعات خاصے طویل عرصے پر محیط ہیں خلیج کہیں امریکی جنگی جہاز ،امریکی تیل پر ایران کے خلاف پابندیاں اور مختلف طریقوں سے بازو مروڑنے کی کوششیں روس اور چین ایک حد تک ایران کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ مقام شکر ہے فریقین لڑائی کی بنائے مذاکرات پر آمادہ ہیں ۔بہرحال یہ اپنے اپنے مفادات کی جنگ ہے پاکستان نے سعودی عرب ایران ،ترکی اور کچھ دیگرملکوں امریکہ سمیت اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے کہ فریقین احتیاط اور تدبر سے Diplomacyکے ذریعے تنازعہ ختم کرنے کی کوشش کریں ۔اس وقت بہتر یہی ہوگا کہ امریکہ کے ساتھ معاملہ فہمی سے کام لیں مگر اپنے علاقائی ممالک جن میں کچھ دوست بھی ہیں روس،چین ،ترکی ،ملیشیاء سے بھی ڈپلومیٹک کوشش کر کے آنے والے دنوں کا بندوبست کریں کیونکہ اس وقت امریکہ بھارت اسرائیل اور یورپ بھی ایک ہی سمت میں چل رہے ہیں سب مسلمانوں کی بیخ کُنی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور اسلام فوبیا کا شکار ہیں ۔بھارت میں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کا سلسلہ آسام سے شروع ہوا اور 20لاکھ مسلمان متنازعہ ٹھہرے ان سے دستاویزات مانگی جارہی ہے جو ناممکن ہے بھارت کے کئی صوبوں میںمسلمانوں پر ظلم و تشدد جاری ہے ۔اب مظاہروں میں عیسائی ،سکھ ،چھوٹی ذات کے ہندؤں وغیرہ اور کچھ سیاسی لیڈر جن میں مانیکا گاندھی اور دیگر شامل ہیں مظاہروں میں نرنیدر مودی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ۔کشمیر میں 150دن سے زیادہ کرفیو میں گذر گے غور کریں نہ اقوام متحدہ اور نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیموں اور نہ ہی بڑے اور اہم ممالک امریکہ ،برطانیہ ،فرانس ،جرمنی ،روس اور چین واضع طور پر بھارت اور بھارتی حکومت اور اس کے اقدامات کی مذمت نہیں کی ۔چین کے مفادات لداخ میں ہیں اورکچھ معاملہ سی پیک کا بھی ہے جو بہت اہم ہے دوسرے 70سال میں دونوں ایک دوسرے کے قریب رہے مگر وہا ںبھی تنکیانگ میں مسلمانوں کا معاملہ ہے حتمی بات یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے مفادات کا آج اور آنے والے کل کے لیے تحفظ اور اہتمام کرنا ہے ۔تین روز قبل پارلیمنٹ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضع اعلان کیا کہ ہم خطے کے تنازعات میں پاکستان کی سرزمین کسی طرح سے بھی استعمال نہ ہونے دیں ۔جنرل ضیا الحق کی افغان ،امریکہ جنگ میں پاکستان نے اپنے لیے جو کانٹے بوئے آج تک خمیازہ بھگت رہے ہیں جنرل مشرف نے دوسری بار پاکستان کو امریکی جنگ اور ان کے 100%مطالبات مان کر جس طرح زمین ،فضا اور سمندر میں رسائی دی ہم 70ہزار سے زائد قربانی اور 100ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھا کر بھی سرخُرو نہ ہوئے اورڈو موراور دہشت گردی کے مرکز کے مطالبات اور الزامات کا سامنا کر رہے ہیں ۔پچھلے دنوں موجودہ عراق میں امریکی واردات سے پہلے کہا گیا کہ امریکی شہری احتیاط کریں پاکستان میں دہشت گردی ہو سکتی ہے ۔میرے ذہن میں کھٹکا تھا کہ کوئی واقع ہونے والا ہے ۔موجودہ صورتحال میں ایران کے خلاف امریکہ یورپ اور اسرائیل اکٹھے ہیں ادھر ان سب کا بھارت کے ساتھ بھی ایکا ہے ۔لہذا بھارت کی دراندازی نہ صرف کشمیر بلکہ بین الاقوامی سرحد پربھی رول آئوٹ نہیں کی جا سکتی ۔خوش فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہیے ہمارے وزیرا عظم اور آئی ایس پی آرکے بیانات تسلسل سے آرہے ہیں بھارتی کمانڈر انچیف سابقہ اور موجودہ بھی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔بھارت کے اندرونی حالات مودی کو نئی مہم جوئی پر اُکسا سکتے ہیں ویسے بھی اکھنڈ بھارت اور ہندو توا کا فلسفہ اور ایجنڈا خاصا پرانا ہے اور اب یہ آخری جنگ ہے ۔ہماری بدبختی کی قائداعظم اوراپنے زعماء کے فلسفے کو اور ارشادات کو بھول گئے قومیں عزت ،حمیت اور حکمت سے زندہ رہتی ہیں ۔معاشیات اور اقتصادیات کے خوف و ہراس سے نہیں ۔حالات بڑی جنگ کی نوید سنا رہے ہیں پاکستان کو علاقائی ممالک سے یکجہتی اور مثبت اور موثر کثیر المقاصد اتحاد پر بغیر مزید وقت ضائع کیے فیصلہ سازی کے عمل کو تیز تر کرنا ہوگا قائدا عظم نے فرمایا مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا !!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024