وفاق اور سندھ کی سیاسی جنگ، کس کا فائدہ کس کا نقصان؟
پیپلزپارٹی اور حکمران جماعت تحریک انصاف کے درمیان اختلافات جے آئی ٹی رپورٹ کی حد تک عدالت عظمیٰ کی ایک ہدایت کی صورت میں فی الوقت تعطل کا شکار ہو گئے ہیں لیکن صدرمملکت عارف علوی کے اس بیان کو بہرحال نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کراچی کے ترقیاتی منصوبے وفاق اور سندھ کے درمیان حالات سازگار ہونے تک مکمل اور شروع نہیں ہو سکتے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پر کرپشن کے الزامات کوئی نئی بات نہیں تاہم پیپلزپارٹی وطن عزیز میں ایک بڑی سیاسی جماعت کی اہمیت رکھتی ہے لیکن سندھ سے ہٹ کر پنجاب اور ملک کے دیگر صوبوں میں پیپلزپارٹی کی آصف علی زرداری کی صورت میں قیادت کو عوامی حلقوں میں زیادہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا البتہ خیبر پی کے میں پیپلزپارٹی اب بھی کسی حد تک ایک سیاسی طاقت کے طور پر موجود ہے لیکن موجودہ حالات و واقعات میں مسلم لیگ(ن) جس انداز میں خاموش زندان ہے اس کا سارا فائدہ پیپلزپارٹی حکمران جماعت، تحریک انصاف کے ساتھ اختلاف کی صورت میں اٹھا رہی ہے اور مزید اٹھا سکتی ہے۔ آصف علی زرداری کے مختلف قریبی رفقاءکی گرفتاری کے بعد عدالتوں میں ان کیسز کی بابت جس قسم کے ریمارکس سامنے آتے رہے اور جو کچھ ہوتا رہا اس کے برعکس بلاول اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکال کر جے آئی ٹی رپورٹ سے خارج کرنے کا حکم بھی اپنے طور پر سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے اور لوگ طرح طرح کے سوالات کر رہے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ وفاق اور سندھ کے درمیان لڑائی کا شاید کوئی حتمی نتیجہ نہ نکل سکے۔ پیپلزپارٹی کے اہم لوگ کئی دنوں سے کہنے لگے تھے کہ سینٹ میں جو کردار انہوں نے ادا کیا وہ اس کی اصلاح کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جب بلاول بھٹو زرداری تک نے یہ کہہ دیا کہ اگر آصف علی زرداری ایک اشارہ کریں تو ایک دو ووٹوں پر کھڑی وفاقی حکومت کو زمین بوس کر دیں گے۔ اس وقت بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی قدکاٹھ بڑھ رہا ہے۔ خود بلاول پنجاب کا اہم دورہ کرنا چاہتے ہیں تو اس صورت میں پیپلزپارٹی کو اقتدار کی گیم میں سب سے بڑے مرکز پنجاب میں ازسرنو مضبوط کر سکتے ہیں کیونکہ تحریک انصاف کا اس وقت جو معاملہ ہے اس حکومت کی شاید عوامی، سیاسی اور کاروباری حلقوں کو کوئی واضح سمت نظر نہیں آ رہی البتہ عمران خان خارجی محاذ پر پاکستان کے امیج کو بہتر بنا رہے ہیں اور جیسے گزشتہ روز بھی متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ زید النہان پاکستان آئے اور ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ آئندہ کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کا دورہ کریں گے اور پاکستان کے ساتھ ایک اہم کاروباری معاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔ ان معاملات کے علاوہ سیاسی طور پر تحریک انصاف بمقابلہ پیپلزپارٹی کا سارا نقصان پنجاب اور ملک کے دیگر صوبوں میں مسلم لیگ(ن) کو ہوتا نظر آ رہا ہے۔ تحریک انصاف پیپلزپارٹی کے ساتھ جتنی مڈبھیڑ کرے گی اس کا سارا فائدہ پیپلزپارٹی کو ہو گا اور آصف علی زرداری کے گزشتہ روز کے بیان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جب انہوں نے یہاں تک کہا کہ میرے خلاف ایک نہیں پچاس پچاس مقدمات قائم کرو اور بھیڑبکریوں کی چوری جیسے چھوٹے مقدمات کی بجائے بڑے مقدمات بنا¶، اس سے واضح ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی بھی لڑائی کے لئے تیار ہے اور اس سیاسی جنگ میں پیپلزپارٹی کا اس مرتبہ مسلم لیگ(ن) ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں، اس کی کیا وجہ ہے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ صرف چند ماہ قبل پہلے مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی سے تعاون چاہتی تھی اور انکار ہوتا رہا اس کی وجہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جمعیت علماءاسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کئی روز بعد گزشتہ روز اس ضمن میں ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں کودے مگر انہیں پھر منہ کی کھانی پڑی کہ دونوں جماعتیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی باہم شیروشکر ہونے سے گریزاں رہیں۔ لہٰذا ان حالات میں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ آپ پنجاب میں بیٹھ کر پیپلزپارٹی کو جتنا مرضی برا بھلا کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی آج بھی وفاق میں سندھ کا مقدمہ لڑنے کی بدولت سندھ کی سب سے مقبول جماعت ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ کارڈ کھیلنے سے پیچھے نہیں ہٹے گی اور اس مرتبہ زرداری اگر جیل یاترا کو گئے تو یہ سیاسی طور پر حکمران جماعت اور مسلم لیگ(ن) دونوں کے لئے ایک بڑا دھچکا ہو گا۔ پہلا دھچکا عدالت عظمیٰ کی طرف سے ای سی ایل سے نام نکالنے اور جے آئی ٹی سے خارج کرنے کی صورت میں سامنے آ چکا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ زرداری سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں اور تحریک انصاف اقتدار میں ہے۔ اقتدار میں موجود جماعت سیاسی محاذآرائی اور جنگ میں ویسے ہی کافی پیچھے ہوا کرتی ہے البتہ اگر عمران خان حقیقی معنوں میں احتساب کے ذریعے قومی خزانہ بھرنا چاہتا ہے تو پھر تحریک انصاف کے پنجاب اور وفاق میں موجود کئی رسوائے زمانہ سیاست دانوں کے احتساب پر سوال اٹھ رہے ہیں اور اٹھتے رہیں گے۔