زبان اندر کے حال کا
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا تھا کہ انسان زبان کھولتا ہے تو اس کا اندر باہر آجاتا ہے۔ ان کی زبان ہی اس کے اندر کے انسان کا حال بیان کرتی ہے، اس کے علم و دانش کی گرہ کھولتی ہے۔ حضرت علی نے یہ گ±ر بھی سمجھایا اور سکھایا کہ کسی انسان کی اصلیت دیکھنی ہو تو اسے غصے کی حالت میں دیکھ لو‘ لیکن آج کے ہمارے کردارسیاست کو ایک گدھلے جوہڑ کی شکل دینے پر ت±لے ہیں۔ ا±جلے چہروں والے جیسے منہ کھولتے ہیں تو گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ الفاظ سے وہ تعفن پھیلتا ہے کہ سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ قصور کس کا ہے؟ کیا یہ ہماری سیاسی قیادت، جماعتوں کے قائدین کا نہیں، جن کی چاپلوسی کے لئے ان کے ماتحت رہنمائی کے مناصب پر فائز کردئیے جانے والے ایسی ایسی گل افشانی کرتے ہیں۔ جب وہ ایسے افراد کی بازپرس کرنے کے بجائے داد وتحسین کا رویہ اپناتے ہیں تو معاشرتی اقدار کا جنازہ تو اسی وقت نکل جاتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ بڑی درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہونے اور خود کو عزت کا اہل متصور کرنے والے یہ حقیقت کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ رہنماﺅں کے روئیے معاشروں کے رویوں کو جنم دیتے ہیں۔ جب آپ باہر عوام میں دشنام طرازی اور جہل کا کاروبار پھیلائیں گے تو کیسے اور کیونکرممکن ہوگا کہ آپ کا گھر اس بدبوسے بچ جائے گا۔ اصل بدبو یہ ہے جو ہمارے رویوں سے معاشرے میں پھیل رہی ہے۔ عزت والے دراصل اب خوفزدہ رہتے ہیں کہ کوئی بھی بدزبان ان کی عزت تار تار کردے گا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا انقلابی منشور دینے والے عمران خان صاحب اب وزیراعظم ہیں، ان کی موجودگی میں ایسے رویوں کا اظہار گوارا کیوں ہو؟ اندھیروں کی فصل بو کر روشنی کا پھل پانے کے آرزومندوں کا مقدر جہالت کا پاتال ٹھہرتا ہے۔ وزیرریلوے شیخ رشید نے کچھ عرصہ قبل وزیراعظم سے اپنی ملاقات اور وزارت اطلاعات سنبھالنے کی پیشکش کا انکشاف کیاتھا‘ لیکن پھر چند ہی گھنٹے بعد اصلی وزیراطلاعات چودھری فواد حسین کو اپنا بھائی قرار دے کر پتلی گلی سے نکل لئے تھے۔ ان کی سیاسی زندگی کا بڑا حصہ اطلاعات کی مقبول وزارت کے ساتھ ہی گزرا ہے۔ جب وہ اقتدار میں نہ ہوں تو بھی میڈیا میں ضرور رہتے ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی کا گویا سانس ہی میڈیا ہے۔ ان کی میڈیا میں وابستگیاں دیرینہ ہیں جو ان کے لئے ہمیشہ کی پونجی کا درجہ رکھتی ہیں۔ سیاست کی اصل تو عوامی خدمت ہے‘ لیکن اب ذاتی مفاد اور اپنی ذات کے گرد گھومتی سیاست نے اس کے چلن بھی بدل دئیے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ رفتہ رفتہ قحط الرجال کی اصطلاح اور بھی زیادہ مبنی برصداقت ہوتی جارہی ہے۔ رہنمائی جن کے ذمے ہے ان کی اپنی رہنمائی اور تربیت کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگر ایسے رہنما ہوں گے تو پھر موت کا منظر پڑھ لیں تو بہتر ہے کیونکہ اس وقت سیاست میں موت کا جو منظر جاری ہے اس میں الفاظ کی گندگی نے وہ سڑاند پید اکردی ہے جس میں کوئی بھی پڑھا لکھا فرد کبھی اس کوچہ کا ر±خ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ریاست مدینہ کے نام لیواو¿ں کے دور میں بھی اگر پرانے پاکستان کے ایسے کردار یونہی زباں دانی کے ذریعے مراتب پائیں گے تو پھر آپ میں کیا فرق؟ کم ازکم یہ ریاست مدینہ کا تعارف تو ہرگز نہیں ہوسکتا۔ وزیراعظم عمران خان کو سوچنا اور دیکھنا ہوگا کہ ان کی جماعت کوئی فیصلہ کرتی ہے، اپوزیشن کے ساتھ سیاسی معاملہ کرتی ہے، ان کی دور±کنی حلیف جماعت کے سربراہ اسے عدالت لے جاتے ہیں تو اس سے سبکی صرف وزیراعظم کی نہیں ہوگی۔ سوال جواب دلیل سے ہوتے ہیں۔ اپنی وزارتوں کی کارکردگی اور منصوبہ جات کا پرچار نہیں کیاجاتا بلکہ مطلع کیاجاتا ہے۔ اگر حکومت اور اس کے اقدامات کا تعارف اس انداز میں کیا جائے گا تو عوام پر مثبت کے بجائے منفی اثر ہوگا۔ اصل ملبہ تو عمران خان کو بھگتنا ہوگا، فصلی بٹیرے تو کل کسی اور کی ترجمانی سنبھال سکتے ہیں، یا کم ازکم کہیں بھی خود کو کھپا لیں گے کہ وہ اس ہنر میں یکتا ہیں‘ لیکن عمران خان جس تبدیلی کا علم لئے میدان میں سزا بھگت رہے ہیں، ان پر پتھر مارنے والوں میں اضافہ ضرور ہوجائے گا۔ میاں محمد بخش نے فرمایا تھا:
عاماں بے اخلاصاں اندر خاصاں دی گل کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد ک±تیاں اگے دھرنی