جمعة المبارک‘ 4 جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 11 جنوری 2019ء
ہم مہاجرین کے بارے میں بہت سنتے ہیں
لیکن مہاجرین کی نہیں سنتے: ملالہ
مہاجرت ایک بہت بڑا دکھ ہے۔ اس کا اندازہ انہی کو ہوتا ہے جو اس اذیت اور کرب سے گزرتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں خانہ جنگی اور باہمی جدال و قتال کی وجہ سے لاکھوں شامی‘ برمی‘ افغانی اور افریقی مہاجرین محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اپنے وطن سے ہزاروں میل دور سمندرکے راستے‘ خشکی کے راستے جائز اور ناجائز طریقے سے پناہ کی تلاش میں بھٹکتے ہیں۔ اب جن عالمی طاقتوں کو اس سلسلے میں پریشانی ہو رہی ہے‘ حقیقت میں وہ خود ہی اس سانحہ اور انسانی المیہ کی ذمہ دار ہیں۔ مذہبی‘ سیاسی اور لسانی بنیادوں پر جن ممالک میں خونریزی ہو رہی ہے‘ انکی پشت پناہی یہی طاقتور ملک کرتے ہیں تاکہ اپنے من پسند عناصر کی حکومت لا سکیں۔ یہ عذاب انہی کی وجہ سے آیا ہوا ہے۔ یہی طاقتیں اس پر اب شور بھی مچاتی ہیں اور مگرمچھ کے آنسو بھی بہاتی ہیں۔ اب ملالہ نے اپنے انٹرویو میں جوکہا ہے‘ وہ بھی سچ ہے کہ ہم جن کے بارے میں بولتے ہیں‘ سنتے ہیں‘ ان بے چاروں کی کیوں نہیں سنتے۔ انکے غم و آلام تو تب ہی ختم ہونگے جب ان کی سنی جائےگی۔ ان مہاجرین کا ایک ہی پیغام ہے اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ انکے وطن میں امن بحال ہو‘ خانہ جنگی ختم ہو‘ کوئی دوسری طاقت یا طاقتور ملک ان کے معاملے میں ٹانگ نہ اڑائے۔ بس اتنی ہی بات کسی کو سمجھ نہیں آتی۔ اگر جائے تو مہاجرین کا مسئلہ خودبخود حل ہو سکتا ہے۔ انکے مصائب بھی ختم ہو سکتے ہیں مگر ایساکرے کون؟ جن کو مفادات عزیز ہیں‘ وہ کہاں امن و چین‘ تعمیروترقی ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ اس لئے اقوام عالم ملالہ کے کہنے پر ہی عمل کریں۔ مہاجرین کی بھی سنیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس طرح یہ مسئلہ حل ہونے میں مدد ملے گی۔ دنیا کو بھی مہاجرین کی یلغار کا جو سامنا ہے‘ اس سے نجات ملے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
نوازشریف کے گلے میں انفیکشن‘ بیرک کے گرد اضافی کیمرے اور برقی تار نصب
خدا جانے یہ زندان کا بندوبست کس کے سپرد ہے۔ مسئلہ کیا ہے اور حل کیا نکالا جا رہا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق میاں نوازشریف کے گلے میں انفیکشن ہے۔ جیلر صاحب نے نجانے کس کے حکم پر یا اپنی مرضی سے اس نے علاج ان کے بیرک کے گرد لگے کیمروں کی تعداد میں اضافہ اور برقی تار نصب کرنے میں ڈھونڈ لیا۔ اب کو سقراط یا بقراط ہی گلے کے انفیکشن کا کیمروں اور برقی تاروں سے تعلق ثابت کرکے بتا سکتا ہے کہ ان کے لگانے سے گلے کے انفیکشن کو آرام آ جاتا ہے۔ اطلاع کے مطابق شہبازشریف کے کمر کی تکلیف بھی شدت اختیار کر گئی ہے۔ ظاہر ہے جو علاج اور سہولتیں باہر میسر تھیں اب وہ جیل میں تو میسر نہیںہوںگی۔ اب دیکھنا ہے کہ جیلر صاحب یا جیل حکام ان کی بیماری کی اطلاع کے بعد کونسا نادر طریقہ علاج دریافت کرتے ہیں۔ اب وہ انہیں بیرکوں میں بند قیدیوں کی گنتی پر معمور نہ کر دیں تاکہ انہیں آرام کرنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ جیل حکام کو کم از کم اپنے پرانے حکمرانوں کا کچھ تو لحاظ کرنا چاہئے تھا۔ بے شک جیل کے اپنے اصول اور قاعدے ہوتے ہیں۔ مگر باقی صوبوں میں دیکھ لیں وہاں بند سیاسی قیدیوں کو کس طرح ہسپتالوں میں رہنے کی مکمل اجازت حاصل ہوتی ہے یا اگر وہ جیل میں بھی بند ہوں تو انہیں مکمل وی وی آئی پی پروٹوکول حاصل رہتا ہے۔ آخر شریف برادران بھی ملک کے حاکم رہے ہیں۔ تو پھر خیال خاطر احباب رکھنا چاہئے۔ ویسے عجیب بات ہے جب تک ہمارے حکمران خواہ کوئی بھی ہو اقتدار میںہوں تو قابل رشک صحت کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ جیل آ کر بیمار کیوں ہو جاتے ہیں۔یہ راز ابھی تک نہیں کھل سکا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
خورشید شاہ کی ثناءاللہ زہری سے بلوچستان حکومت گرانے پر معذرت
زبان سے نکلی بات اور کمان سے نکلے تیر کی طرح گیا وقت بھی واپس نہیں آتا۔ اب خورشید شاہ کی اس معذرت پر ثناءاللہ زہری دل ہی دل میں ”ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا“ کہہ رہے ہوں گے۔ اب تو وہ سب کچھ ختم ہو گیا جس پر ثناءاللہ زہری کو ناز تھا۔ نئے الیکشن بھی ہو گئے۔ بلوچستان میں نئی مخلوط حکومت بھی قائم ہو گئی۔ اب معذرت کرنے سے کیا ہوگا۔اس وقت پیپلز پارٹی کے تیور ہی اور تھے۔ نجانے کس گمان میں وہ اپنے نرم و گرم موسموں کے دوستوں سے رعایت برتنے کو تیار نہ تھی۔ صرف یہی زخم نہیں۔ سینٹ کے الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی والوں نے مسلم لیگ (ن) والوں کو کھڈے لائن لگانے کا کام نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا۔ اس کے بعد اگر کوئی اس گمان میں ہے کہ معذرت کرنے سے فاصلے کم ہوں گے تو شاید وہ کسی اور دنیا میں رہتا ہو گا۔ ثناءاللہ زہری کا تختہ الٹنے کے بعد بھی بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو کیا ہاتھ آیا۔ وہی چند ایک صوبائی اسمبلی کی نشستیںجو پہلے بھی تھیں۔ عبوری اور اب نئی حکومت میں پی ٹی آئی والوں اور بی اے پی نے انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا۔ اب خود پیپلز پارٹی کی قیادت کو وہی مرحلہ درپیش ہے جو مسلم لیگ (ن) کو تھا۔ یعنی احتساب ٹرین اب پنجاب کے بعد سندھ اسٹیشن پر ٹھہرنے لگی ہے۔ اس کے بعد خورشید شاہ کو معافی تلافی یاد آئی۔ مگر شریف برادران بھی تنک مزاج ہیں۔ سو وہ بھی منہ بنائے بیٹھے ہیں۔ میل ملاقات پر تیار نہیں۔ اسے کہتے ہیں جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ سو اب بھگتنی تو ہے ہی۔ پہلے مسلم لیگ (ن) والوں نے بھگتی اب پیپلز پارٹی والوں کی باری ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
منی بجٹ‘ پرتعیش اشیاءکی درآمد بڑی حد تک کم کر دی جائے گی
خدا کرے ایسا ہی ہو جو حکومت کہہ رہی ہے۔ ورنہ منی بجٹ کے نام سنتے ہی لوگ صدقہ خیرات کرکے اس کے برے اثرات سے بچنے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جب اس منی بدنام ہوئی ٹائپ کے بجٹ نے آنا ہوتا ہے تو کوئی جنتر منتر ٹوٹکا کام نہیں آتا اور یہ پورے ملک میں برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ غریب غرباءسب سے زیادہ اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ اب بھی حکومت خواب تو یہی دکھا رہی ہے کہ یہ منی بجٹ بدنام نہیں نیک نام ہوگا۔ اس کا منفی اثر صرف پر تعیش اشیاء پر پڑے گا اور ان کی درآمد کم ہو جائے گی۔ اب لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پُرتعیش اشیاء میں کہیں آٹا دال چاول گھی اور چینی تو شامل نہیں ہوں گی۔ کیوں کہ اس وقت ان کی جو قیمت ہے وہ بھی پرتعیش اشیاء کے زمرے میں آتی ہے۔ ان کی خریداری بھی عیاشی ہی تصور نہ کی جائے گی۔ رہی بات پرتعیش اشیاء پر ٹیکس کے حکومتی دعوے کی تو اس کا پول گزشتہ دنوں کھل چکا ہے جب لگژری گاڑیوں پر عائد ٹیکسوں میں کمی کرکے انہیں سستا کردیا ہے۔ اگر یہ بڑی گاڑیاں پرتعیش اشیاء میںشامل نہیں تو پھر بھلا کیا سائیکل اور موٹرسائیکل تو پرتعیش اشیاءمیں شمار کیا جائے۔ منی بجٹ کا صاف مطلب پتہ چل رہا ہے۔ غریب لوگوں یعنی عوام الناس کو ہی جو اس ملک کی آبادی کا ستر فیصد ہیں نئے ٹیکسوں کے دام میں لا کر ان کا رہا سہا خون نچوڑا جائے گا۔ اس طرح ہی وصولیاں ہوں گی ورنہ باقی 20 یا 30 فیصد اشرافیہ تو پہلے ہی ٹیکس چوری کرنے اور اپنی آمدنی و بچت چھپانے کی ماہر ہے۔ ان پر کون سا بوجھ پڑے گا۔۔۔۔۔۔