لاہور( خبر نگار خصوصی) پاکستان کے خلاف باتیں کرنے والے مردود ہیں۔ بہادر اور جاں نثار پاکستانیوں کے ہوتے ہوئے کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ ان خیالات کا اظہار دنیائے علم و ادب کی معروف شخصیت اور رکن قومی اسمبلی بیگم بشریٰ رحمان نے نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کی دعوت پر صوبہ سندھ اور سرحد کے طلبا و طالبات اور اساتذہ کرام پر مشتمل قومی کارروانِ یکجہتی و خیر سگالی کے وفد کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ پر منعقدہ تقریب کے موقع پر کیا۔ انہوں نے برملا کہا کہ پاکستان ہماری ماں اور سبز ہلالی پرچم اس کا دوپٹہ ہے۔ہم اپنی ماں کے دوپٹے کی بے حرمتی کرنے والوں کو نیست و نابود کر کے رکھ دیں گے۔بیگم بشریٰ رحمن نے طلبا و طالبات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آمد کے طفیل آج کی شام بڑی خوبصورت ہوگئی ہے۔کبھی کبھی ملکی حالات پر پریشانی اور مایوسی لا حق ہوجاتی تھی لیکن خود اعتمادی اور اولوالعزمی سے بھرپور آپ کی باتیں سن کر آج وہ بھی یکسر دور ہوگئی ہے۔ آپ کو یہاں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پورا پاکستان میرا گھرمیں اکٹھا ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک آزاد وطن کا تصورِ جانفراءپیش کیا تو انہیں ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو ان کے خیال کو عملی تعبیر دے سکے۔شاعر کا کام تو خیال پیش کرنا ہوتا ہے اور یہ دنیا کا خوبصورت ترین کام ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے علامہ محمد اقبالؒ کی آخرِ شب دعاﺅں کے طفیل قوم کو قائداعظمؒ جیسا عظیم المرتبت لیڈر عطاءفرمایا جس نے دشمنوں کی چالوں کو ناکام بناتے ہوئے 10 کروڑ مسلمانوں کو ابدی غلامی میں جانے سے محفوظ فرمادیا۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کوئی عام انسان نہیں تھے بلکہ اللہ کے انتہائی برگزیدہ اور رسول پاک کے عاشق تھے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کے حقیقی رہنما میں انکساری اور وضع داری کی صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں اور ہمارے قائداعظمؒ کی ذات ان اوصاف سے پوری طرح مزین تھی۔ بیگم بشریٰ رحمان نے مزید کہا کہ آج کل کچھ عاقبت نااندیش لوگ سیاسی عزائم کی خاطر پختون خواہ کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ ہمیں ان خواہ مخواہ کے نعروں پر توجہ مبذول کرنے کی بجائے صرف اور صرف پاکستان کی بات کرنی چاہیے۔ بھارت سے صرف برابری اور باہمی احترام کی بنیاد پر دوستی کرنا چاہتے ہیں مگر اس کے لئے شرط اول مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق منصفانہ حل ہے۔ اگر بھارت دشمنی کرے گا تو پھر ہم اسے کیسے دوست تصور کر سکتے ہیں۔ انہوں نے طلبہ کے مستقبل کے حوالے سے نیک تمناﺅں کا اظہار کرتے ہوئے دعائیہ انداز میں یہ شعر پڑھا
یہ دعا ہے میری کہ حشر تک تیری بزم یونہی سجی رہے
سبھی اہلِ بزم مگن رہیں کہ ابھی تو حشر اٹھا نہیں
یہ دعا ہے میری کہ حشر تک تیری بزم یونہی سجی رہے
سبھی اہلِ بزم مگن رہیں کہ ابھی تو حشر اٹھا نہیں