اس پر بہت سی موشگافیاں ہوتی رہی ہیں۔ جب میں سٹیٹ بنک آف پاکستان میں تھا تو ہم نے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے ایک بیان کورٹ میں جمع کروانے کے لئے بنک کے وکیل کو بھیجا۔ یہ بیان سٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین مفتی تقی عثمانی نے دیکھ کر منظور کیا تھا۔ اس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آج کے زمانے کا سود اور قرآن و حدیث میں مذکور ربا الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی ہیں۔ بدقسمتی سے چونکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے وکیل صاحب کا موقف اس سے مطابقت نہیں رکھتا تھا تو انہوں نے شاید اس وقت کے گورنر سے بات کرکے کورٹ میں پیش نہیں کیا۔مجھے اس کے بارے کبھی بتایا بھی نہیں گیا۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان میں میری ملازمت کے دوران میرے لئے یہ سب سے بڑا مایوس کن امر تھا۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکومتیں ایک طرف تو ملک کے اقتصادی معاملات کو اسلامی اصولوں پر چلانے کا عزم ظاہر کرتی ہیں کہ یہی عزم قائداعظم نے اپنی زندگی کی آخری تقریر میں سٹیٹ بنک کی بلڈنگ کی افتتاحی تقریر میں بھی کیا تھا، لیکن دوسری طرف یا تو خودکم علمی کی وجہ سے اس کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہیں اور یا پھر کسی اور ڈر کی وجہ سے ایسا کرنے کے لئے بھر پور کوشش نہیں کرتیں۔ جب تک تذبذب کی یہ کیفیت ختم نہیں ہوتی اور حکومت اسلامی بنکاری کی بھر پور پشت پناہی نہیں کرتی، ہم اپنے معیشت کو اسلامی ڈھانچے میں کبھی بھی ڈھال نہ پائیں گے۔
کئی معاملات میں سٹیٹ بنک آف پاکستان میں کچھ فنی وجوہات کی بنا پر اسلامی بنکوں کو وہ سہولیات میسر نہیں تھیں جو دوسرے بنکوں کو مہیا کی جاتی تھیں۔ مثلاً طویل المدت ٹریڈ ریفاننسنگ۔ اس پر مزید کام ہونے کے بعد یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ باقی مسائل جیسے اسلامی بنکوں کی لیکویڈیٹی مینجمنٹ اور اس قسم کے دوسرے مسائل کے حل پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اگرچہ اسکی رفتار سست لگتی ہے لیکن ما شاء اللہ ان کا حل نکال لیا جائے گا۔
سٹیٹ بنک آف پاکستان نے گزشتہ سات برس میں اسلامی بنکنگ پر بہت زیادہ کام کیا اس کے نتیجہ میں اسے 2015 سے اب تک تین بار اسلامی بنکنگ کے حوالے سے بہترین مرکزی بنک کے ایوارڈ ملے۔
یہ ہے جناب سعید احمد سابق ڈپٹی گورنر کا وہ موقف جو انہوں نے مجھے تحریری طور پر لکھ کر بھیجا ہے اور میں نے اسے من و عن پیش کر دیا ہے تاکہ جناب سعید احمد کی سر کردگی میں اسٹیٹ بنک نے اسلامی بنک کاری کے لیے جو کوششیں کیں ان کی تفصیل سامنے آسکے۔قارئین میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ مختصر عرصے میں سعید احمد صاحب نے مقدور بھر کام کیا جو قابل ستائش ہے ۔بنک کاری کو سود سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے ایک طویل جد و جہد کی ضرورت ہے۔اس لیے کہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک عالمی مالیاتی اداروں سے سود پر قرضے لینے پر مجبور ہے۔ ویسے بھی عالمی بنک کاری نظام سود کے بغیر کام نہیں کرتا،اس لیے پاکستان اور عالم اسلام کو کسی حد تک کوشش کرکے اپنے مالیاتی نظام کو سود سے پاک کرنے میں کامیابی ہو سکتی ہے ۔ پاکستان کی ایک بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں کی بیورو کریسی اور اشرافیہ دین کے نام سے چڑتی ہے وہ تو اس نظریے کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ پاکستان اسلامی نظام کی تجربہ گاہ کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ پاکستان کے نظام کو اسلام کے قریب تر لانے کے لیے قرارداد مقاصد لائی گئی جسے ہماری کسی پارلیمنٹ نے آئین کا حصہ ہی نہیں بننے دیا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ آئین کے اندر مختلف قوانین کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے دو تقااضے موجود ہیں ان پر بھی عمل کرنے سے برسوں سے گریز کیا جا رہا ہے۔ پاکستان ایک مفاد پرست گروہ کے چنگل میں ہے۔خود وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ انہیں کئی قسم کے مافیاز کا سامنا ہے۔ہماری اعلیٰ عدالتیں بھی یہ قرار دے چکی ہیں کہ پاکستان میں سسلین مافیا ز سرگرم عمل ہیں ۔مختلف کارٹلز،حکومتی ،معاشی اور مالی نظام کو جکڑے ہوئے ہیں ، ان حالات میں پاکستان نام کی اسلامی ریاست تو ہے مگر عملی طور پر اسے اسلامی ریاست میں ڈھالنے کے لیے ایک طویل جدو جہد کی ضرورت ہے ۔ اس وقت جماعت اسلامی کی طرف سے سود کے خلاف ملکی سطح پر مہم چلائی جا رہی ہے اور جناب فرید پراچہ وفاقی شرعی عدالت میں اس سلسلے میں ایک پٹیشن بھی دائر کر چکے ہیں مگر ایک بار پھر وہی کھلواڑ شروع ہو چکا ہے اور حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار کو چیلنج کر دیا ہے۔اس کا مقصد صرف ایک ہے کہ یہ فیصلہ سر ے نہ چڑھنے پائے،میاں نواز شریف کے دور حکومت میںجب سپریم کورٹ نے سود کو نا جائز قرار دے دیا تھا تو خود حکومت نے اس کے خلاف اپیل دائر کر دی تھی، اس موقع پر سینیٹر ساجد میر اور میاں محمد جمیل پر مشتمل علماء کے ایک وفد نے وزیر اعظم سے سوال اٹھایا کہ حکومت سود کو کیوں مسلط کرنا چاہتی ہے ۔وفد کے ایک رکن میاں جمیل صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف منہ سے تو کچھ نہ بولے مگر انگلی کا اشارہ اس وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز کی طرف کیا کہ اپیل کا فیصلہ ان کا ہے میرا نہیں۔
اس ضمن میں پریس کونسل آف انٹر نیشنل افیئر (پی سی آئی اے) کے واٹس ایپ گروپ میں ایک تفصیلی بحث ہوئی ہے اور مزید مکالمے کے لیے گروپ ممبر افتخار سندھو صاحب نے تمام ارکان کو اپنے فارم ہائوس پر مدعو کیا ہے ۔
میری رائے میںبنیادی طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ مل کر جو تجارت کی اور جسے اسلام نے حلال قرار دیا ہے اس کی نوعیت کیا ہے اور حضورﷺ نے اپنے آخری خطبے میںجب سود کی حرمت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے چچا حضرت عباسؓ کا سود معاف کیا تو ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ اس حرام سود کی نوعیت کیا تھی۔(ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38