وہ پھبتی کہ’’ اوپر ذات باری نیچے پٹواری‘‘ تو شاید آپ نے بھی سُن رکھی ہو، لیکن ضروری نہیں کہ ہر کوئی اسکے ’’فیوض و برکات‘‘ سے بہرہ مند بھی ہوا ہو! وہ لطیفہ بھی زبان زدِعام ہے کہ ایک بوڑھی بیوہ نے خوش ہو کر ڈپٹی کمشنر کو دعا دی تھی۔ ’’اللہ تمہیں پٹواری بنائے۔‘‘ گائوں کا جب بھی واجب الارض لکھا جاتا تھا تو اس میں پٹواری کا ذکر بطور خاص کیا جاتا گو دیہی معاشرے میں نمبردار کو اولیت حاصل ہے لیکن یہ وہ ذات شریف ہے جس سے ’’لمبڑ‘‘ بھی خم کھاتا ہے۔ ہر وہ شخص جس کی تھوڑی سی بھی زمین ہو، اس کو ناراض کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسے علم ہوتا ہے کہ محکمہ مال وہ محکمہ ہوتا ہے جو ایک عام زمیندار کا جینا محال کر دیتا ہے۔ پٹواری کے پاس اللہ دین کا چراغ تو نہیں ہوتا لیکن جو کرشمات نائے ضعیف سے بنی ہوئی قلم دکھلاتی ہے وہ اس لحیم شحیم دیو کے بس کا روگ نہیں۔ اگر چشم زدن میں زید کی زمین بکر کے کھاتے میں جا رہی ہے تو دن دہاڑے احمد کی پگڑی محمود کے سر پر رکھی جاتی ہے۔ آج جس زمین کے بل بوتے پر آپ لاکھوں میں کھیل رہے ہیں کل اسی زمین کی وجہ سے ان گنت مقدمات کی صعوبتیں بھی جھیل رہے ہیں جو پگڈنڈی آپ کی زمین کے شرقی جانب دامنِ نیاز کی طرح بچھی ہوئی ہے کل وہی بے مروت بے وفا، آپ کے سینے پر مونگ دلتی، بل کھاتی، لہراتی غربی جانب اپنا پھن لہرا رہی ہے۔
یہ نظام جس میں پٹواری کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ، اکبر بادشاہ کے نو رتن راجہ ٹوڈرمل کے ذہن کی اختراع ہے۔ گو اکبر ان پڑھ تھا مگر اس نے ہندوستان کے زیرک، تجربہ کار اور وفادار لوگوں کو اپنا مشیر مقرر کر رکھا تھا۔ انکی مساعی مفید مشوروں نے سلطنت کو استحکام بخشا۔ راجہ ٹوڈرمل نے جو ریونیو سسٹم رائج کیا اس میں انگریز بھی چھیڑ چھاڑ نہ کر سکا۔ فوجداری نظام تو لارڈ میکالے نے نافذ کر دیا لیکن ٹوڈرمل کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے! اس کو جُوں کا تُوں رکھا اور لالہ جی کو پرنام کر کے آگے بڑھ گیا۔ ہمارے بعض حکمرانوں نے بھی اکبر کی نقل اتارنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے! میاں نواز شریف کے پنج پیارے بڑے مشہور ہوئے لیکن ان کا کام امورِ سلطنت چلانا نہیں تھا بلکہ ہمہ وقت ’’شاہ‘‘ کی خوشامد اور خوشنودی حاصل کرنا تھا۔
یہ بھی فنکار تھے لیکن منفی سوچ رکھتے تھے۔ کوئی برہنہ گفتاری میں غلام محمد گورنر جنرل کا ہم پایہ تھا تو کوئی الفاظ کا مالشیا تھا۔ ان لوگوں نے اپنی چرب زبانی سے میاں صاحب کو یقین دلا دیا کہ ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں جو حکمران ازقسم چندر گپت موریہ چندر گُپت و کرما دیۃ ، اشوک، بابر وغیرہ آئے اسی کیٹیگری میں ان کا شمار بھی ہو گا۔ ایک منچلے میاں فضلی نے تو انہیں امیر المومنین بنانے کی بھی کوشش کی لیکن بوجوہ یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ اسی قسم کے کاسہ لیس اب عمران خان کو بھی مدینہ کی ریاست کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس کیلئے حاضر جُنابوں نے پچیس برس کا عرصہ مانگا ہے گویا خان صاحب پانچ دفعہ مسلسل وزیر اعظم بنیں تو یہ کارِخیر سرانجام پائے گا۔ بالفرض نہ تو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی کا محاورہ نہ بھی پڑھا ہو تو پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں کے معانی اور مفاہیم سے بخوبی آشناہیں …خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا لیکن اس سے پٹواری کی اہمیت کا ایک پہلو یقیناً نکلتا ہے…یعنی جب بھی اس کا ذکر ہو گا تو کسی نہ کسی رنگ میں شاہوں کے تذکرے بھی ہونگے!
اگر کوئی شخص گائوں میں جائے تو پٹواری کو تلاش کرنے میں اسے چنداں دشواری پیش نہیں آتی۔ سر پر نیم اجلا صافہ، کان پر قلم، سنولائی ہوئی رنگت ، کملایا ہوا چہرہ، قدرے خم کھایا ہوا جسم، پائوں میں ہوائی چپل، آنکھیں ایسی جن میں بیک وقت ذہانت ، شرارت، لالچ، اور تجسس ٹپکتا ہوا۔ اگر ہاتھوں میں جریب نہ بھی ہو تو کچھ یوں گمان ہوتا ہے جیسے پیمائش کر رہے ہوں۔
اسکے دفتر کو پٹوار خانہ کہتے ہیں۔ ایک ایسا نیم تاریک کمرہ جس میں کوئی میز ، کوئی کُرسی یا موڑھا نہیں ہوتا۔ ایک پھٹی ہوئی دری‘ چند دریدہ رجسٹر اور وہ قلم دوات جس کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے‘ گو فرش پر بیٹھ کر کام کرتا ہے‘ لیکن نگاہیں عرش پر ہوتی ہیں۔ دفتر کے برعکس گھریلو ماحول یکسر مختلف ہوتا ہے۔ صاف ستھرے کمرے‘ ماکولات کا کوہ ندا جس میں دیسی گھی میں پکے ہوئے دیسی مرغ کی ڈش ضرور ہوتی ہے۔ گائوں میں جس عورت نے سب سے زیادہ سونے کے زیورات پہن رکھے ہوں‘ قیمتی لباس زیب تن ہو‘ جو ناک سیکٹر کر رعونت سے بات کرتی ہو تو آپ سمجھ جائیں کہ محترمہ پٹوارن ہیں۔
پٹواری ایک قسم کا امرت دھارا ہے۔ صاحب لوگوں کا ڈیرہ چلاتا ہے۔ وزیروں کے دورے یہ بھگتاتا ہے۔ سیاسی لیڈروں کے جلسے میں بندے لانا اس کے کار منصبی میں شامل ہے۔ نظارت برانچ میں جو ہمہ وقت سپلائی لائن کھلی ہوتی ہے‘ اس میں بھی یہ حصہ بقدر جثہ ڈالتا ہے۔ ایک مرتبہ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے غریبوں کیلئے مکان بنانے کا اعلان کیا۔ اعلان تو کر دیا پھر خیال آیا کہ اس کیلئے خطیر رقم کہاں سے آئے گی؟ انکی کی پریشانی دور کرتے ہوئے ہمہ مستعد سیکرٹری کیبنٹ ہمایوں فیض رسول بولا ’’یہ کام کرپٹ پٹواری کرے گا۔‘‘ نتیجتاً گنتی کے جو کاغذی مکانات بنے ان میں غریبوں نے تو کیا قیام کرنا تھا‘ آوارہ کتوں اور جنگلی گیدڑوں کی آرام گاہ بن گئے۔ خان صاحب نے بھی پچاس لاکھ مکان بنانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ امید ہے وہ اس قسم کے ’’مفید مشوروں‘‘ پر کان نہیں دھریں گے۔ پٹواری نے کونسا جیب سے رقم خرچ کرنا ہوتی ہے۔ غریبوں کیلئے منصوبے غریب کی جیب سے بنتے ہیں۔
اس قدر اختیارات رکھنے والے شخص کی تنخواہ نہایت قلیل ہے۔ حکومتی سطح پر یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ پٹواری خودکفیل ہو سکتا ہے کہ کل کلاں کوئی حکومتی بزرجمہر یہ تجویز رکھ دے کہ خالی خزانہ بھرنے کیلئے ہر ماہ پٹواری سے کچھ نہ کچھ وصول کیا جائے۔ ایک مرتبہ ہمارے جاننے والے چودھری بشیر صاحب (شیر برادرز) اپنی سکنی زمین کو زرعی لکھوانا چاہتے تھے۔ بھاری ٹیکس سے بچنے کیلئے ایسا کیا جاتا ہے۔ پٹواری نے خطیر رقم طلب کی۔ چودھری صاحب اس پر رعب ڈالتے ہوئے بولے ’’میں وزیراعظم نوازشریف کا دوست ہوں۔‘‘ اس پر وہ ترت بولا ’’تو پھر نواز شریف سے کرووا لو۔ کونسا میں نے یہ رقم اکیلے ہضم کرنی ہے۔ اگر فہرست میں نام گنوائوں تو تمہارا ’’ہاسا‘‘ نکل جائے گا۔ زیرک انسان تھے۔ بات سمجھ گئے اور ’’مک مکا‘‘ میں ہی عافیت نظر آئی۔
ویسے تو سروس میں ہزاروں پٹواری ماتحت رہے ہیں‘ لیکن دو کو میں بھول نہیں پایا۔ 1977ء میں اے سی ننکانہ صاحب تھا۔ ان دنوں ننکانہ ضلع نہیں بنا تھا۔ یہ شیخوپورہ کی ایک تحصیل تھی۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں یہ واحد ضلع تھا جس کی مالیہ کی وصولی بہت کم تھی۔ وجہ؟ محکمہ مال کے اہلکار زمینداروں سے مالیہ کی رقم تو وصول کر لیتے‘ لیکن خزانے میں جمع نہیں کرواتے تھے۔ اس سلسلے میں، میں نے دو پٹواری معطل کر دئیے اور ان کی جواب طلبی کی۔ ایک کا نام غالباً صدیق تھا اور دوسرا سلیم۔ پہلے کو جب نوٹس ملا تو اس کے ذہن رسا نے عجب حل نکالا۔ نوٹس اور میرے دستخطوں کے درمیان جو خالی جگہ تھی اس پر اس نے لکھا۔ میں نے صدیق پٹواری سے مبلغ پچاس ہزار روپے کی رقم بعینہ لینڈ ریونیو وصول کر لی ہے۔ تحریر کے نیچے میرے دستخط تھے۔ دوسرا سلیم اس سے بھی کائیاں نکلا۔ اس نے سول عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا۔ یہ ننکانہ کاجولاہا تھا۔ جو RLII کے اوراق بدلنے کا ماہر تھا۔ اس نے ہیراپھیری سے پندرہ مربع زمین بنائی۔ جو شخص اس کو بلاتے ہوئے پرنس سلیم نہ کہتا یہ اس سے باقاعدہ ناراض ہو جاتا۔ میں نے فوجداری مقدمہ بنا کر دونوں کو جیل بھیج دیا۔ SHO تھانہ واربرٹن سے میں نے سلیم کا حال پوچھا تو فخریہ بولا۔ سراً ’’بڑی گدڑکٹ چاڑی اے۔ باں باں کرن ڈیا‘‘ میں چونکہ پولیس کے طریق کار سے واقف تھا۔ میں نے نائب کورٹ کو خفیہ طور پر تھانے بھیجا۔ اس نے واپس آ کر دلچسپ رپورٹ دی… بولا۔ ملزم سلیم تھانے میں نواری پلنگ پر بیٹھا راوٹیٹِ چپڑ (چپڑی ہوئی روٹیاں) کھا رہا تھا قصہ مختصر دونوں کو نوکری سے نکال دیا۔ انہوں نے اپیل کر دی۔ کمشنر افضل کہوٹ نے جواب مانگا تو میں نے لکھا
THEY HAVE MADE CORRUPTION A SCIENCE , THEY CONSIDER EVERY REVENUE DOCUMENT AS CURRENCY NOTE)
ملزمان کی اپیل خارج ہو گئی۔
اس سے پٹواری کی طاقت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ صدر ایوب نے بھی اپنے گائوں کے پٹواری کو 100 روپیہ رشوت دی تھی جسے مٹھائی کا نام دیا گیا۔ایک پٹواری لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس ذکی الدین پال کی عدالت میں (ARABIC NUMERALS) کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے انہیں غچہ دے گیا اور مقدمہ کا فیصلہ اس کے فریق کے حق میں ہو گیا۔ اس سوئے ہوئے جن کو اپنی اجتماعی قوت کا اندازہ نہیں ہے۔ جس دن یہ بیدار ہو گیا حکومت کے لیے بڑا درد سر بن سکتا ہے لہٰذا اسے غنودگی میں ہی رہنے دیا جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38