قارئین کو یاد ہو گا جب ڈھائی ماہ قبل قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کا اختیار اپوزیشن کے سپرد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ’’ وفاقی حکومت یہ معاملہ اپوزیشن لیڈر پر چھوڑتی ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کر دیں اور اگر وہ خود بھی چیئرمین بننا چاہیں تو حکومت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا،ہم نے قائدِ حزبِ اختلاف کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے کسی بھی شخص کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نامزد کر دیں۔ لیکن اگر آپ خود چیئرمین بننا چاہتے ہیں تو بھی ٹھیک ہے۔ جمہوریت کی بقا کی خاطر اور اس ایوان کو فعال رکھنے کے لیے ہم آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے، حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی کرنی ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے قائمہ کمیٹیوں کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ رہا، اگر پارلیمنٹ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوئی تو اس کی ذمہ داری صرف حکومت پر عائد نہیں ہوگی بلکہ تمام جماعتیں اس کی ذمہ دار ہوں گی‘‘ اس اجازت کے بعد سابق خادم اعلیٰ خود پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بن گئے جس کے بعد بقول حکومت کے وہ کئی معاملات میں اختیارات سے تجاوز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ بتاتا چلوں کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا کام کیا ہے؟ درحقیقت وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ میں جس جس وزارت اور محکمے کو جو پیسے ملتے ہیں اس کی آڈٹ رپورٹ میں اٹھائے گئے اعتراضات کا جائزہ لینا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کام ہوتا ہے۔پبلک اکا ئونٹس کمیٹی مختلف سرکاری محکموں کو دی جانے والی سالانہ گرانٹس اور فنڈز سے متعلق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کو زیر بحث لاتی ہے اور جس ادارے کی سربراہ کو اس ضمن میں طلب کیا جائے تو اسے اس گرانٹ سے متعلق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔مطمئن نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی اس معاملے میں ایف آئی اے یا کسی بھی تفتیشی ادارے کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی ادارے کے سربراہ کو طلب کرسکتا ہے۔سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین خورشید شاہ متعدد بار نیب کے چیئرمین کو بھی طلب کر چکے ہیں۔چونکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کام حکومت کو ملنے والے پیسوں کا حساب کتاب لینا ہوتا ہے، اس لیے ماہرین کے مطابق حکومت کا اپنا چیئرمین ہونا مناسب نہیں۔مسلم لیگ ن کے سابق صدر نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کے مطابق قائد حزب اختلاف کو چئیرمین بنانے کی روایت ڈالی گئی تھی۔ماضی کے تجربات کو سامنے رکھ کر نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت میں یہ شق رکھی تھی کہ اپوزیشن لیڈر کو ہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین حکومت اپنا ہی لگا دیتی تھی، یہی وجہ ہے کہ آج تک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پاکستان میں ادارے کی حیثیت نہیں حاصل کر سکی۔
لہٰذاشاید یہ شق نہیں رکھی گئی تھی کہ اپوزیشن لیڈر پر خواہ کتنے ہی مقدمات کیوں نہ ہوں وہ چیئرمین ضرور بنے گا، مگر ہاں یہ اخلاقیات کا تقاضا ضرور ہے کہ اس سیٹ کا مذاق بنانے کے بجائے اخلاقاََ استعفیٰ دے دینا چاہیے اور دوسری طرف وفاقی کابینہ نے قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے شہباز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ کابینہ کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اپنے منصب کو بدعنوانی کے خلاف مقدمات میں بطور ڈھال استعمال کر رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما جناب رضا ربانی اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما مشاہد اللہ سے منسٹر انکلیو میں رہائش گاہ خالی کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے ان فیصلوں کو اس امر سے تقویت ملتی ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا تین گھنٹے اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد ایئرپورٹ کی تعمیر میں بے ضابطگیوں کا جائزہ لیا گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پیپرا کے ڈائریکٹر جنرل چیختے رہے اور صرف دو منٹ اس مسئلے پر بات کرنے کی درخواست کرتے رہے مگر ان کی کوشش بارآور نہ ہو سکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی کے چیئرمین نے اپنی بھتیجی مریم نواز کے سمدھی پر اسلام آباد ایئرپورٹ کی تعمیر کے منصوبے میں بے ضابطگیوں کے الزامات سے خود ہی بری الذمہ قرار دیدیا ہے۔ منتخب نمائندے کے طور پر اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی یا مجرمانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرنے والے ہزاروں افراد میں سے ایسے بھی ہیں جو صرف اس لیے استعفیٰ دے دیتے ہیں کہ وہ اپنی ذات پر اپنے ووٹروں کے اعتماد کو ہر صورت میں برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخ انسانی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ خود خلفاء راشدین جیسی برگزیدہ حکمران شخصیات نے جوابدہی کے تصور کو اپنی ذات سے الگ نہیں کیا۔ آج کی دنیا میں وہ ممالک جہاں انسانی حقوق کا احترام ہر حالت میں لازم ہے وہاں حکمرانوں اور عمال سلطنت کے کردار میں شفافیت کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت اور جن جمہوری اوصاف نے پرورش پائی وہ ذاتی سطح پر مذہبی اور اخلاقی اصولوں کی پروا نہیں کرتے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی سمیت ایسے سینکڑوں ادارے ہیں جہاں نام کو آئین اور قانون کی بالادستی موجود نہیں۔ یہ ادارے جب کبھی اپنے معاملات میں خلوص نیت سے اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس کام سے روکا جاتا ہے۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کبھی اطمینان بخش نہیں رہی۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے۔ تھانہ کچہری اور پٹوار کی سیاست پڑھے لکھے افراد کی سیاست میں حوصلہ شکنی کے مترادف ہے۔ اس طرح کی حوصلہ شکنی اس وقت مزید بھی شدید ہو جاتی ہے جب سینئر سیاستدان سیاسی و جمہوری روایات کے خلاف کام کرتے ہیں۔
بہرکیف بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا، جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے کے لیے دونوں جماعتوں کے ارکان نے اپنا اپنا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا، عوامی سطح پر اس امر کو خوش آئند قرار دیا گیا۔ گزشتہ برس کے عام انتخابات کے بعد اراکین نے اپنے منصب کا حلف اٹھایا اور اس بات کی تائید کی کہ وہ اپنے فرائض منصبی احسن انداز میں انجام دیں گے۔ وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کی 34قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا۔ حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے عدم تعاون کے باعث قائمہ کمیٹیوں کے معاملے پر پیش رفت میں کئی ماہ تک کامیابی نہ مل سکی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر گزشتہ دو ادوار میں لیڈر آف اپوزیشن کو مقرر کیا گیا۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے اس روایت کی پاسداری سے معذرت کر لی۔ حکومت کا موقف تھا کہ اپوزیشن جماعتیں ایک غیر قانونی عمل کی حمایت کرتے ہوئے ایسے شخص کو پہلے اپوزیشن لیڈر منتخب کر چکی ہیں جس پر کئی مقدمات ہیں۔ ایسے رکن کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانا دراصل اسے ایک ڈھال فراہم کرنا ہے۔
اب موجودہ صورتحال کے مطابق چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی کے خلاف نیب کئی سنگین معاملات میں تفتیش کر رہا ہے۔ یہ اسی جرائم دوست سوچ کا نتیجہ ہے کہ ایسا منظر بھی دیکھا گیا کہ ایک دن نیب کے تفتیش کاروں کے سامنے حاضر ہونے والے شخص نے اگلے دن نیب حکام کو پی اے سی میں طلب کر لیا۔ دنیا کے کسی مہذب اور قانون پسند معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا کہ قانون شکنی، بدعنوانی یا گھپلے پر گرفتار کسی رکن کو گرفتار کرنے والے اداروں کے سربراہوں کو طلب کر کے انہیں رسوا کیا جائے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف اور اس کی حامی جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس وقت تک ایسے ہر قسم کے عہدہ کے لیے نا اہل قرار دیدیا جائے جو عوامی نمائندگی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ سیاسی و جمہوری معاشروں میں ہمیشہ ایسی روایات رہی ہیں کہ احتسابی نوعیت کے اداروں کی سربراہی عموماً ایسے افراد کو دی جاتی ہے جن کی امانت داری و دیانتداری لاریب اور دامن بے داغ ہو، لہٰذا اگر وفاقی کابینہ موصوف کی پی اے سی سربراہی پر معترض اور ان سے اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے تو بظاہر یہ کوئی قابل اعتراض اور غیر منطقی مطالبہ نہیں ہے، سابق وزیر اعلیٰ کو بھی چاہیے کہ وفاقی کابینہ کی تشویش کو ذاتی پسند نا پسند سمجھنے کی بجائے نیب سے اپنی بریت اور خود کو بے داغ ثابت کرنے کے دعوئوں تک اس عہد ے سے الگ رکھیں تا کہ پی اے سی کو پارلیمنٹ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرنے کا موقع مل سکے اور یہ عہدہ اور ادارہ ان کی اور پارلیمنٹ کی جگ ہنسائی کا باعث نہ بن سکے اور پارلیمنٹ کا بھی اصل تقدس بحال ہو سکے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024