45واں یوم شہادت شہدائے لندن
آزاد کشمیر کا ضلع میرپور بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے جو قدیم و جدید تہذیب کا آئینہ دار اور کثیر المقاصد منگلا ڈیم کی تعمیر اور پھر اس کی دوبارہ توسیع اور برطانیہ امریکہ و دیگر یورپی ممالک میں اس ضلع کے تارکین وطن کی قربانیاں تاریخ کا عظیم ورثہ ہیں اور تاریخ کے ان اوراق میں 20فروری 1973ء کا ایک خوبصورت باب ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا 971ء کی جنگ میںجب بھارتی قیادت کی ریشہ دوانی ،مکتی باہنی کی سازشوں اور اپنوں کی غداری سے مملکت خداداد پاکستان کا مشرقی بازو کٹ کر الگ ہوگیا اور اس سانحہ میں نوے ہزار پاکستانی فوجیوں کو بھارت نے جنگی قیدی بنا لیا اور پاکستان کے دوٹکرے ہونے پر برہمن سامراج نے خوشی کے شادیانے بجانے شروع کردیئے ۔پاکستانی قوم سقوط ڈھاکہ پر غم واندوہ سے نڈھال تھی اس کے اور پاکستانی جنگی قیدیوں کے ورثاء کوذہنی کرب واذیت پہنچانے کیلئے بھارتی میڈیا نے انتہائی شرانگیز کردار اداکرنا شروع کردیا او ر روزانہ آل انڈیا ریڈیو کے زریعے پاکستانی جنگی قیدیوں کی خیریت کے پیغامات نشر کرنے شروع کردیئے ۔یہ بڑا کٹھن وقت اور جذباتی مناظر تھے ۔دشمن کی جیلوں میں قید اپنے فوجیوں کی اس طرح مغلوب آوازیں سن کر پوری قوم کی رگوں میں انتقام کا خون دوڑ رہاتھا اور ہر کوئی بدلہ لینے کی ٹھان رہاتھا تو اس دوران برطانیہ میں مقیم ضلع میرپور کے تین نامور سپوتوں میرپور کے علاقہ پلاک کے اٹھارہ سالہ بشارت حسین ،چک دیہاڑا ں ڈڈیال کے سولہ سالہ محمد حنیف اور ان کے تیسرے ساتھی دلاور کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور وہ 20فروری 1973ء بروز منگل صبح ساڑھے نوبجے اپنی معصوم ننھی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر بھارتی ہائی کمیشن کی عمارت کے اندر داخل ہو گئے اور پہلے اس دفتر کے ٹیلیفون منقطع کر کے ہائی کمیشن کے عملہ کو نقلی کھلونا پستولوں سے یرغمال بنا کر یہ نعرہ بلند کیا ’’ پاکستانی قیدی رہا کرو‘‘ ’’ کشمیر سے قبضہ ختم کرو‘‘ اس کاروائی کے دوران ہائی کمیشن کی بالائی منزل سے ایک آفیسر کی بیوی نے کسی طرح پولیس کو مطلع کر دیا جب پولیس موقع پر پہنچی تو حنیف ، بشارت اور دلاور نے پھر اپنے مطالبات نعروں میں دہرائے اور بزدل بھارتی یرغمالی کھلونا پستولوں و مجاہدوں کے نعروں کی للکار سے چیخ چیخ کر بچانے کی دہائی دے رہے تھے۔ برطانوی پولیس نے بھارت نوازی میں وحشیانہ درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گولیاں چلا دیں۔ پہلے بشارت شہید ہوا پھر حنیف سینہ تان کر کھڑا ہو گیا وہ بھی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ان دونوں ساتھیوں کو آنکھوں کے سامنے شہید ہوتا دیکھ کر دلاور بے ہو ش ہو گیا ۔ بشارت اور حنیف کی شہادت پر پورا عالمی میڈیا حرکت میں آگیا۔ آزاد کشمیر میں اور بالخصوص میرپور و برطانیہ کے اندر برطانوی پولیس کی بلا اشتعال فائرنگ اور بلاوجہ دو کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنے پر شدید احتجاج ہوا اور مظاہرے شروع ہو گئے ۔ مظاہرین کا موقف یہ تھا کہ برطانوی ذمہ داروں کو یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ اس واقعہ کے اصل محرکات کیا ہیں۔ برطانیہ میں مظاہروں کے دوران ڈگبتھ ہال برمنگھم میں وہاں کے انگریز لیڈروں و مذہبی پیشوائوں نے بھی اپنی تقریروں میں پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور ان معصوم نوجوانوں کو شہید کرنے کی مذمت کی اور کئی عالمی رہنمائوں ، مختلف ممالک کے نمائندوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے برطانوی پولیس کے ہاتھوں حنیف اور بشارت کی شہادت کوپولیس کی نا اہلی و جلد بازی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اصل محرکات معلوم کیے جانا چاہیے تھے ۔ شہدائے لندن کی اس قربانی اور وطن کی حرمت پر مرمٹنے کے واقعہ کی اطلاع میرپور پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ اہل میرپور سراپا احتجاج بن گئے اور یہاں مختلف جماعتوں ، طلبہ تنظیموں اور معززین شہر کے مشترکہ اجلاس میں ایک نمائندہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے اہم ممبرا ن میں سے غازی الہیٰ بخش ،چوہدری شریف طارق ایڈووکیٹ ،کرنل محمد یوسف ،راجہ محمد اسلم خان،غازی عبدالرحمن ،چوہدری لال خان ،چوہدری فرمان علی اور ڈاکٹر یعقوب ظفر سمیت داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں بیس ممتاز زعماء پر مشتمل اس کمیٹی نے اجتماعی فورم سے حکومت پاکستان و برطانیہ تک اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور مطالبہ کیاکہ حنیف شہید و بشارت و شہید کی میتیں پورے قومی اعزاز سے وطن واپس لائی جائیں اور انہی قائدین کمیٹی کی کوششوں سے شہدائے لندن حنیف اور بشارت کی میتیں یکم مارچ 1973ء کو وطن لائی گئیں تو تمام قافلوں کا رخ راولپنڈی ائیر پورٹ کی جانب تھا میرپور سٹیڈیم میں شہدا کی جنازہ حضرت مفتی عبدالحکیم ؒ نے پڑھائی ۔ شرکاء کی تعداد تیس ہزار سے زائد تھی نماز جنازہ میں وفاقی حکومت پاکستان کی نمائندگی وزراء مولانا کوثر نیازی اور خورشید حسن میر نے کی۔ صدر آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان، سپیکر اسمبلی شیخ منظر مسعود ، چوہدری نور حسین ، غازی الہی بخش ، عبدالمجید ملک، عبدالخالق انصاری اور آزاد کشمیر کے دیگر رہنمائوں نے نماز جنازہ میںشرکت کی۔ بشارت شہیدکی میت ان کے آبائی گائوں پلاک لے جائی گئی جہاں نماز جنازہ حضرت مولانا پیر محمد فاضل ؒ نے پڑھائی ۔ اس دوران پاکستان قومی اسمبلی کے اجلاس میں ممبران اسمبلی ملک محمد اختر (پی پی پی) سردار شوکت حیات خان ( مسلم لیگ ) شیخ محمد رشید( پی پی پی ) اور سید عباس گردیزی نے شہدائے لندن کی جرات و دلیری کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پاکستان سے ان کی والہانہ محبت اور عقیدت کی تعریف کی کہ کشمیری نوجوانوں نے وطن کیلئے جانوں کا نذرانہ دے کر قوم کیلئے مثال قائم کی ہے اور ان ممبران کی تقاریر کے بعد حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ نے شہداء کے ثواب و مغفرت کیلئے خصوصی دعا کرائی جس میں پورا ایوان شامل تھا۔ حنیف شہید کا مقبرہ مرکزی عید گاہ میرپور اور بشارت کا مقبر ہ میرپور ڈڈیال روڈ پر پلاک کے مقام پر تعمیر کئے گئے اور ان شہدا ء کی قربانی کے اعتراف میں پلاک ڈڈیال روڈ کو ان کے اسمائے گرامی سے موسوم کیا گیا اور پلاک کے مقام پر طلبہ کے ہائی سکول کو بشارت شہید کے نام پر جبکہ میرپور میں حنیف شہید کے نام سے گرلز ہائی سکول کلیال کو موسوم کرانے کا صلہ سابق معاون خصوصی وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری محمد اشرف کے سر ہے شہدائے لندن کی قربانی کے واقعہ سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کیلئے جسٹس عبدالمجید ملک اور چوہدری شریف طارق مرحوم نے بہت کام کیا اور گزشتہ دس پندرہ سالوں میںبزرگ صحافی ظفر مغل نے یادیں زندہ رکھیں ۔ بھارتی قید میں پاکستان 93 ہزار قیدیوں کا مقدمہ بین الاقوامی فورم پر لے جانے کیلئے کشمیری سپوتوں نے جانیں دے دیں اور انہوں نے اس شاہراہ شہادت کا راستہ اختیار کیا جس کی راہ 13جولائی 1931ء کو عبدالقدیر اور اس کے ساتھیوں نے سرینگر میں دکھائی تھی ان کشمیری شہداء کے مقبروں پر فاتحہ خوانی اور خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اعلیٰ فوجی و سول آفیسران اور بھارتی قید جوانوں کے ورثاء بڑی تعداد میں میرپور میں آئے بشارت شہید کے بھائی حاجی غلام رسول اور حنیف شہید کے بھائی محمد نواز ہر سال 20سال فروری کو تقریب کو اہتمام کرتے ہیں وہ سرکاری سطح پر ہونا چاہیے اور ان شہداء کیلئے قومی ایوارڈ کا اعلان ہونا چاہیے۔ بشارت شہید اور حنیف شہید ہماری قومی تاریخ کے ماتھے کا خوبصورت جھومر ہیںاگر پورے آزادکشمیر میں یا میرپو ر ڈویژن میں ممکن نہیں ہے تو کم از کم ضلع میرپور کے تعلیمی اداروں میں ہر سال 20فروری کو یوم شہدائے لندن کی تقریبات کاباقاعدہ اہتمام کرکے نئی پود کو قربانیوں کی تاریخ سے آگاہ رکھنا چاہیے اور ضلعی سطح پر جس سرکاری تقریب کی روایت ڈالی گئی تھی وہ بدیں وجہ ختم ہوگئی کہ نئے نئے سرکاری ضلعی آفیسران تاریخ سے آگاہ ہی نہیں اور دوسرے اضلا ع سے تبدیل ہوکر آنے والوںکو سرے سے کوئی غرض ہی نہیں ہے حنیف شہید کے بھائی محمد نواز اور بشارت شہید کے بھائی حاجی غلام رسول ہر سال دعایہ تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں ۔تحریک آزادی کشمیر کے ایک نامور مجاہد نے ایک طویل نظم لکھی جس کا ایک بند یہ ہے ۔
اے میرپور غازیاں شیراں دا
نہیں گدڑاں لومڑاں بھیڑاں دا
اے شیر مرد دلیراں دا
چڑھ سولی پڑھدے الا اللہ
کہو الااللہ جی الااللہ
ہن کھول اکھیں زمیندارا
تیرا لُٹیا گیا گھر سارا