امریکی اتحادی افواج کا افغانستان سے انخلاء
مکرمی! پاکستان کو طاقتور بنانے سے ہی بیرونی قوتوں کے خطرات سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ بہادر اپنی اتحادی افواج کے ساتھ گزشتہ 16 سال سے ہمارے ہمسایہ ملک ‘ افغانستان میں ڈیرے ڈالے‘ براجمان بیٹھا ہے۔ اس کی بڑی وجہ مئی 1998ء میں یہاں اس وقت کی جمہوری حکومت نے۔ امریکی حکمرانوں کی خواہشات کو مستردکر کے‘ بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کامیابی سے کر کے ان کی برتری اور بلند بانگ دعوؤں پر مبنی دفاع بالادستی کے تاثرات کو زمین بوس کر دیا تھا۔ اس طرح تنازعہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد پاس کردہ قراردادوں کے مطابق اہل کشمیر کو حق خودارادیت ‘ فراہم کرنے کا مطالبہ حکومت پاکستان کی جانب سے مسلسل شد و مد سے کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کا عرصہ 72 سال قبل قیام ‘ محروم انسانوں کو آزادی کے بنیادی حق کی فراہمی کے لئے اور رکن ممالک کے علاقائی تحفظ و سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر عمل میںلایا جائے گیا تھا۔ 1945ء میں امریکہ بہادر سمیت اس کے بنیادی رکن ممالک کی تعداد 51 تھی۔ جو رفتہ رفتہ بڑھ 193ء ہو گئی ہے۔ اس عرصے کے دوران ‘ عالمی سطح پر ہر شعبۂ حیات میں متعدد تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں لیکن اہل کشمیر کو اپنی آزادی کی عظیم نعمت تاحال نصیب نہیں ہو سکی۔ اس کوتاہی اور عدم توجہی پر دیگر بڑی طاقتوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرانا حصول انصاف کا ہی تقاضا ہے۔ بدقسمتی سے فلسطین کے لوگ بھی تقریباً اتنی مدت سے ہی اپنی آزادی کے لئے قیمتی جان و مال کی مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ لیکن ان دونوں انسانی طبقوں کا مشترکہ قصور مسلمان ہونا ہے۔ جو آج تک مقتدر عالمی قوتوں کو قابل قبول نہیں ہو سکا۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے منشور میں ایسی کوئی رکاوٹ اور قباحت موجود نہیں تھی جس کے تحت اہل کشمیر اور فلسطین کے عوام کو آزادی کے بنیادی حق کے حصول سے کوئی قوت انکار یا انحراف کر سکے۔ ان حقائق سے ظاہر ہے کہ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ بھی حقوق انسانی کی فراہمی میں اپنے پیشرو ادارے‘ لیگ آف نیشنز کی طرح اپنے بنیادی مقاصد کے حصول میں کج روی اور ناانصافی کی ڈگر پر چل رہا ہے۔
(مقبول احمد قریشی ایڈووکیٹ)