کیا ایم کیو ایم بکھر رہی ہے؟
متحدہ قومی موئومنٹ پاکستان گوکہ پوری طرح اپنے آپ کو مستحکم نہیں کرپائی اور وقتاً فوقتاً لڑکھڑا رہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں سنسنی خیز موڑ اُس وقت آیا جب 6فروری کو سینیٹ الیکشن کیلئے نامزد اُمیدواروں کیلئے نام سامنے آئے جس پر ایک نیا وا ویلا کھڑا ہوگیا۔ جس میں ایک طرف موجودہ ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار تھے تو دوسری طرف تقریباً پوری رابطہ کمیٹی اور سینئر ارکان شامل ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار ڈیڑھ برس قبل متحدہ جوائن کرنے والے پارٹٰ کے ڈپٹی کنوینر کامران ٹیسوری کو سینیٹر بنانے پر ڈٹے ہوئے ہیں تو رابطہ کمیٹی اور سینئر اراکین کا موقف ہے کہ کامران ٹیسوری کو سینیٹر بنانے سے پرانے کارکنان میں احساس کمتری پیدا ہوگا اور اُن کی جدوجہد کو فراموش کرنے کے مترادف ہے۔
رابطہ کمیٹی کا یہ موقف حق بجانب بھی نظر آتا ہے۔ کیونکہ متحدہ قومی موئومنٹ کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ کارکنان اور نچلے طبقے کے لوگوں کو ہی اسمبلیوں میں بھیجا ہے جن کی پارٹی کیلئے خدمات اور قربانیاں ہیں۔ اب اس موقع پر ڈیڑھ برس قبل پارٹی میں شامل ہونے والے کامران ٹیسوری جنہیں پہلے سندھ اسمبلی کی نشست کیلئے نامزد کیا گیا جہاں وہ ہارگئے، اس کے بعد اُنہیں ڈپٹی کنوینر بناکر پرانے کارکنان کی حق تلفی کی گئی اور اب اور آگے جاکر انہیں سینیٹ الیکشن کیلئے امیدوار نامزد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے اور اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ فاروق ستار کامران ٹیسوری کی حمایت میں اس طرح ڈٹ گئے کہ ان کے تمام پرانے ساتھی اور مرکزی رہنماء پارٹی سربراہ سے نالاں ہوگئے اور اپنے الگ سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرادئیے۔
ایک وقت تھا کہ جب ایم کیو ایم میں ون مین شو ہوا کرتا تھا اور ان کے فیصلوں پر سب سرتسلیم خم کرتے تھے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ڈاکٹر فارو ق ستار بہت سینئر رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ دھیمے مزاج کے مدبر سیاستدان ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا پارٹی پر کبھی کنٹرول نہیں رہا۔ انہوں نے 23 اگست کے بعد کچھ ایسے فیصلے بھی کئے جن سے پارٹی رہنما ہی نالاں نظر نہیں آتے بلکہ سیاست و صحافت کے طالبعلم اور عام پاکستانی بھی حیران و پریشان نظر آتے ہیں۔
سب سے بڑا دھچکا تو ایم کیو ایم کو یہ لگا کہ اس کے رکن قومی و صوبائی اسمبلی پارٹی چھوڑ کر مصطفی کمال کے ہم نوا بنتے گئے اورفاروق ستار نے اس پر بندھ باندھنے کی کوشش نہیں کی۔ اور اس سے سبق بھی کوئی حاصل نہیں کیا اگر اس سے سبق حاصل کرلیتے تو وہ کامران ٹیسوری کے معاملے میں رابطہ کمیٹی کو ناراض کرنے کا خطرہ کبھی مول نہ لیتے۔ نومولود رہنما کیلئے وہ پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کو کبھی اپنے سے دور نہیں کرتے۔ اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ مہاجر ووٹ جس کے بل پر ایم کیو ایم ہمیشہ کامیاب رہی ہے وہ رواںسال ہونے والے الیکشن میں کامیاب ہوپائے گی؟ اور یقینا ایسا بہت مشکل اور شاید ناممکن نظر آرہا ہے۔ طفل مکتب ہونے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم کے ٹکڑے ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ صرف اور صرف پاکستان پیپلز پارٹی کو ہی حاصل ہوگا اس کی مثال ہم ملیر کے ضمنی انتخاب میں پی پی کے نمائندے کی کامیابی کو پیش کرنے میں حق بجانب بھی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ متحدہ قومی موئومنٹ کے تمام دھڑے الیکشن میں متحد نظر آئیں گے یا اسی طرح ٹکریوں میں ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اتحاد نہ کرنے سے مہاجر ووٹ تقسیم ضرور ہوجائے گا اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا۔ اس وقت سوچنے کی ضرورت ہے کہ سندھ اسمبلی میں 51 ، قومی اسمبلی میں 25 اور سینیٹ میں تقریباً 10 نشستیں ہونے کے باوجود اس پارٹی کو دیوار سے لگانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے تو جب ان کے پاس نمائندگی ہی نہیں ہوگی تو کیا حال ہوگا۔ گذشتہ ہفتے کراچی میں لیاری ایکسپریس وے کے افتتاح کے موقع پر میئر کراچی کو بلایا ہی نہیں گیا۔ یہ سب باتیں ایم کیو ایم کے رہنمائوں کوسوچنی چاہئیں۔ یہاں تھوری سی بات مصطفی کمال کی بھی کردیں وہ اس پورے معاملہ میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔انہیں شاید یہ اُمید ہوچلی ہے یا اُمید دلادی گئی ہے کہ یہ ناراض سینئر اراکین بہت جلد اُن کے ہم نوا بننے والے ہیں۔