میں ان کے پاس شام ڈھلے پہنچا، مریضوں کا رش لگا ہوا تھا۔ مختلف کمروں میں تین چار ڈاکٹر انہیں دیکھ رہے تھے، جتنے مریض فارغ ہوتے، اتنے ہی مزید آ جاتے، میں حیران رہ گیا، ان سب کی مفت تشخیص ہو رہی تھی اور انہیں دوائیں بھی مل رہی تھیں، میں ڈاکٹرا ٓصف جاہ کے کمرے میں داخل ہوا، وہ بھی مجھے اس اندھیرےے میں اپنے پاس پہنچنے پر حیران رہ گئے ا ور سمجھ گئے کہ کسی ایمر جنسی میں ہوں مگر وہ ٹیلی فون پر مصروف تھے، جیسے ہی ادھر سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے کہ ترکی میں شامی مہاجرین کے لئے امدادی سامان بھیجا ہے، خیمے ہیں ، گرم کپڑے اور کھانے پینے کی اشیا ہیں اور ادویات بھی۔ مگر سارا سامان کسٹم پر پھنساہو اہے، کہنے لگے کہ کسٹم والے ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ شک کی نظروں سے دیکھنا ان کی عادت بن گئی ہے ۔آصف جاہ خود بھی کسٹم کے اعلی افسر ہیں اور اس محکمے کو اندر سے جانتے ہیں۔ ترکی میں کسٹم والے حیران تھے کہ پاکستان سے شامیوں کے لئے سامان آ گیا ہے، یہ غیر معمولی بات تھی۔، اس لئے کہ پہلی بار کسی نے پاکستان سے سامان بھیجا تھا ورنہ اگر کوئی شامیوں کی امداد کے لئے جاتا بھی ہے تو نقدی ساتھ لے جاتا ہے اور ترکی سے سامان خرید کر تقسیم کر دیتا ہے مگر آصف جاہ نے سامان پاکستان سے خریدا ہے یاا نہیں عطیات میں ملا ہے تو یہ سستا پڑا ہے۔اور اس سے زیادہ مہاجرین کی امداد ہو سکے گی۔
میں دنگ رہ گیا، آصف جاہ کہاں کہاںنہیں گئے، انڈونیشیا میں زلزلہ آیا تو وہاں بھی جا پہنچے، برما میںمسلمانوں پر قیامت ٹوٹی تو ان کی دستگیری میں بھی پہل کی۔ پاکستان میں دو ہزار پانچ کے زلزلے پر تو ان کی کتاب آ چکی کہ کن کٹھن حالات میںانہوں ے زلزلہ زدگان کی مدد کی، اسی طرح آواران کے زلزلے میں جان خطرے میں ڈالی، بلوچ شر پسند تو کسی غیرکو اپنے علاقے میں گھسنے نہیں دیتے، فلاح انسانیت کے سربراہ کو انہوں نے رات بھر قید میں رکھا،مگر آصف جاہ نے وہاں مصیبت کے ماروں کو دوائیں دیں، ان کا مفت علاج کیا، امدادی سامان الگ دیا اور پھر ملبے کے ڈھیر پر ایک ا سکول کھڑا کر دیا،شر پسندوں کو ان کے جذبے کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔تھر میں بچے بھوک اور پیاس اور سوکڑے سے مرنے لگے تو آصف جاہ نے اس ویرانے کا رخ کر لیا اور وہاں میٹھے پانی کے کنویں کھودے، متاثرین کو ان کی پسند کے کڑھائی والے سوٹ دیئے، یہ زیادہ تر ہندو تھے۔ وہ تو ڈاکٹر صاحب کے فریفتہ ہوگئے اور کنویں کھودنے اور سامان آگے بھجوانے میں ان کے ساتھ جت گئے، یوں جذبوں کے چراغ روشن ہوتے چلے گئے ۔ چترال اور گلگت میں سیلاب نے قیامت برپا کی تو ڈاکٹر آصف جاہ اور ان کی ٹیمیں وہاں بھی مصروف عمل ہو گئیں، کئی کٹھن مقامات پر اترتے چڑھتے ڈاکٹر صاحب پھسلتے پھسلتے بچے، وہ پہاڑی نہیں بلکہ میدانی مخلوق ہیں اور ان کے لڑھکنے کی تصویریں فیس بک پر آ گئیں، میں ہمیشہ حیران ہوتا رہا کہ ڈاکٹر صاحب کو کونسا کیڑا چین نہیں لینے دیتا، میںکیا جانوں کہ خدمت انسانیت میں کیا لطف آتا ہے، قلم چلا لینا تو انسانیت کی کوئی بڑی خدمت نہیں،اصل خدمت وہ ہے جو آصف جاہ ا اور ان کی کسٹم کیئر ہیلتھ سوسائٹی انجام دے رہی ہے اور اس خدمت میں ہر جگہ، ہر آفت میں، پیش پیش دکھائی دیتی ہے۔وہ عمران خان کی طرح اپنی ماں کے نام پر چندہ نہیںمانگتے، کئی ا ور این جی اوز بھی اپنی ماﺅں کا نام روشن کر نے کے لئے چندے اکٹھے کرتے ہیں مگر آصف جاہ ہر صلے اور ہر ستائش سے بے نیاز ہیں ، قوم نے ان کو بہرحا ل صلہ دیا، اور ستارہ امتیاز سے نوازا کہ وہ ہر قدرتی آفت میں انسانیت کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے ستارہ امتیاز کے امتیاز کو جلا بخشی ہے اور وہ عالمی سطح پر سرگرم عمل ہو گئے ہیں، شامی مہاجرین دنیا بھر میں بے یارو مددگار پھرتے ہیں، ان پر کئی ملکوںنے اپنی سرحدیں بندکر دی ہیں حالانکہ اقوام متحدہ کا چارٹر مہاجرین کا راستہ روکنے کی ممانعت کرتا ہے۔ترکی نے اپنے دروازے ان کے لئے کھول دیئے ہیں۔شام ایک بد قسمت ملک ہے، چند برس پہلے تک اس کی قسمت پر رشک کیا جا سکتا تھا، مگر اچانک بلاﺅںنے اس ملک کا رخ کر لیا اور پھر امریکہ، نیٹو، روس کے طیارے بموں کی بارش کرنے لگے، آگ لگانےو الے بم، مہلک گیسوں اور جراثیموں سے آلودہ بم۔شامیوں پر ان کی اپنی سرزمین تنگ ہو گئی، وہ در بدر بھٹکنے پر مجبور ہو گئے۔شامی بچوں کی حالت تو دیکھی نہیں جاتی، وہ اپنے والدین سے بچھڑ چکے ہیں، انہیںممتا کی یاد ستاتی ہے، بہن بھائیوں کے چہرے ان کی آنکھوںکے سامنے گھوم جاتے ہیں ، یہ سب مہلک کیمیاوی بموں کا نشانہ بن چکے، اور اب مہاجرین کا تعاقب کرنے کے لئے موسم سب سے آگے ہے، منفی بیس سنٹی گریڈ کی سردی، بھوک اور پیاس ، نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
ڈاکٹرا ٓصف جاہ نے پاکستان میں شامی مہاجرین کے لئے امدادی سامان کی ترسیل میں پہل کی ہے، مجھے امید ہے کہ ترکی کسٹمز والوںنے ان کے جذبے کی قدر کی ہو گی ا ور سامان کلیئر کر دیا ہو گا اور یہ سامان ضرورت مند شامیوں میں تقسیم ہو رہا ہو گا، ڈاکٹر صاحب خود بھی ترکی جانے کاا رادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ بیماری میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کر سکیں ۔ شاید چلے بھی گئے ہوں۔وہ بے چین نہیں بیٹھ سکتے۔
مجھے یادا ٓیا کہ پاکستان میں شمالی علاقوں کے زلزلے کے بعد سب سے بڑی آفت سیلاب کی تھی جس نے پورے پاکستان کو متاثر کیا تھا، ڈاکٹر صاحب نے کمر ہمت باندھی اور پشاور سے شروع ہو کر بدین تک گھوم گئے، سیلاب زدگان کے لئے جس بڑے پیمانے پر انہوں نے مدد کی، وہ اپنی جگہ پر ایک ریکارڈ ہے، میں تو اسے ہی ا ن کے لئے ستارہ امتیاز خیال کرتا ہوں۔ اس سیلاب میں انہوں نے لوگوں کوگھر بنا کر دیئے، مسجدیں آباد کیںا ور اسکولوں کو نئی بنیادوں پر کھڑا کیا۔ اور ستارہ ا متیاز کیا ہو تا ہے، عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں۔کہکشاں کے ستاروں کی دودھیا روشنی بھی اس ستارہ امتیازکے سامنے ہیچ ہے۔
میں ڈاکٹر صاحب کو تا دیر دیکھتا رہا، وہ مریضوں کی نبض کو ٹٹولتے، ایک ڈاکٹری آلے سے ان کے سینے کی حالت کا معائنہ کرتے، باتوں باتوں میں ان کی بیماری کی ہسٹری جانتے ا ور پھر تسلی دیتے کہ وہ نئی دوا سے بہت جلد شفا یاب ہو جائیں گے، مریض کے لئے ڈاکٹر کی تسلی، دوا سے بڑھ کر اکسیر ہوتی ہے۔
اب دیکھئے کہ ڈاکٹر آصف جاہ دکھوں کے مارے اور عالمی لشکروں کے سامنے ہارے ہوئے شامی مہاجرین کو کیسے تسلی دلاتے ہیں۔ شاید ان کے پاس کوئی ایسا نسخہ کیمیا بھی ہو جو اس امت کے دکھ درد کا درماں بھی کر سکے جس کا انگ انگ دکھ رہا ہے اورتار تار ہے۔