”مسائل“ کے حل کے لئے تمام قوتیں ایک ساتھ اور ایک ہی کردار ادا کرنے کے لئے سردر کف کی جا رہی ہیں۔ صدر مملکت میدان میں اتر آئے ہیں اور اب تک مولانا فضل الرحمٰن‘ حضرت الطاف حسین‘ اعلیٰ حضرت پیر پگاڑا‘ جناب فاروق ستار‘ جناب اسفند یار ولی خان‘ چودھری پرویز الہٰی‘ جناب شیر پاﺅ اور جناب مٹی پاو سے فون پر بات کر کے انہیں ”سر جوڑ کر“ بیٹھنے کی دعوت دے چکے ہیں! اور ”گول میز“ بچھائے جانے سے پہلے ہی ”سرفروشی“ پر آمادہ کر چکے ہیں! اب یہ تمام حضرات ”گول میز کانفرنس“ میں خالی ہاتھ شریک ہوں گے اور اپنی اپنی نشست کے سامنے دھرے ہوئے ”سر“ پہچان کر اور اسے اپنا ”سر“ گردان کر اپنے اپنے دھڑ پر سجا لیں گے۔
یہ زیر غور ”مسائل“ بہرطور اور بہر نوع پاکستانی عوام کے ”نو بہ نو“ مسائل تو کسی طرح بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ پاکستانی عوام کے مسائل پر غور کرنے کے لئے نہ تو ہمارے ”سر“ میں ”دماغ“ ہے نہ ہی ”دل“ میں ”فراغ“\\\' نہ تو ہماری باقی ماندہ مدت کار میں ”مہلت استغراق“ ہے‘ نہ ہی ”فرصت استدراک“ جیب میں دام نہیں اور خزانے میں پھوٹی کوڑی نہیں! لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ یہ ہرجا خرچا کسی اور ہی مد میں اٹھایا اور یہ سوانگ کسی اور ہی ڈھنگ رچایا جا رہا ہے۔ یہ تو ہمارے پیر سائیں جناب گیلانی ہی جانتے ہوں گے کہ جناب کیمرون منٹر نے جناب آصف علی زرداری کے کان میں کس زور کا جادو پھونکا کہ ان کے ساتھ ساتھ انہیں بھی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھنا پڑا۔
بات کچھ یوں لگتی ہے کہ امریکی سرزمین کے قانون کے مطابق سر ریمنڈ ڈیوس ”کرائم سین“ یا ”جائے واردات سے فرار ہوتے ہوئے ایک اور غیر متعلق انسان کو روندتے چلے گئے اور یوں ایک کرائم سین سے فرار کے دوران دوسرے کرائم سین سے بھی ”مفرور“ قرار پا گئے مگر وہ امریکی شہری ہونے کے نشے میں بدمست ہونے کے ناتے اپنے ”جرائم“ کا ادراک ہی نہیں کر سکے! اور دونوں وارداتوں کے ”مواقع“ سے درانہ گزرتے چلے گئے! امریکی قانون کے مطابق اگر کوئی ”نشے کی حالت میں“ گاڑی چلاتے ہوئے کوئی ایسا حادثہ کر بیٹھے جس میں ”جانی اتلاف“ واقع ہو جائے تو اسے ”سزائے موت“ یعنی ”قید تاحیات“ دے دی جاتی ہے اور وہ جیل سے لاش کی صورت میں ہی ورثا تک پہنچ پاتا ہے! خواہ یہ نشہ ”امریکی شہری ہونے کا نشہ“ ہی ہو اور گاڑی کے نیچے آنے والا خواہ کوئی ”سیاح“ ہی ہو!
پاکستان میں قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے ہر روز سکول جانے والے بچوں اور بچیوں کو روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں لیکن ان سے کچھ پوچھنے کے مجاز لوگ آنکھ اٹھا کر ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور اگر کوئی انہیں پکڑ کر تھانے پہنچا بھی دے تو وہ اگلے روز ”ضمانت“ پر رہا ہو جاتے ہیں۔ ہر چودھری اس سرزمین پر اپنا حق جتاتا ہے مگر اس سرزمین کا قانون اپنے آپ پر لاگو ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا! لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پنجاب پولیس ”سر ریمنڈ ڈیوس“ کے لئے امریکی سفارت خانے کے مجوزہ نام ”چودھری ریمنڈ ایان“ قبول کر لے تو اسے چودھری ایان کے آگے گھٹنے ٹیک دینے میں کوئی دشواری نہیں رہے گی اور ہمارے وزیراعلیٰ اور گورنر کے ساتھ ساتھ ہمارے وزیراعظم اور صدر کو اجتماعی طور پر گھٹنے ٹیکنے کی زحمت سے بھی بچا لے جائے گی۔ رہ گئے یہ تین لوگ اور ایک سوگوار عورت کا خون تو یہ محض رزق خاک تھا‘ سو‘ ہو گیا! ہم سمجھیں گے کہ ”چودھری ایان“ ایک ”مقامی ڈرون“ تھا اور حسب معمول ”کیڑے مکوڑے“ روندتا پھر رہا تھا!
”چودھری ایان“ کے کھل کھیلنے کی ”مہک“ عام ہوتے ہی ”گول میز کانفرنس“ کا چرچا بھی ”چہک“ اٹھا اور اب پاکستان کے تمام چودھری سر جوڑ کر مل بیٹھیں گے اور ”چودھری ریمنڈ ایان“ کی ”پگ کا داغ“ دھونے کے لئے وہ وہ حربے آزمائیں گے کہ ہمیں اپنے ”چودھری“ امریکہ اور پاکستان کی دوہری شہرت کے حامل دکھائی دینے لگیں گے! حتٰی کہ ”گول میز“ ہمارے ”چوکور چہروں“ کا آئینہ دکھائی پڑنے لگے گی!
یہ زیر غور ”مسائل“ بہرطور اور بہر نوع پاکستانی عوام کے ”نو بہ نو“ مسائل تو کسی طرح بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ پاکستانی عوام کے مسائل پر غور کرنے کے لئے نہ تو ہمارے ”سر“ میں ”دماغ“ ہے نہ ہی ”دل“ میں ”فراغ“\\\' نہ تو ہماری باقی ماندہ مدت کار میں ”مہلت استغراق“ ہے‘ نہ ہی ”فرصت استدراک“ جیب میں دام نہیں اور خزانے میں پھوٹی کوڑی نہیں! لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ یہ ہرجا خرچا کسی اور ہی مد میں اٹھایا اور یہ سوانگ کسی اور ہی ڈھنگ رچایا جا رہا ہے۔ یہ تو ہمارے پیر سائیں جناب گیلانی ہی جانتے ہوں گے کہ جناب کیمرون منٹر نے جناب آصف علی زرداری کے کان میں کس زور کا جادو پھونکا کہ ان کے ساتھ ساتھ انہیں بھی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھنا پڑا۔
بات کچھ یوں لگتی ہے کہ امریکی سرزمین کے قانون کے مطابق سر ریمنڈ ڈیوس ”کرائم سین“ یا ”جائے واردات سے فرار ہوتے ہوئے ایک اور غیر متعلق انسان کو روندتے چلے گئے اور یوں ایک کرائم سین سے فرار کے دوران دوسرے کرائم سین سے بھی ”مفرور“ قرار پا گئے مگر وہ امریکی شہری ہونے کے نشے میں بدمست ہونے کے ناتے اپنے ”جرائم“ کا ادراک ہی نہیں کر سکے! اور دونوں وارداتوں کے ”مواقع“ سے درانہ گزرتے چلے گئے! امریکی قانون کے مطابق اگر کوئی ”نشے کی حالت میں“ گاڑی چلاتے ہوئے کوئی ایسا حادثہ کر بیٹھے جس میں ”جانی اتلاف“ واقع ہو جائے تو اسے ”سزائے موت“ یعنی ”قید تاحیات“ دے دی جاتی ہے اور وہ جیل سے لاش کی صورت میں ہی ورثا تک پہنچ پاتا ہے! خواہ یہ نشہ ”امریکی شہری ہونے کا نشہ“ ہی ہو اور گاڑی کے نیچے آنے والا خواہ کوئی ”سیاح“ ہی ہو!
پاکستان میں قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے ہر روز سکول جانے والے بچوں اور بچیوں کو روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں لیکن ان سے کچھ پوچھنے کے مجاز لوگ آنکھ اٹھا کر ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے اور اگر کوئی انہیں پکڑ کر تھانے پہنچا بھی دے تو وہ اگلے روز ”ضمانت“ پر رہا ہو جاتے ہیں۔ ہر چودھری اس سرزمین پر اپنا حق جتاتا ہے مگر اس سرزمین کا قانون اپنے آپ پر لاگو ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا! لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پنجاب پولیس ”سر ریمنڈ ڈیوس“ کے لئے امریکی سفارت خانے کے مجوزہ نام ”چودھری ریمنڈ ایان“ قبول کر لے تو اسے چودھری ایان کے آگے گھٹنے ٹیک دینے میں کوئی دشواری نہیں رہے گی اور ہمارے وزیراعلیٰ اور گورنر کے ساتھ ساتھ ہمارے وزیراعظم اور صدر کو اجتماعی طور پر گھٹنے ٹیکنے کی زحمت سے بھی بچا لے جائے گی۔ رہ گئے یہ تین لوگ اور ایک سوگوار عورت کا خون تو یہ محض رزق خاک تھا‘ سو‘ ہو گیا! ہم سمجھیں گے کہ ”چودھری ایان“ ایک ”مقامی ڈرون“ تھا اور حسب معمول ”کیڑے مکوڑے“ روندتا پھر رہا تھا!
”چودھری ایان“ کے کھل کھیلنے کی ”مہک“ عام ہوتے ہی ”گول میز کانفرنس“ کا چرچا بھی ”چہک“ اٹھا اور اب پاکستان کے تمام چودھری سر جوڑ کر مل بیٹھیں گے اور ”چودھری ریمنڈ ایان“ کی ”پگ کا داغ“ دھونے کے لئے وہ وہ حربے آزمائیں گے کہ ہمیں اپنے ”چودھری“ امریکہ اور پاکستان کی دوہری شہرت کے حامل دکھائی دینے لگیں گے! حتٰی کہ ”گول میز“ ہمارے ”چوکور چہروں“ کا آئینہ دکھائی پڑنے لگے گی!