پاکستان اور بھارت آئندہ ماہ امن مذاکرات شروع کرنے پر رضا مند ۔۔۔ مسئلہ کشمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس کا معاملہ گول
اسلام آباد (ریڈیو مانیٹرنگ + وقت نیوز + ایجنسیاں + نیٹ نیوز) پاکستان اور بھارت امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ پاکستان بھارت مذاکرات آئندہ ماہ شروع ہونگے۔ ذرائع کے مطابق جامع مذاکرات میں شامل تمام 8 نکات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ یہ مذاکرات جون تک جاری رہیں گے جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھارت کا دورہ کریں گے۔ پاکستان اور بھارت نے مذاکرات کے ٹائم فریم پر بھی اتفاق کیا ہے۔ مذاکرات مختلف مراحل میں مختلف گروپس کے درمیان ہونگے۔ سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے بھوٹان کے شہر تھمپو میں بھارتی رہنماﺅں کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے وزیراعظم کو بریفنگ دی۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا عمل 2008ءمیں معطل ہو گیا تھا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کیلئے خیرسگالی کا اظہار کیا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا۔ سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہا کہ جموں و کشمیر، دہشت گردی، سیاچن، سرکریک، پانی کی تقسیم اور دیگر تمام معاملات پر بھارت کے ساتھ تسلسل کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے جائیں گے‘ اس کیلئے ایک ترتیب وار لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔ آنے والے مذاکرات کسی ایک فریق کیلئے یکطرفہ فائدہ اور دوسرے فریق پر سبقت لینے کی نیت سے نہیں ہونے چاہئے۔ ایک انٹرویو کے دوران سلمان بشیر نے اس بات کی وضاحت کی کہ بھارت اور پاکستان نے آنے والے دنوں میں تمام حل طلب معاملات پر مذاکرات کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ زیر بحث آنے والے معاملات کی ترتیب سے کسی ایک فریق کو زیادہ فائدہ یا دوسرے فریق پر سبقت حاصل ہونی چاہئے اور نہ ہی بات چیت اس نیت سے کی جانی چاہئے کہ ایک فریق دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ سلمان بشیر نے اس بات پر زور دیا کہ بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھانے کیلئے سازگار ماحول تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ”ہمیں تلخیوں اور رسہ کشی سے ماحول کو اچھائی میں تبدیل کرنا ہو گا، ابھی تک ہمیں کامیابی ملی ہے اور آگے بھی کامیابی کی امید ہے“۔ یہ پوچھے جانے پر کہ پاکستان حل طلب مسائل پر آئندہ بات چیت کیلئے کس طرح کی ترتیب پسند کرے گا؟ سلمان بشیر نے بتایا ”ہم اس طرح سے کام کر رہے ہیں کہ یہ کسی ایک فریق کیلئے دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے مترادف نہ ہو۔ وہ اور ان کی بھارتی ہم منصب سنجیدگی سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ خلوص نیت کے ساتھ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان سے اتفاق کرتے ہیں کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو پاکستان کے ساتھ امن عمل میں دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں ہے؟ پاکستانی خارجہ سیکرٹری نے کہا ”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا“۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت نے مذاکرات بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے‘ پاکستان نیک نیتی سے تعلقات میں بہتری چاہتا ہے‘ بھارت کے ساتھ مذاکرات غیر مشروط ہوں گے۔ مذاکرات کی بحالی مثبت پیش رفت ہے‘ پاکستان مذاکرات کا خیرمقدم کرتا ہے‘ اس خطہ میں امن اور خوشحالی آئے گی۔ پاکستان نیک نیتی سے چاہتا ہے کہ دونوں ملک اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ عبدالباسط نے کہا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جولائی میں بھارت کا دورہ کرینگے۔ جس میں پاکستان بھارت مسائل پر بات چیت ہو گی‘ مذاکرات کی تاریخ کا تعین سفارتی سطح پر کیا جائیگا۔ میڈیا کو بریفنگ دیتے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت نے دو طرفہ مسائل پر بات چیت پر اتفاق کر لیا ہے۔ تمام ایشوز پر مذاکرات کئے جائیں گے۔ وزیر خارجہ کے دورے سے قبل سیکرٹریز خارجہ ملاقات کرینگے۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + نیٹ نیوز) دفتر خارجہ کے جاری بیان مےں مذاکرات کے جن موضوعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس سے پہلے جامع مذاکرات کا حصہ تھے لیکن جامع مذاکرات مےں مسئلہ کشمیر کو مرکزی موضوع کی حیثیت سے نہ سہی لیکن الگ ایشو کے طور پر زیر بحث لایا جاتا تھا نئے مذاکراتی سلسلے مےں ”مسئلہ کشمیر“ کا کوئی تذکرہ نہیں بلکہ صرف کشمیر پرامن و سلامتی کے ذیلی موضوع کی طور پر بات کی جائے گی۔ اس حوالے سے لفظ مسئلہ کشمیر کی بجائے جموںو کشمیر کی اصطلاح اختیار کی گئی ہے۔ برسوں سے جاری پاکستان بھارت بات چیت کو ”جامع مذاکرات“ کا نام دیا جاتا تھا لیکن اس بار یہ کسی ایسے عنوان سے محروم ہےں جس سے اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ ہونے والی بات چیت کو پائیدار اور ادارہ جاتی مذاکراتی سلسلے کی حیثیت حاصل نہیں ہوگی، مسئلہ کشمیر کا حل ان مذاکرات کے ایجنڈے مےں شامل نہیں۔ دفتر خارجہ کے جاری کئے گئے بیان مےں بتایا گیا ہے کہ جولائی 2010ءمےں پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات کا عمل آگے بڑھانے کےلئے دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں نے چھ فروری کو بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو مےں باہم ملاقات کی۔ دونوں خارجہ سیکرٹریوں نے اس ملاقات کے نتائج کے بارے مےں اپنی حکومتوں کو آگاہ کر دیا جن کے مطابق چار نکات پر اتفاق ہوا یہ طے پایا کہ قبل ازیں تھمپو مےں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے جذبے کے تحت پاکستان اور بھارت تمام مسائل پر مذاکرات کے سلسلے کو بحال کریں گے۔ مذاکراتی سلسلے مےں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینے کےلئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی رواں سال جولائی مےں بھارت کا دورہ کریں گے۔ اس دورے سے قبل دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری باہم ملاقات کریں گے لیکن اس مجوزہ ملاقات کی تاریخ اور مقام کا نہیں بتایا گیا یہ بھی طے پایا کہ وزرائے خارجہ کی ملاقات سے قبل سیکرٹریوں کی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان انسداد دہشت گردی بشمول ممبئی حملوں پر پیشرفت، انسانی حقوق، امن و سلامتی جس مےں جموں و کشمیر پر اعتماد سازی کے اقدامات، دوستانہ تعلقات کے فروغ اور سیاچن کے موضوعات بھی شامل ہوں گے، معاشی امور کی ذیل مےں وولربیراج اور ایڈیشنل سیکرٹریوں کی سطح پر سرکریک کے مسئلہ پر مذاکرات ہوں گے۔ ان تمام مذاکرات کی تاریخوں کا تعین سفارتی ذرائع سے کیا جائے گا۔ دفتر خارجہ کے نہایت احتیاط سے تیار کئے گئے بیان مےں ”مسئلہ کشمیر“ کا لفظ کہیں استعمال نہیں کیا گیا اس کے بجائے جموں و کشمیر کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ بیان کے مطابق ممبئی حملوں پر تو بات ہوگی لیکن سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کا بھی ذکر نہیں۔ امن و سلامتی کے موضوع پر اس سے قبل روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کے موضوعات پر الگ الگ بات ہوتی تھی کیونکہ پاکستان اور بھارت کی روائتی فوجی قوت مےں بہت زیادہ عدم توازن ہے۔ واضح نہیں کہ اب یہ موضوع زیر غور آئے گا یہ نہیں۔ اس بیان سے ایک بات واضح ہے کہ کنٹرول لائن پر تجارت سمیت کشمیر پر دونوں ملکوں نے اعتماد سازی کے جو اقدامات کئے ہےں وہی اب بھی زیر غور آئیں گے۔ بی بی سی کے مطابق لفظ کمپوزٹ مذاکرات استعمال کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + نیٹ نیوز) دفتر خارجہ کے جاری بیان مےں مذاکرات کے جن موضوعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس سے پہلے جامع مذاکرات کا حصہ تھے لیکن جامع مذاکرات مےں مسئلہ کشمیر کو مرکزی موضوع کی حیثیت سے نہ سہی لیکن الگ ایشو کے طور پر زیر بحث لایا جاتا تھا نئے مذاکراتی سلسلے مےں ”مسئلہ کشمیر“ کا کوئی تذکرہ نہیں بلکہ صرف کشمیر پرامن و سلامتی کے ذیلی موضوع کی طور پر بات کی جائے گی۔ اس حوالے سے لفظ مسئلہ کشمیر کی بجائے جموںو کشمیر کی اصطلاح اختیار کی گئی ہے۔ برسوں سے جاری پاکستان بھارت بات چیت کو ”جامع مذاکرات“ کا نام دیا جاتا تھا لیکن اس بار یہ کسی ایسے عنوان سے محروم ہےں جس سے اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ آئندہ ہونے والی بات چیت کو پائیدار اور ادارہ جاتی مذاکراتی سلسلے کی حیثیت حاصل نہیں ہوگی، مسئلہ کشمیر کا حل ان مذاکرات کے ایجنڈے مےں شامل نہیں۔ دفتر خارجہ کے جاری کئے گئے بیان مےں بتایا گیا ہے کہ جولائی 2010ءمےں پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات کا عمل آگے بڑھانے کےلئے دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں نے چھ فروری کو بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو مےں باہم ملاقات کی۔ دونوں خارجہ سیکرٹریوں نے اس ملاقات کے نتائج کے بارے مےں اپنی حکومتوں کو آگاہ کر دیا جن کے مطابق چار نکات پر اتفاق ہوا یہ طے پایا کہ قبل ازیں تھمپو مےں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے جذبے کے تحت پاکستان اور بھارت تمام مسائل پر مذاکرات کے سلسلے کو بحال کریں گے۔ مذاکراتی سلسلے مےں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینے کےلئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی رواں سال جولائی مےں بھارت کا دورہ کریں گے۔ اس دورے سے قبل دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری باہم ملاقات کریں گے لیکن اس مجوزہ ملاقات کی تاریخ اور مقام کا نہیں بتایا گیا یہ بھی طے پایا کہ وزرائے خارجہ کی ملاقات سے قبل سیکرٹریوں کی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان انسداد دہشت گردی بشمول ممبئی حملوں پر پیشرفت، انسانی حقوق، امن و سلامتی جس مےں جموں و کشمیر پر اعتماد سازی کے اقدامات، دوستانہ تعلقات کے فروغ اور سیاچن کے موضوعات بھی شامل ہوں گے، معاشی امور کی ذیل مےں وولربیراج اور ایڈیشنل سیکرٹریوں کی سطح پر سرکریک کے مسئلہ پر مذاکرات ہوں گے۔ ان تمام مذاکرات کی تاریخوں کا تعین سفارتی ذرائع سے کیا جائے گا۔ دفتر خارجہ کے نہایت احتیاط سے تیار کئے گئے بیان مےں ”مسئلہ کشمیر“ کا لفظ کہیں استعمال نہیں کیا گیا اس کے بجائے جموں و کشمیر کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ بیان کے مطابق ممبئی حملوں پر تو بات ہوگی لیکن سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کا بھی ذکر نہیں۔ امن و سلامتی کے موضوع پر اس سے قبل روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کے موضوعات پر الگ الگ بات ہوتی تھی کیونکہ پاکستان اور بھارت کی روائتی فوجی قوت مےں بہت زیادہ عدم توازن ہے۔ واضح نہیں کہ اب یہ موضوع زیر غور آئے گا یہ نہیں۔ اس بیان سے ایک بات واضح ہے کہ کنٹرول لائن پر تجارت سمیت کشمیر پر دونوں ملکوں نے اعتماد سازی کے جو اقدامات کئے ہےں وہی اب بھی زیر غور آئیں گے۔ بی بی سی کے مطابق لفظ کمپوزٹ مذاکرات استعمال کرنے سے گریز کیا گیا ہے۔