قاہرہ (مانیٹرنگ ڈیسک + ریڈیو مانیٹرنگ + ایجنسیاں) مصر کے صدر حسنی مبارک نے رات گئے قوم سے خطاب میں مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تاہم اہم اختیارات نائب صدر عمر سلیمان کو منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ التحریر سکوائر میں موجود لاکھوں کے مجمعے اور حزب اختلاف نے حسنی مبارک کے مستعفی نہ ہونے کے فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور کہا کہ صدر استعفیٰ دیں۔ مظاہرین جوتے لہرا کر حسنی مبارک کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ قبل ازیں رات گئے تک صدر مبارک کے استعفے کی افواہیں پھیلی رہیں۔ تفصیلات کے مطابق حسنی مبارک نے رات گئے خطاب کرتے ہوئے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرا آج کا خطاب تحریر چوک کے نوجوانوں کے لئے ہے‘ انہوں نے کہا کہ عوام کے مطالبات ماننے میں کوئی عار نہیں‘ نوجوانوں کے تمام مطالبات پورے کروں گا‘ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی ڈکٹیشن قبول نہیں‘ شہید ہونے والوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنا میری ذمہ داری ہے جس کے لئے کوشاں ہوں اور مذاکرات کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وسیع آئینی اصلاحات کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں وعدہ کر چکا ہوں کہ ستمبر میں الیکشن نہیں لڑوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ستمبر میں الیکشن جیتنے والے کو اقتدار منتقل کر دوں گا تاکہ ملک کی آئینی ساکھ متاثر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں ستمبر میں الیکشن نہ لڑنے کے اعلان پر قائم ہوں‘ قبل ازیں العربیہ ٹی وی نے کہا کہ فوج نے کئی حساس مقامات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ حسنی مبارک نے کہا کہ وہ نئی نسل کی بات سننے میں فخر محسوس کرتے ہیں‘ صدر کے اختیارات میں کمی کے لئے آئینی ترامیم لائی جائیں گی۔ حسنی مبارک نے کہا کہ اپنے اختیارات نائب صدر کو سونپنے کا اعلان کرتا ہوں اور اقتدار کی منتقلی شروع ہو گئی جو ستمبر میں مکمل ہو جائے گی۔ قبل ازیں سربراہ امریکی سی آئی اے لیون پنیٹا نے کہا کہ حسنی مبارک چند گھنٹوں میں مستعفی ہو سکتے ہیں تاہم وہ یہ خبر صرف رپورٹس کی بنیاد پر دے رہے ہیں۔ وزیراعظم احمد شفیق نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر حسنی مبارک مستعفی ہو سکتے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق بعدازاں وزیراعظم نے کہا کہ مصر میں سب کچھ حسنی مبارک کے ہاتھ میں ہے۔ قاہرہ میں مصری فوج کے سربراہ نے بتایا کہ فوج عوام کے تحفظ کے لئے اقدامات کر رہی ہے اور مظاہرین کے تمام مطالبات تسلیم کئے جائیں گے۔ دریں اثناءمظاہرین نے صدر حسنی مبارک کو آج اقتدار چھوڑنے کی نئی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے جمعہ کو یوم الغضب کے طور پر منانے اور صدارتی محل کے گھیراو کا اعلان کیا ہے‘ جمعرات کے روز بھی مظاہرے جاری رہے‘ مظاہروں میں سرکاری ملازمین بھی شامل ہو گئے‘ سکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں مزید 5 افراد ہلاک ہو گئے‘ مصری وزیر خارجہ ابوالغیث نے کھلے عام امریکی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ قاہرہ کی حکومت پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش نہ کرے‘ انہوں نے مظاہرین پر طاقت کے استعمال کی دھمکی دے دی۔ تفصیلات کے مطابق تحریر سکوائر پر صدر حسنی مبارک کے خلاف احتجاج 17ویں دن میں داخل ہو گیا لیکن مظاہرین کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آئی۔ پورٹ سعید میں تین ہزار مشتعل مظاہرین نے گورنر کی گاڑی اور سرکاری عمارت جلا دی۔ آج جمعہ کو صدارتی محل کا گھیراو کرنے کے اعلان پر بڑی تعداد میں فوج اور ٹینک محل کے قریب تعینات کر دئیے گئے۔ اپوزیشن جماعت اخوان المسلمون نے کہا ہے کہ حسنی مبارک ہر حال میں ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ التحریر سکوائر میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا اور حسنی مبارک سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ امریکی صدر اوباما نے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور مصر کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ مصر میں اس وقت نتیجہ خیز اور پائےدار تبدیلی کی ضرورت ہے۔ عرب لیگ کے جنرل سیکرٹری عمرو موسیٰ نے کہا ہے کہ مغرب کا یہ خوف بلاجواز ہے کہ مصر میں جاری عوامی انقلاب کی تحریک مذہبی جماعت اخوان المسلمون کے ہاتھ ہے۔ اخوان المسلمون نے کہا ہے کہ انہوں نے مصر میں صدر نہیں حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے‘ خدشہ ہے حسنی مبارک کے بعد فوج اقتدار سنبھال لے گی۔ اوباما نے کہا ہے کہ مصر کی صورتحال بہت اہمیت کی حامل ہے‘ امریکہ مصر میں مرحلہ وار اور وسیع البنیاد تبدیلی کی حمایت کرے گا‘ مصر میں نوجوان چاہتے ہیں کہ ان کی آواز سنی جائے‘ ہم مصر میں تاریخ رقم ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024