نذیر احمد غازی (سابق جج ہائیکورٹ)ghaziadvocate1@gmail.com
حکومت کی پائیداری عوام کی خوشحالی کے باعث ہوتی ہے‘ عوام خوشحال نہ رہیں تو حکومت جبر کے نظام کا دوسرا نام ہے۔ جبر سے آپ لوگوں کے سر جھکا سکتے ہیں لیکن دلوں کی دنیا میں محبت نہیں پیدا کر سکتے‘ بلکہ ظاہر کا جبر دلوں میں نفرتوں کی چنگاری کو بڑھا کر شعلوں میں بدل دیتا ہے اور پھر وقت کی رفتار مصیبت ناک طوفانوں میں بدل جاتی ہے اور جبر و غرور کے تاج بے بسی کے گمنام گڑھے میں جا گرتے ہیں۔
ایک عرصے سے پاکستان کے عوام حکمرانوں اور انکے قصیدہ بردار کاسہ لیسوں کی ایذا رسانی کا شکار ہیں۔ عام آدمی کو پرسکون زندگی کا حق حاصل نہیں ہے‘ زندگی کی آسانی اسے زورآور سیاستدان ہی عطا کرتے ہیں۔ درجہ اول کے سیاستدان ایک چھوٹے درجے کی شطرنج سجاتے ہیں‘ اگرچہ وہ خود بھی کسی دوسرے کی شطرنج کے مہرے ہوتے ہیں‘ پھر اپنی چھوٹی شطرنج پر وہ درجۂ دوم کے سیاستدان اپنی نفسانی خواہشات کے مہرے اتنی خوبصورتی سے سجاتے ہیں کہ بیچارے عوام انکے اس نفسانی کھیل کو اپنی نجات کا سامان سمجھتے ہیں۔ ان غریب اور پسماندہ ذہن عوام کو اپنی خوبصورت منزل خواب میں قریب نظر آتی ہے لیکن جب صبح نہیں ہوتی تو یہی خواب ڈرائونے منظروں میں بدل جاتے ہیں اور یہ منظر حقیقی دنیا میں بدل جاتے ہیں۔
سیاست خدمت ہے‘ سیاست عبادت ہے‘ یہ جملے بہت خوش کن ہیں‘ نوجوانوں کے دلوں کو لبھاتے ہیں لیکن جب عملی سیاست کے میدان میں اترتے ہیں تو سچ اور جھوٹ کی تعریف بدل جاتی ہے۔ ترجیحات کا نام سچ اور مخالف کا نام سراسر جھوٹ رکھ دیا جاتا ہے۔ اپنے چراغ کو روشن کرنے کے بجائے ہمسائے کی قندیل کو بجھانا ہی اہم مشن ہوتا ہے۔
سیاسی انتخابی حلقوں کو بدلنا اور ترقیاتی و اصلاحی کاموں کو وطن دوستی نہیں‘ مخالف کی دشمنی کے معیار پر طے کرنا جب اصولِ خدمت بن جائے تو پھر ترقی کا پہیہ الٹا ہی گھومے گا۔ یہ رویہ نادان وطن دوستوں کا ہمیشہ ہی رہا ہے لیکن اس رویے میں گزشتہ چند سالوں سے تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں انکی سیاسی بیساکھیوں نے سیاست میں بیساکھی نظام کو رواج دیا تھا‘ نااہل اور بدنیت اہل سیاست کو نئے انداز سے متعارف کروایا گیا تھا۔ ان لوگوں نے چن چن کر ایسے حلقے اپنی نظر میں رکھے‘ جہاں سے انکے مخالفین منتخب ہوا کرتے تھے۔ سب سے پہلے وہاں کے ترقیاتی کام رکوائے گئے‘ لاہور کی اہم سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں‘ اصلاح و مرمت کی طرف بالکل توجہ نہ دی گئیں۔ جب توجہ دلوائی جاتی تو کہا جاتا کہ یہ حلقہ میاں نواز شریف کا ہے‘ انکے ووٹر انکی محبت کا خمیازہ بھگتیں۔ قوموں کے راستے تو بہت بلند ہوتے ہیں‘ یہاں تو گھر تک کا راستہ تنگ کردیا گیا تھا۔ حالات بدلے‘ آمر گئے‘ جمہوریت کا سلسلہ شروع ہوا لیکن ذہنوں میں جمہور اور جمہوریت کا تصور اجاگر نہ ہو سکا۔ چھوٹی شطرنج والے چھوٹے سیاست دانوں نے اپنی انتقامی سیاست کو ہی فتح کی علامت بنایا ہوا ہے۔ انکی ذہنی کھینچا تانی میں صوبے کی زیادہ تر سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں‘ مرمت نہ ہوئیں۔
شاہدرہ کے پھاٹک کے نزدیک ایک فرلانگ تک کے فاصلے کی سڑک اس قدر شکستہ حال ہے کہ اس مقام پر گاڑیوں کے سانس بند ہو جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ گزشتہ دنوں گوجرانوالہ گئے تھے‘ ارباب انتظام نے انہیں موٹروے سے گزار دیا ہو گا اور پھر ساتھ ہی موٹروے کی فضیلت کے قصیدے سنا کر خوش کیا ہو گا ورنہ شاہدرہ پھاٹک کا حال اگر جناب شہباز شریف منظرخود دیکھتے تو محکمہ مواصلات میں ایک بڑا طوفان ضرور آتا کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب کے فوری و ہنگامی اقدامات سے عوام ایسی ہی توقع رکھتے ہیں اور یہ حقیقت ہے اس لئے کہ گزشتہ دنوں مجھے جنوبی پنجاب کے علاقے لیہ اور بھکر جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ایسی سڑک سے واپسی ہوئی جو میلوں تک اتنی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کھیتوں میں پتھروں کو بے ترتیب بکھیر دیا گیا ہو یا ایک پوٹھوہاری بنجر علاقہ ہے جہاں اتنے نشیب و فراز ہیں کہ کنویں جتنے گڑھے بھی ہیں اور چھوٹی پہاڑی جتنی بلندی بھی ہے۔ ایک چھوٹی گاڑی کا ایکسل ٹوٹ گیا۔ سواریوں میں دو بوڑھی عورتیں اور تین چار چھوٹے بچے بھی تھے‘ مرمت و اصلاح کیلئے قریب کوئی ورکشاپ یا دکان ہی نہیں تھی‘ پانی پینے کی کوئی سبیل بھی نزدیک نہیں تھی۔ بھوک مٹانے کیلئے کوئی ہوٹل بھی نزدیک نہیں تھا۔ ایک بڑھیا مقامی زبان میں اپنے دوپٹے کو دو ہاتھوں پر رکھے اونچی اونچی آواز میں نجانے دعائیں مانگ رہی تھی یا کوسنے دے رہی تھی‘ کچھ اس طرح سے سمجھ آرہی تھی کہ یہ سیاست دان ووٹ مانگنے آتے ہیں تو خاندانی بھکاریوں کی طرح آتے ہیں لیکن جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو عوام تو کیا‘ خدا کو بھول جاتے ہیں‘ او خدا کیلئے کوئی لاہور جا کر میری فریاد وزیراعلیٰ تک پہنچا دے کہ لوگ سفر کے دوران کتنے ذلیل ہوتے ہیں۔
راقم نے اس بڑھیا مسافر کی بپتا سنی تو اسے تسلی دی کہ اماں میں تیری یہ بات وزیراعلیٰ پنجاب تک ضرور پہنچا دوں گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق بخشی تو وہ ضرور تیرے جیسی بوڑھی مائوں کی فریاد رسی کریگا۔ میں بوڑھی اماں کی پریشان حالی اور بے بسی کو دیکھ کر ماضی میں لوٹ گیا کہ جب کوئی خاتون اپنی پریشانی میں کسی حاکم کو پکارتی تھی تو وقت کا حکمران اپنی تمام ترجیحات کو پس پشت ڈال کر اسکی فریاد رسی کو پہنچتا تھا۔
لیکن جناب وزیر اعلیٰ یہ ایک خاتون کی فریاد نہیں‘ جنوبی پنجاب کے بہت سے سیلاب زدہ علاقوں کی سڑکوں پر سفر کرنیوالی ہزاروں بے بس خواتین کی روزانہ کی فریاد ہے۔ آپ پہنچئے انکی مدد کو۔ سہارا دیجئے بے سہارا کمزور خواتین کو‘ ضعیف و ناتواں بچوں کو‘ سکون بخشئے مسافروں کو‘ امن دیجئے راہ گیروں کو‘ ورنہ علاقائیت پر سیاست کرنیوالے تو پھر یہی نعرہ لگائیں گے کہ:
’’اساں قیدی تخت لہور دے ‘‘۔
لوگ جب لاہور میں پوش علاقوں کی سڑکوں کو دیکھتے ہیں تو حسرت سے اپنی آنکھوں کو بے یقین پاتے ہیں۔ یہ سڑکوں کی سیاست انتہائی عجیب ہوتی ہے‘ لیہ کے علاقے کی چند سڑکیں بہت ہی اچھی ہیں۔ وہاں لوگ مقامی ڈی سی او کی تعریف کرتے ہیں کہ یہ افسر عوام کی پریشانی میں اس طرح شریک ہوتا ہے گویا انکی برادری کا مستقل رکن ہے۔
سڑکوں کی سیاست سے ایک پرانی سی بات ذہن میں آرہی ہے کہ جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی سیاست ہو رہی تھی تو بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان نے اسلام آباد واپسی سے ڈھاکہ جا کر پلٹن میدان میں تقریر کی کہ جب میں اسلام آباد گیا تو وہاں کی چمکتی سڑکوں پر میں نے غور کیا تو مجھے ان سڑکوں سے پٹ سن کی بو آرہی تھی‘ پٹ سن کی کمائی اسلام آباد کی سڑکوں پر استعمال ہوتی ہے لیکن ڈھاکہ اور چٹاگانگ کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی تمہاری بے بسی کا ماتم کرتی ہیں۔ یہ سڑک سیاست تھی کہ لوگ اسلام آبادی حکمرانوں سے بددل ہو گئے تھے۔
آج بھی یہ ٹوٹی سڑکیں لوگوں کے دل توڑ رہی ہیں‘ جناب وزیراعلیٰ! بددلی سے ان لوگوں کو بچا لیجئے۔ خدائی تخت کا خیال رکھنے والوں کے تخت اور بخت اونچے رہتے ہیں…؎
مسجد کو ڈھائیے مندر کو ڈھائیے
دل کو نہ ڈھائیے کہ خدا کا مقام ہے
قارئین! ربیع الاول اپنی تمام خیر و برکات اور رحمتوں کے ساتھ رواں دواں ہے‘ مسلمانوں میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تازگی اور بڑھوتری کا یہ خوشگوار موسم دلوں کو پھر سے زندہ کرتا ہے اور سروں کو بلند کرتا ہے‘ اسی محبت نے ہمیں ہر دو جہاں میں ممتاز و معزز کیا ہے۔ میرے عزیز شاگرد خالد قادری ایڈووکیٹ کل آئے تو کہنے لگے کہ اس ماہ مبارک میں اس مرتبہ ہم نے نیا انداز اپنانے کا ارادہ کیا ہے۔ پوچھا کیا نیا پن ہو گا تو بتایا کہ نعت بھی اظہار عقیدت و محبت ہے لیکن اگر نعت کا اثر کردار میں نہ اترے تو لفظوں کا ذوق ہے عمل کا شوق نہیں ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کائنات کا سب سے نفیس و لطیف اور طاہر و نظیف بنایا ہے اور جناب رسالت پناہ نے طہارت و صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ ہم اپنے گھر کی دہلیز سے لیکر پورے معاشرے تک میں میلے ہو چکے ہیں‘ ہم نے اس مرتبہ یہ فیصلہ کیا ہے کہ پورے ربیع الاول میں نوجوان خود اپنے ہاتھ سے گلیوں میں جھاڑو دے کر یہ پیغام عام کرینگے کہ معاشرے میں صفائی و نظامت کا رواج عام کرو اور اسکی ابتدا اپنی ذات سے کرو کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور سنت پر عمل پیرا ہونا عملی نعت ہے۔
حکومت کی پائیداری عوام کی خوشحالی کے باعث ہوتی ہے‘ عوام خوشحال نہ رہیں تو حکومت جبر کے نظام کا دوسرا نام ہے۔ جبر سے آپ لوگوں کے سر جھکا سکتے ہیں لیکن دلوں کی دنیا میں محبت نہیں پیدا کر سکتے‘ بلکہ ظاہر کا جبر دلوں میں نفرتوں کی چنگاری کو بڑھا کر شعلوں میں بدل دیتا ہے اور پھر وقت کی رفتار مصیبت ناک طوفانوں میں بدل جاتی ہے اور جبر و غرور کے تاج بے بسی کے گمنام گڑھے میں جا گرتے ہیں۔
ایک عرصے سے پاکستان کے عوام حکمرانوں اور انکے قصیدہ بردار کاسہ لیسوں کی ایذا رسانی کا شکار ہیں۔ عام آدمی کو پرسکون زندگی کا حق حاصل نہیں ہے‘ زندگی کی آسانی اسے زورآور سیاستدان ہی عطا کرتے ہیں۔ درجہ اول کے سیاستدان ایک چھوٹے درجے کی شطرنج سجاتے ہیں‘ اگرچہ وہ خود بھی کسی دوسرے کی شطرنج کے مہرے ہوتے ہیں‘ پھر اپنی چھوٹی شطرنج پر وہ درجۂ دوم کے سیاستدان اپنی نفسانی خواہشات کے مہرے اتنی خوبصورتی سے سجاتے ہیں کہ بیچارے عوام انکے اس نفسانی کھیل کو اپنی نجات کا سامان سمجھتے ہیں۔ ان غریب اور پسماندہ ذہن عوام کو اپنی خوبصورت منزل خواب میں قریب نظر آتی ہے لیکن جب صبح نہیں ہوتی تو یہی خواب ڈرائونے منظروں میں بدل جاتے ہیں اور یہ منظر حقیقی دنیا میں بدل جاتے ہیں۔
سیاست خدمت ہے‘ سیاست عبادت ہے‘ یہ جملے بہت خوش کن ہیں‘ نوجوانوں کے دلوں کو لبھاتے ہیں لیکن جب عملی سیاست کے میدان میں اترتے ہیں تو سچ اور جھوٹ کی تعریف بدل جاتی ہے۔ ترجیحات کا نام سچ اور مخالف کا نام سراسر جھوٹ رکھ دیا جاتا ہے۔ اپنے چراغ کو روشن کرنے کے بجائے ہمسائے کی قندیل کو بجھانا ہی اہم مشن ہوتا ہے۔
سیاسی انتخابی حلقوں کو بدلنا اور ترقیاتی و اصلاحی کاموں کو وطن دوستی نہیں‘ مخالف کی دشمنی کے معیار پر طے کرنا جب اصولِ خدمت بن جائے تو پھر ترقی کا پہیہ الٹا ہی گھومے گا۔ یہ رویہ نادان وطن دوستوں کا ہمیشہ ہی رہا ہے لیکن اس رویے میں گزشتہ چند سالوں سے تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں انکی سیاسی بیساکھیوں نے سیاست میں بیساکھی نظام کو رواج دیا تھا‘ نااہل اور بدنیت اہل سیاست کو نئے انداز سے متعارف کروایا گیا تھا۔ ان لوگوں نے چن چن کر ایسے حلقے اپنی نظر میں رکھے‘ جہاں سے انکے مخالفین منتخب ہوا کرتے تھے۔ سب سے پہلے وہاں کے ترقیاتی کام رکوائے گئے‘ لاہور کی اہم سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں‘ اصلاح و مرمت کی طرف بالکل توجہ نہ دی گئیں۔ جب توجہ دلوائی جاتی تو کہا جاتا کہ یہ حلقہ میاں نواز شریف کا ہے‘ انکے ووٹر انکی محبت کا خمیازہ بھگتیں۔ قوموں کے راستے تو بہت بلند ہوتے ہیں‘ یہاں تو گھر تک کا راستہ تنگ کردیا گیا تھا۔ حالات بدلے‘ آمر گئے‘ جمہوریت کا سلسلہ شروع ہوا لیکن ذہنوں میں جمہور اور جمہوریت کا تصور اجاگر نہ ہو سکا۔ چھوٹی شطرنج والے چھوٹے سیاست دانوں نے اپنی انتقامی سیاست کو ہی فتح کی علامت بنایا ہوا ہے۔ انکی ذہنی کھینچا تانی میں صوبے کی زیادہ تر سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں‘ مرمت نہ ہوئیں۔
شاہدرہ کے پھاٹک کے نزدیک ایک فرلانگ تک کے فاصلے کی سڑک اس قدر شکستہ حال ہے کہ اس مقام پر گاڑیوں کے سانس بند ہو جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ گزشتہ دنوں گوجرانوالہ گئے تھے‘ ارباب انتظام نے انہیں موٹروے سے گزار دیا ہو گا اور پھر ساتھ ہی موٹروے کی فضیلت کے قصیدے سنا کر خوش کیا ہو گا ورنہ شاہدرہ پھاٹک کا حال اگر جناب شہباز شریف منظرخود دیکھتے تو محکمہ مواصلات میں ایک بڑا طوفان ضرور آتا کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب کے فوری و ہنگامی اقدامات سے عوام ایسی ہی توقع رکھتے ہیں اور یہ حقیقت ہے اس لئے کہ گزشتہ دنوں مجھے جنوبی پنجاب کے علاقے لیہ اور بھکر جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ایسی سڑک سے واپسی ہوئی جو میلوں تک اتنی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کھیتوں میں پتھروں کو بے ترتیب بکھیر دیا گیا ہو یا ایک پوٹھوہاری بنجر علاقہ ہے جہاں اتنے نشیب و فراز ہیں کہ کنویں جتنے گڑھے بھی ہیں اور چھوٹی پہاڑی جتنی بلندی بھی ہے۔ ایک چھوٹی گاڑی کا ایکسل ٹوٹ گیا۔ سواریوں میں دو بوڑھی عورتیں اور تین چار چھوٹے بچے بھی تھے‘ مرمت و اصلاح کیلئے قریب کوئی ورکشاپ یا دکان ہی نہیں تھی‘ پانی پینے کی کوئی سبیل بھی نزدیک نہیں تھی۔ بھوک مٹانے کیلئے کوئی ہوٹل بھی نزدیک نہیں تھا۔ ایک بڑھیا مقامی زبان میں اپنے دوپٹے کو دو ہاتھوں پر رکھے اونچی اونچی آواز میں نجانے دعائیں مانگ رہی تھی یا کوسنے دے رہی تھی‘ کچھ اس طرح سے سمجھ آرہی تھی کہ یہ سیاست دان ووٹ مانگنے آتے ہیں تو خاندانی بھکاریوں کی طرح آتے ہیں لیکن جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو عوام تو کیا‘ خدا کو بھول جاتے ہیں‘ او خدا کیلئے کوئی لاہور جا کر میری فریاد وزیراعلیٰ تک پہنچا دے کہ لوگ سفر کے دوران کتنے ذلیل ہوتے ہیں۔
راقم نے اس بڑھیا مسافر کی بپتا سنی تو اسے تسلی دی کہ اماں میں تیری یہ بات وزیراعلیٰ پنجاب تک ضرور پہنچا دوں گا اور اگر اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق بخشی تو وہ ضرور تیرے جیسی بوڑھی مائوں کی فریاد رسی کریگا۔ میں بوڑھی اماں کی پریشان حالی اور بے بسی کو دیکھ کر ماضی میں لوٹ گیا کہ جب کوئی خاتون اپنی پریشانی میں کسی حاکم کو پکارتی تھی تو وقت کا حکمران اپنی تمام ترجیحات کو پس پشت ڈال کر اسکی فریاد رسی کو پہنچتا تھا۔
لیکن جناب وزیر اعلیٰ یہ ایک خاتون کی فریاد نہیں‘ جنوبی پنجاب کے بہت سے سیلاب زدہ علاقوں کی سڑکوں پر سفر کرنیوالی ہزاروں بے بس خواتین کی روزانہ کی فریاد ہے۔ آپ پہنچئے انکی مدد کو۔ سہارا دیجئے بے سہارا کمزور خواتین کو‘ ضعیف و ناتواں بچوں کو‘ سکون بخشئے مسافروں کو‘ امن دیجئے راہ گیروں کو‘ ورنہ علاقائیت پر سیاست کرنیوالے تو پھر یہی نعرہ لگائیں گے کہ:
’’اساں قیدی تخت لہور دے ‘‘۔
لوگ جب لاہور میں پوش علاقوں کی سڑکوں کو دیکھتے ہیں تو حسرت سے اپنی آنکھوں کو بے یقین پاتے ہیں۔ یہ سڑکوں کی سیاست انتہائی عجیب ہوتی ہے‘ لیہ کے علاقے کی چند سڑکیں بہت ہی اچھی ہیں۔ وہاں لوگ مقامی ڈی سی او کی تعریف کرتے ہیں کہ یہ افسر عوام کی پریشانی میں اس طرح شریک ہوتا ہے گویا انکی برادری کا مستقل رکن ہے۔
سڑکوں کی سیاست سے ایک پرانی سی بات ذہن میں آرہی ہے کہ جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی سیاست ہو رہی تھی تو بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان نے اسلام آباد واپسی سے ڈھاکہ جا کر پلٹن میدان میں تقریر کی کہ جب میں اسلام آباد گیا تو وہاں کی چمکتی سڑکوں پر میں نے غور کیا تو مجھے ان سڑکوں سے پٹ سن کی بو آرہی تھی‘ پٹ سن کی کمائی اسلام آباد کی سڑکوں پر استعمال ہوتی ہے لیکن ڈھاکہ اور چٹاگانگ کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی تمہاری بے بسی کا ماتم کرتی ہیں۔ یہ سڑک سیاست تھی کہ لوگ اسلام آبادی حکمرانوں سے بددل ہو گئے تھے۔
آج بھی یہ ٹوٹی سڑکیں لوگوں کے دل توڑ رہی ہیں‘ جناب وزیراعلیٰ! بددلی سے ان لوگوں کو بچا لیجئے۔ خدائی تخت کا خیال رکھنے والوں کے تخت اور بخت اونچے رہتے ہیں…؎
مسجد کو ڈھائیے مندر کو ڈھائیے
دل کو نہ ڈھائیے کہ خدا کا مقام ہے
قارئین! ربیع الاول اپنی تمام خیر و برکات اور رحمتوں کے ساتھ رواں دواں ہے‘ مسلمانوں میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تازگی اور بڑھوتری کا یہ خوشگوار موسم دلوں کو پھر سے زندہ کرتا ہے اور سروں کو بلند کرتا ہے‘ اسی محبت نے ہمیں ہر دو جہاں میں ممتاز و معزز کیا ہے۔ میرے عزیز شاگرد خالد قادری ایڈووکیٹ کل آئے تو کہنے لگے کہ اس ماہ مبارک میں اس مرتبہ ہم نے نیا انداز اپنانے کا ارادہ کیا ہے۔ پوچھا کیا نیا پن ہو گا تو بتایا کہ نعت بھی اظہار عقیدت و محبت ہے لیکن اگر نعت کا اثر کردار میں نہ اترے تو لفظوں کا ذوق ہے عمل کا شوق نہیں ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کائنات کا سب سے نفیس و لطیف اور طاہر و نظیف بنایا ہے اور جناب رسالت پناہ نے طہارت و صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ ہم اپنے گھر کی دہلیز سے لیکر پورے معاشرے تک میں میلے ہو چکے ہیں‘ ہم نے اس مرتبہ یہ فیصلہ کیا ہے کہ پورے ربیع الاول میں نوجوان خود اپنے ہاتھ سے گلیوں میں جھاڑو دے کر یہ پیغام عام کرینگے کہ معاشرے میں صفائی و نظامت کا رواج عام کرو اور اسکی ابتدا اپنی ذات سے کرو کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور سنت پر عمل پیرا ہونا عملی نعت ہے۔