موذی سانپ کو دودھ پلانا ضروری ہے یا اس کا سر کچلنا؟
بھارت نے پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کیلئے یورپی یونین کی طرف سے ملنے والی تجارتی مراعات کو ڈبلیو ٹی او میں چیلنج کرکے ان پر عملدرآمد رکوا دیا ہے اور خود بھی پاکستانی تاجروں کیساتھ کئے گئے ایک ملین کاٹن بیلز کے معاہدے منسوخ کردیئے ہیں۔ ’’نوائے وقت‘‘ کی ایک خصوصی رپورٹ کیمطابق انٹرنیشنل کاٹن ایسوسی ایشن نے پاکستانی تاجروں کی درخواست پر بھارت کی جانب سے کاٹن کی برآمد کا معاہدہ منسوخ کرنے کے اقدام کو غیرقانونی قرار دیدیا تھا جسے بھارت نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور انٹرنیشنل کاٹن ایسوسی ایشن کو باور کرایا کہ بھارت کے اپنے رولز ہیں‘ جن کی بنیاد پر پاکستانی تاجروں کیساتھ کئے گئے معاہدے منسوخ کئے گئے ہیں۔ اپٹما کے ترجمان کے بقول بھارت نے اس اقدام کے تحت سستی کپاس کو اپنے فائدے کیلئے مہنگا کردیا ہے۔
یورپی یونین نے گزشتہ سال دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہونیوالے نقصان کے ازالہ کی خاطر پاکستان کو تین سال کیلئے تجارتی مراعات دینے کا اعلان کیا تھا جن پر رواں سال کے شروع سے عمل ہونا تھا جبکہ بھارت نے ڈبلیو ٹی او میں درخواست دائر کرکے پاکستان کو حاصل ہونیوالی یہ مراعات رکوا دی ہیں‘ جو بحال کرانے میں اب پاکستان کو ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگے گا۔ اسی طرح بھارت نے پاکستانی تاجروں کیساتھ کئے گئے کپاس کی برآمد کے معاہدے منسوخ کرکے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی پیٹھ میں بھی چھرا گھونپا ہے کیونکہ بھارت کے اس اقدام سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ بھارت کی جانب سے یہ کپاس اس ماہ فروری تک پاکستان کو برآمد کی جانی تھی جو دستیاب نہ ہونے سے ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری یقیناً ایک نئے بحران کا شکار ہو گی جس کے برے اثرات مجموعی طور پر ہماری قومی معیشت پر بھی مرتب ہونگے۔
بھارت کے ساتھ تجارت اور ثقافتی تعلقات استوار کرنے اور دوستی کی پینگیں ڈالنے کے متمنی ہمارے حکومتی اور غیرحکومتی نام نہاد روشن خیال حلقوں کو ہماری معیشت کے ساتھ روا رکھی جانیوالی اس دشمنی سے ہی مکار بھارتی ہندو بنیاء کے ہماری سلامتی کیخلاف عزائم کا اندازہ لگا لینا چاہیے اور اسکی بنیاد پر اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لینا چاہیے کہ ان کا اپنے مخصوص مفادات کی بنیاد پر بھارت کیلئے ریشہ خطمی ہونا حب الوطنی کی کس کیٹیگری میں آتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھارت نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی اسکی آزاد اور خودمختار حیثیت کو تسلیم نہیں کیا اور مختلف حیلوں بہانوں سے اسکی سلامتی کے درپے رہا ہے۔ سب سے پہلے اس نے پاکستان کی زراعت‘ معیشت کو نقصان پہنچانے اور ہمیں بھوکا پیاسا مارنے کی نیت سے کشمیر پر اپنا تسلط جمایا اور پھر اپنی طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت کشمیر کے راستے سے آنیوالے ہمارے دریائوں کے پانی کو روکنے کیلئے 62 سے زائد ڈیم تعمیر کرلئے جس کا خمیازہ ہم آئے روز خشک سالی کی صورت میں بھگتتے رہتے ہیں جبکہ بھارت پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر اپنا خونیں پنجہ گاڑ کر ہمیں جان کنی کی کیفیت میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے تاکہ ایک کمزور و ناتواں پاکستان پر شب خون مارنے میں اسے آسانی ہو سکے۔ وہ پوری ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ ہماری سالمیت کیخلاف ان سازشوں پر عمل پیرا ہے جبکہ اس خطہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ سے بھی بھارت کو مبینہ دہشت گردی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کا نادر موقع ملا جس کا اصل مقصد دنیا سے جہاد کشمیر پر دہشت گردی کا لیبل لگوانا تھا تاکہ عالمی برادری کی جانب سے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے بھارت پر یو این قراردادوں پر عملدرآمد کے سلسلہ میں دبائو ڈالنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
جن خوش فہم طبقات کو مذاکرات کے ذریعے پاکستان بھارت تعلقات کو سازگار بنانے کی ازخود فکر لاحق رہتی ہے‘ انہیں مذاکرات کے حوالے سے بھارت کے اب تک کے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہیے کہ جب بھی بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دبائو بڑھتا ہے‘ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی گردان شروع کر دیتا ہے اور پھر عالمی پریشر کم ہونے کے بعد خود ہی مذاکرات کی میز الٹا کر ’’بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام‘‘ والی اپنی اصلیت پر آجاتا ہے۔ کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی میں رتی بھر بھی فرق نہیں آنے دیتا‘ کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہے اور پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کے الزامات کی بھی بوچھاڑ کئے رکھتا ہے جبکہ ہمارے فوجی اور سول حکمران اپنی اپنی پالیسیوں کے تحت کبھی کرکٹ ڈپلومیسی‘ کبھی ٹریک ٹو اور شٹل ڈپلومیسی‘ کبھی ملکی اور قومی مفادات کے منافی چار نکاتی یکطرفہ کشمیر فارمولے کے تحت اور کبھی بھارت کیساتھ تجارتی اور ثقافتی مراسم استوار کرنے کی وارفتگی میں کشمیر کاز کو بھی نقصان پہنچاتے رہے اور اس موذی سانپ کو ملک کی سالمیت پر زہریلے وار کرنے کا موقع بھی فراہم کرتے رہے۔ ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچا کر ہمارے اس مکار دشمن نے دہلی میں جاری پاکستان بھارت وزراء خارجہ کے مذاکرات کی میز ہی الٹا دی۔ پاکستان کے ساتھ تمام تجارتی معاہدے منسوخ کر دیئے‘ ٹرین سروس بند کر دی‘ سفارتی تعلقات بھی تقریباً ختم کر دیئے‘ بھارت کے دورے پر جانیوالے پاکستانی وفود پر ہندو انتہاء پسندوں کے حملے شروع کرا دیئے اور دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے اعلان کر دیا کہ پاکستان اب کشمیر کو بھول جائے۔ اسکے ساتھ اب دہشت گردی کے خاتمہ کے معاملہ میں اسکی تابعدارانہ کارروائیوں کا یقین آنے کے بعد ہی دو طرفہ تعلقات بحال ہو سکتے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی کشمیر کی جانب سے پاکستان بھجوائی جانیوالی سبزیوں اور پھلوں سے لدے ٹرک بھی کنٹرول لائن پر روک لئے گئے۔ عالمی فورموں پر پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے الزامات کی انتہاء کر دی گئی اور اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے کی سازشوں کا سلسلہ بھی تیز کر دیا گیا۔ ہمارا یہ شاطر دشمن آج بھی اسی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے ہماری معیشت و تجارت کو جھٹکے لگانے میں مصروف ہے اور اس نے یورپی یونین کی جانب سے ہماری تجارتی مالی معاونت کے دروازے بھی بند کرا دیئے ہیں تاکہ مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں تباہ ہونیوالی ہماری معیشت سنبھل نہ پائے۔ ہماری زرخیز دھرتی کو بدترین خشک سالی کا سامنا بھی ہمارا پانی روکنے والی بھارتی سازشوں کے نتیجہ میں کرنا پڑا جبکہ گزشتہ برس کا بدترین سیلاب بھی بھارتی مکاری کے نتیجہ میں ہم پر آفت بن کر ٹوٹا تھا کیونکہ اس سیلاب کی نوبت بھارت کی جانب سے اپنے ڈیمز کے پونڈز میں جمع کیا گیا سارا پانی ہماری جانب چھوڑنے کے نتیجہ میں آئی تھی۔
ہماری سالمیت کیخلاف ان مکروہ بھارتی سازشوں کو دیکھ کر بھی کیا ہمیں اسکے ساتھ تجارتی‘ ثقافتی اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی فکر میں مبتلا رہنا چاہیے یا اس موذی سانپ کا سر کچلنے کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے؟ بھارت کی جانب سے یورپی یونین کو ہمیں تجارتی مراعات فراہم کرنے سے روکنا ہماری تباہ حال معیشت کو سنبھلنے کا موقع نہ دینے کے مترادف ہے جو ان حلقوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے اور اپنے آقائوں کے ایجنڈے کے تحت بھارت کیساتھ امن و آشتی کی یکطرفہ تمنا کا اظہار کرکے ملک کی نظریاتی اساس کو خود بھی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور ہمارے اس دیرینہ دشمن کو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کو کمزور کرنے کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔ سانپ سے دوستی کرکے تو اپنی زندگی اور سلامتی کی دعائیں نہیں مانگی جا سکتیں‘ اس لئے بھارتی عزائم کو دیکھ کر اسکے ہاتھوں اپنی سلامتی کی فکر کی جائے چہ جائیکہ اپنی گردن اسکے حضور پیش کر دی جائے۔
مردان کے المیے کا باعث امریکہ ہے
مردان میں پنجاب رجمنٹ سنٹر کے پریڈ گرائونڈ میں سکول یونیفارم میں ملبوس نوعمر خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا‘ جس کے نتیجہ میں 20 سیکورٹی اہلکار جاں بحق اور بیس زخمی ہو گئے‘ متاثرہ علاقے کو سیکورٹی اہلکاروں نے گھیرے میں لے لیا ہے۔
یہ نہایت المناک واقعہ ہے کہ ہماری فوج کے 20 جوان جاں بحق اور 20 زخمی ہو گئے جو کہ بہت بڑا قومی نقصان ہے۔ اگر معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے تو ایسے واقعات امریکہ کی آمد سے پہلے نہیں ہوتے تھے۔ اب کیوں ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن اتحادی ہے‘ امریکہ کے دوش بدوش ہماری ڈیڑھ لاکھ فوج بھی برسر پیکار ہے اور امریکی آپریشنز سے پاکستان میں بے تحاشہ جانی نقصان ہو رہا ہے۔ ڈرون حملے مسلسل ہو رہے ہیں اور اس میں بھی کئی بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں ایک ردعمل تو ضرور پیدا ہونا تھا‘ اگر ایک لڑکے کے خاندان کو امریکہ نے مار دیا ہو تو وہ ضرور خودکش بمبار بنے گا۔ پاکستان میں درحقیقت کوئی دہشت گردی نہیں ہو گی‘ بشرطیکہ ہمارے حکمران اب فرنٹ لائن اتحادی ہونے اور امریکیوں کو پاکستان میں آپریشنز کرنے کی اجازت دینے سے رک جائیں اور امریکہ سے معذرت کرلیں‘ اگر یہ امریکی آپریشنز ڈرون حملے بند ہو جائیں اور امریکی یہاں سے رخصت ہو جائیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خودکش افسوسناک حملے بھی ختم ہو جائینگے۔ پاکستان کو امریکہ نے دارالحرب بنا کر پاکستان ہی کا نقصان کیا ہے‘ اب بھی وقت ہے کہ امریکہ سے جان چھڑائی جائے تاکہ جوابی دہشت گردی کا سلسلہ بھی ختم ہو۔ ہماری فوج کو صرف اس لئے دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے کہ ہماری حکومت کے حکم پر وہ بھی امریکی جنگ میں شامل ہے۔
ریمنڈ پر کورکمانڈرز کا درست مؤقف
136 ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں خطے کی سلامتی اور سرحدوں کی صورتحال سمیت آپریشنل امور کا جائزہ لیا گیا اور حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کی گئی کہ امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے لہٰذا عدالت ہی اس حوالے سے فیصلہ کرنیکی مجاز ہے۔
امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے بارے پوری قوم کا ایک ہی موقف ہے کہ ریمنڈ نے دو پاکستانی شہریوں کو بلاجواز قتل کیا ہے لہٰذا اسے اس جرم کی پاکستانی قوانین کے تحت پاکستان ہی میں سزا دی جائے، حکمران طبقے کے بعد کور کمانڈرز نے بھی عوامی موقف کی حمایت کی ہے۔ جب عسکری سیاسی اور عوامی رائے ایک ہے۔ تو پھر اسے رعایت دینے کی بات مت کی جائے۔ حکومت پس و پیش سے کام مت لے، ریمنڈ کا معاملہ عدالت میں ہے۔ اسے قانون کے مطابق اپنا کام کرنے دیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ٹرائل کے وقت امریکی جیوری پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی تھی۔ امریکہ ڈرانے دھمکانے کی بجائے پاکستان سے مکمل تعاون کرے۔ ریمنڈ کے اصل نام اور پاکستان آنے کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کرے، دو دفعہ پشاور سے بلیک لسٹ ہونے کے باوجود پھر ریمنڈ کو پاکستان بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟ اسکے ساتھ ساتھ گاڑی کی ٹکر سے عبادالرحمن کو ہلاک کرنیوالے افراد کو بھی قانون کے حوالے کرے۔ امریکہ بھی ریمنڈ کی گرفتاری کو اَنا کا مسئلہ مت بنائے، بلکہ پاکستانی عدالتوں کے فیصلے کا احترام کرے۔
حتف 7 کروز میزائل کا کامیاب تجربہ
پاکستان نے حتف 7 سیریز کے کروز میزائل کامیاب تجربہ کیاہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق زمین سے زمین پر مار کرنیوالے اس کروز میزائل کی حد 600 کلومیٹر ہے اور یہ ہر قسم کا وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کو ایک عیار اور مکار دشمن کا سامنا ہے۔ جس نے نہ صرف تقسیم ہند کے ہر ضابطے اور قانون کے تحت پاکستان کا حصہ بننے والے خطے کشمیر پر جارحانہ و غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے بلکہ اس نے 1971ء میں پاکستان کو بھی دولخت کر دیا۔ وہ موجودہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کرتا رہتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تیاری جاری رکھی جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کشمیر کی خاطر ہزار سال تک جنگ لڑیں گے اور اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ گھاس کھا لیں گے ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ آج تخت پاکستان بھٹو کے جاں نشینوں کے پاس ہے۔ ان کو چاہئے کہ دفاع کو مزید مضبوط بنانے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں۔ حتف جیسے نہ صرف میزائلوں کی تیاری جاری رہنی چاہئے بلکہ ان کی رینج میں اتنا اضافہ کر دیا جائے کہ دشمن ملک کے آخری کونے تک مار کر سکے۔ قوم کو حتف 7 کا کامیاب تجربہ مبارک ہو۔
گورنر صاحب بسنت نہیں‘ جشنِ بہاراں
گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ بسنت صحت مند تفریح ہے۔ دل چاہتا ہے رائیونڈ جا کر نوازشریف کیساتھ بسنت منائوں۔ تاہم اس تہوار میں کسی کا گلا نہیں کٹنا چاہئے۔
گورنر لطیف کھوسہ کو یہ تو اچھی طرح علم ہے کہ سپریم کورٹ نے بسنت منانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ تاہم مشرف اور اس کی باقیات سینہ زوری سے یہ تہوار منانے پر اصرار کرتی رہیں۔ سپریم کورٹ نے پابندی اس کھیل کے نقصانات کے باعث لگائی۔ بسنت کی تیاریاں شروع ہوتے ہی معصوم بچوں سمیت لوگوں کی گردنیں کٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ دھاتی تاروں سے بجلی کے ٹرانسفارمر اڑتے رہتے ہیں۔ پتنگیں لوٹنے والے بچے الگ سے ٹریفک میں رکاوٹ کا باعث بنتے اور کئی کچل کر مارے جاتے ہیں۔ بسنت تہوار کا سب سے زیادہ قابل نفرت پہلو یہ ہے کہ یہ ہندوئوں کا تہوار ہے۔ جِسے وہ شاتم رسول حقیقت رائے کی یاد میں مناتے ہیں۔ جس کو سولہویں صدی کے وسط میں توہین رسالت پر لاہور کے گورنر نواب زکریا نے کوڑے لگانے کے بعد پھانسی لگا دی تھی۔ شاید گورنر لطیف کھوسہ سے بسنت کے آغازِ کار کا یہ پہلو آج تک پوشیدہ رہا ہو۔ ہمیں تو بطور مسلمان ایسے تہوار کی کھل کر مخالفت کرنی چاہئے جس سے شاتمِ رسول کی یاد وابستہ ہے۔ آپ جشنِ بہاراں بڑی دھوم دھام سے منا سکتے ہیں۔ لطیف کھوسہ بڑے اعلیٰ درجے کے وکیل منجھے ہوئے سیاستدان اور مذہب سے گہرا لگائو رکھتے ہیں۔ وہ بسنت کے بجائے جشنِ بہاراں منانے رائیونڈ جائیں اور بے شک تھوڑا سا آگے تبلیغی مرکز بھی ہو آئیں۔
بھارت نے پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کیلئے یورپی یونین کی طرف سے ملنے والی تجارتی مراعات کو ڈبلیو ٹی او میں چیلنج کرکے ان پر عملدرآمد رکوا دیا ہے اور خود بھی پاکستانی تاجروں کیساتھ کئے گئے ایک ملین کاٹن بیلز کے معاہدے منسوخ کردیئے ہیں۔ ’’نوائے وقت‘‘ کی ایک خصوصی رپورٹ کیمطابق انٹرنیشنل کاٹن ایسوسی ایشن نے پاکستانی تاجروں کی درخواست پر بھارت کی جانب سے کاٹن کی برآمد کا معاہدہ منسوخ کرنے کے اقدام کو غیرقانونی قرار دیدیا تھا جسے بھارت نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور انٹرنیشنل کاٹن ایسوسی ایشن کو باور کرایا کہ بھارت کے اپنے رولز ہیں‘ جن کی بنیاد پر پاکستانی تاجروں کیساتھ کئے گئے معاہدے منسوخ کئے گئے ہیں۔ اپٹما کے ترجمان کے بقول بھارت نے اس اقدام کے تحت سستی کپاس کو اپنے فائدے کیلئے مہنگا کردیا ہے۔
یورپی یونین نے گزشتہ سال دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہونیوالے نقصان کے ازالہ کی خاطر پاکستان کو تین سال کیلئے تجارتی مراعات دینے کا اعلان کیا تھا جن پر رواں سال کے شروع سے عمل ہونا تھا جبکہ بھارت نے ڈبلیو ٹی او میں درخواست دائر کرکے پاکستان کو حاصل ہونیوالی یہ مراعات رکوا دی ہیں‘ جو بحال کرانے میں اب پاکستان کو ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگے گا۔ اسی طرح بھارت نے پاکستانی تاجروں کیساتھ کئے گئے کپاس کی برآمد کے معاہدے منسوخ کرکے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی پیٹھ میں بھی چھرا گھونپا ہے کیونکہ بھارت کے اس اقدام سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ بھارت کی جانب سے یہ کپاس اس ماہ فروری تک پاکستان کو برآمد کی جانی تھی جو دستیاب نہ ہونے سے ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری یقیناً ایک نئے بحران کا شکار ہو گی جس کے برے اثرات مجموعی طور پر ہماری قومی معیشت پر بھی مرتب ہونگے۔
بھارت کے ساتھ تجارت اور ثقافتی تعلقات استوار کرنے اور دوستی کی پینگیں ڈالنے کے متمنی ہمارے حکومتی اور غیرحکومتی نام نہاد روشن خیال حلقوں کو ہماری معیشت کے ساتھ روا رکھی جانیوالی اس دشمنی سے ہی مکار بھارتی ہندو بنیاء کے ہماری سلامتی کیخلاف عزائم کا اندازہ لگا لینا چاہیے اور اسکی بنیاد پر اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لینا چاہیے کہ ان کا اپنے مخصوص مفادات کی بنیاد پر بھارت کیلئے ریشہ خطمی ہونا حب الوطنی کی کس کیٹیگری میں آتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھارت نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی اسکی آزاد اور خودمختار حیثیت کو تسلیم نہیں کیا اور مختلف حیلوں بہانوں سے اسکی سلامتی کے درپے رہا ہے۔ سب سے پہلے اس نے پاکستان کی زراعت‘ معیشت کو نقصان پہنچانے اور ہمیں بھوکا پیاسا مارنے کی نیت سے کشمیر پر اپنا تسلط جمایا اور پھر اپنی طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت کشمیر کے راستے سے آنیوالے ہمارے دریائوں کے پانی کو روکنے کیلئے 62 سے زائد ڈیم تعمیر کرلئے جس کا خمیازہ ہم آئے روز خشک سالی کی صورت میں بھگتتے رہتے ہیں جبکہ بھارت پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر اپنا خونیں پنجہ گاڑ کر ہمیں جان کنی کی کیفیت میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے تاکہ ایک کمزور و ناتواں پاکستان پر شب خون مارنے میں اسے آسانی ہو سکے۔ وہ پوری ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ ہماری سالمیت کیخلاف ان سازشوں پر عمل پیرا ہے جبکہ اس خطہ میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ سے بھی بھارت کو مبینہ دہشت گردی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کا نادر موقع ملا جس کا اصل مقصد دنیا سے جہاد کشمیر پر دہشت گردی کا لیبل لگوانا تھا تاکہ عالمی برادری کی جانب سے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے بھارت پر یو این قراردادوں پر عملدرآمد کے سلسلہ میں دبائو ڈالنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
جن خوش فہم طبقات کو مذاکرات کے ذریعے پاکستان بھارت تعلقات کو سازگار بنانے کی ازخود فکر لاحق رہتی ہے‘ انہیں مذاکرات کے حوالے سے بھارت کے اب تک کے طرز عمل کا جائزہ لینا چاہیے کہ جب بھی بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دبائو بڑھتا ہے‘ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی گردان شروع کر دیتا ہے اور پھر عالمی پریشر کم ہونے کے بعد خود ہی مذاکرات کی میز الٹا کر ’’بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام‘‘ والی اپنی اصلیت پر آجاتا ہے۔ کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی میں رتی بھر بھی فرق نہیں آنے دیتا‘ کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑنے کا سلسلہ بھی جاری رکھتا ہے اور پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کے الزامات کی بھی بوچھاڑ کئے رکھتا ہے جبکہ ہمارے فوجی اور سول حکمران اپنی اپنی پالیسیوں کے تحت کبھی کرکٹ ڈپلومیسی‘ کبھی ٹریک ٹو اور شٹل ڈپلومیسی‘ کبھی ملکی اور قومی مفادات کے منافی چار نکاتی یکطرفہ کشمیر فارمولے کے تحت اور کبھی بھارت کیساتھ تجارتی اور ثقافتی مراسم استوار کرنے کی وارفتگی میں کشمیر کاز کو بھی نقصان پہنچاتے رہے اور اس موذی سانپ کو ملک کی سالمیت پر زہریلے وار کرنے کا موقع بھی فراہم کرتے رہے۔ ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچا کر ہمارے اس مکار دشمن نے دہلی میں جاری پاکستان بھارت وزراء خارجہ کے مذاکرات کی میز ہی الٹا دی۔ پاکستان کے ساتھ تمام تجارتی معاہدے منسوخ کر دیئے‘ ٹرین سروس بند کر دی‘ سفارتی تعلقات بھی تقریباً ختم کر دیئے‘ بھارت کے دورے پر جانیوالے پاکستانی وفود پر ہندو انتہاء پسندوں کے حملے شروع کرا دیئے اور دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے اعلان کر دیا کہ پاکستان اب کشمیر کو بھول جائے۔ اسکے ساتھ اب دہشت گردی کے خاتمہ کے معاملہ میں اسکی تابعدارانہ کارروائیوں کا یقین آنے کے بعد ہی دو طرفہ تعلقات بحال ہو سکتے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی کشمیر کی جانب سے پاکستان بھجوائی جانیوالی سبزیوں اور پھلوں سے لدے ٹرک بھی کنٹرول لائن پر روک لئے گئے۔ عالمی فورموں پر پاکستان کیخلاف دہشت گردی کے الزامات کی انتہاء کر دی گئی اور اسکے ساتھ ساتھ پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے کی سازشوں کا سلسلہ بھی تیز کر دیا گیا۔ ہمارا یہ شاطر دشمن آج بھی اسی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے ہماری معیشت و تجارت کو جھٹکے لگانے میں مصروف ہے اور اس نے یورپی یونین کی جانب سے ہماری تجارتی مالی معاونت کے دروازے بھی بند کرا دیئے ہیں تاکہ مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں تباہ ہونیوالی ہماری معیشت سنبھل نہ پائے۔ ہماری زرخیز دھرتی کو بدترین خشک سالی کا سامنا بھی ہمارا پانی روکنے والی بھارتی سازشوں کے نتیجہ میں کرنا پڑا جبکہ گزشتہ برس کا بدترین سیلاب بھی بھارتی مکاری کے نتیجہ میں ہم پر آفت بن کر ٹوٹا تھا کیونکہ اس سیلاب کی نوبت بھارت کی جانب سے اپنے ڈیمز کے پونڈز میں جمع کیا گیا سارا پانی ہماری جانب چھوڑنے کے نتیجہ میں آئی تھی۔
ہماری سالمیت کیخلاف ان مکروہ بھارتی سازشوں کو دیکھ کر بھی کیا ہمیں اسکے ساتھ تجارتی‘ ثقافتی اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی فکر میں مبتلا رہنا چاہیے یا اس موذی سانپ کا سر کچلنے کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے؟ بھارت کی جانب سے یورپی یونین کو ہمیں تجارتی مراعات فراہم کرنے سے روکنا ہماری تباہ حال معیشت کو سنبھلنے کا موقع نہ دینے کے مترادف ہے جو ان حلقوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے اور اپنے آقائوں کے ایجنڈے کے تحت بھارت کیساتھ امن و آشتی کی یکطرفہ تمنا کا اظہار کرکے ملک کی نظریاتی اساس کو خود بھی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور ہمارے اس دیرینہ دشمن کو ملک کی جغرافیائی سرحدوں کو کمزور کرنے کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔ سانپ سے دوستی کرکے تو اپنی زندگی اور سلامتی کی دعائیں نہیں مانگی جا سکتیں‘ اس لئے بھارتی عزائم کو دیکھ کر اسکے ہاتھوں اپنی سلامتی کی فکر کی جائے چہ جائیکہ اپنی گردن اسکے حضور پیش کر دی جائے۔
مردان کے المیے کا باعث امریکہ ہے
مردان میں پنجاب رجمنٹ سنٹر کے پریڈ گرائونڈ میں سکول یونیفارم میں ملبوس نوعمر خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا‘ جس کے نتیجہ میں 20 سیکورٹی اہلکار جاں بحق اور بیس زخمی ہو گئے‘ متاثرہ علاقے کو سیکورٹی اہلکاروں نے گھیرے میں لے لیا ہے۔
یہ نہایت المناک واقعہ ہے کہ ہماری فوج کے 20 جوان جاں بحق اور 20 زخمی ہو گئے جو کہ بہت بڑا قومی نقصان ہے۔ اگر معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے تو ایسے واقعات امریکہ کی آمد سے پہلے نہیں ہوتے تھے۔ اب کیوں ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن اتحادی ہے‘ امریکہ کے دوش بدوش ہماری ڈیڑھ لاکھ فوج بھی برسر پیکار ہے اور امریکی آپریشنز سے پاکستان میں بے تحاشہ جانی نقصان ہو رہا ہے۔ ڈرون حملے مسلسل ہو رہے ہیں اور اس میں بھی کئی بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں ایک ردعمل تو ضرور پیدا ہونا تھا‘ اگر ایک لڑکے کے خاندان کو امریکہ نے مار دیا ہو تو وہ ضرور خودکش بمبار بنے گا۔ پاکستان میں درحقیقت کوئی دہشت گردی نہیں ہو گی‘ بشرطیکہ ہمارے حکمران اب فرنٹ لائن اتحادی ہونے اور امریکیوں کو پاکستان میں آپریشنز کرنے کی اجازت دینے سے رک جائیں اور امریکہ سے معذرت کرلیں‘ اگر یہ امریکی آپریشنز ڈرون حملے بند ہو جائیں اور امریکی یہاں سے رخصت ہو جائیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خودکش افسوسناک حملے بھی ختم ہو جائینگے۔ پاکستان کو امریکہ نے دارالحرب بنا کر پاکستان ہی کا نقصان کیا ہے‘ اب بھی وقت ہے کہ امریکہ سے جان چھڑائی جائے تاکہ جوابی دہشت گردی کا سلسلہ بھی ختم ہو۔ ہماری فوج کو صرف اس لئے دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے کہ ہماری حکومت کے حکم پر وہ بھی امریکی جنگ میں شامل ہے۔
ریمنڈ پر کورکمانڈرز کا درست مؤقف
136 ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں خطے کی سلامتی اور سرحدوں کی صورتحال سمیت آپریشنل امور کا جائزہ لیا گیا اور حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کی گئی کہ امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے لہٰذا عدالت ہی اس حوالے سے فیصلہ کرنیکی مجاز ہے۔
امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے بارے پوری قوم کا ایک ہی موقف ہے کہ ریمنڈ نے دو پاکستانی شہریوں کو بلاجواز قتل کیا ہے لہٰذا اسے اس جرم کی پاکستانی قوانین کے تحت پاکستان ہی میں سزا دی جائے، حکمران طبقے کے بعد کور کمانڈرز نے بھی عوامی موقف کی حمایت کی ہے۔ جب عسکری سیاسی اور عوامی رائے ایک ہے۔ تو پھر اسے رعایت دینے کی بات مت کی جائے۔ حکومت پس و پیش سے کام مت لے، ریمنڈ کا معاملہ عدالت میں ہے۔ اسے قانون کے مطابق اپنا کام کرنے دیں۔ پاکستانی حکمرانوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ٹرائل کے وقت امریکی جیوری پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی تھی۔ امریکہ ڈرانے دھمکانے کی بجائے پاکستان سے مکمل تعاون کرے۔ ریمنڈ کے اصل نام اور پاکستان آنے کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کرے، دو دفعہ پشاور سے بلیک لسٹ ہونے کے باوجود پھر ریمنڈ کو پاکستان بھیجنے کا کیا مقصد تھا؟ اسکے ساتھ ساتھ گاڑی کی ٹکر سے عبادالرحمن کو ہلاک کرنیوالے افراد کو بھی قانون کے حوالے کرے۔ امریکہ بھی ریمنڈ کی گرفتاری کو اَنا کا مسئلہ مت بنائے، بلکہ پاکستانی عدالتوں کے فیصلے کا احترام کرے۔
حتف 7 کروز میزائل کا کامیاب تجربہ
پاکستان نے حتف 7 سیریز کے کروز میزائل کامیاب تجربہ کیاہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق زمین سے زمین پر مار کرنیوالے اس کروز میزائل کی حد 600 کلومیٹر ہے اور یہ ہر قسم کا وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان کو ایک عیار اور مکار دشمن کا سامنا ہے۔ جس نے نہ صرف تقسیم ہند کے ہر ضابطے اور قانون کے تحت پاکستان کا حصہ بننے والے خطے کشمیر پر جارحانہ و غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے بلکہ اس نے 1971ء میں پاکستان کو بھی دولخت کر دیا۔ وہ موجودہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کرتا رہتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی تیاری جاری رکھی جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کشمیر کی خاطر ہزار سال تک جنگ لڑیں گے اور اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ گھاس کھا لیں گے ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ آج تخت پاکستان بھٹو کے جاں نشینوں کے پاس ہے۔ ان کو چاہئے کہ دفاع کو مزید مضبوط بنانے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں۔ حتف جیسے نہ صرف میزائلوں کی تیاری جاری رہنی چاہئے بلکہ ان کی رینج میں اتنا اضافہ کر دیا جائے کہ دشمن ملک کے آخری کونے تک مار کر سکے۔ قوم کو حتف 7 کا کامیاب تجربہ مبارک ہو۔
گورنر صاحب بسنت نہیں‘ جشنِ بہاراں
گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ بسنت صحت مند تفریح ہے۔ دل چاہتا ہے رائیونڈ جا کر نوازشریف کیساتھ بسنت منائوں۔ تاہم اس تہوار میں کسی کا گلا نہیں کٹنا چاہئے۔
گورنر لطیف کھوسہ کو یہ تو اچھی طرح علم ہے کہ سپریم کورٹ نے بسنت منانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ تاہم مشرف اور اس کی باقیات سینہ زوری سے یہ تہوار منانے پر اصرار کرتی رہیں۔ سپریم کورٹ نے پابندی اس کھیل کے نقصانات کے باعث لگائی۔ بسنت کی تیاریاں شروع ہوتے ہی معصوم بچوں سمیت لوگوں کی گردنیں کٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ دھاتی تاروں سے بجلی کے ٹرانسفارمر اڑتے رہتے ہیں۔ پتنگیں لوٹنے والے بچے الگ سے ٹریفک میں رکاوٹ کا باعث بنتے اور کئی کچل کر مارے جاتے ہیں۔ بسنت تہوار کا سب سے زیادہ قابل نفرت پہلو یہ ہے کہ یہ ہندوئوں کا تہوار ہے۔ جِسے وہ شاتم رسول حقیقت رائے کی یاد میں مناتے ہیں۔ جس کو سولہویں صدی کے وسط میں توہین رسالت پر لاہور کے گورنر نواب زکریا نے کوڑے لگانے کے بعد پھانسی لگا دی تھی۔ شاید گورنر لطیف کھوسہ سے بسنت کے آغازِ کار کا یہ پہلو آج تک پوشیدہ رہا ہو۔ ہمیں تو بطور مسلمان ایسے تہوار کی کھل کر مخالفت کرنی چاہئے جس سے شاتمِ رسول کی یاد وابستہ ہے۔ آپ جشنِ بہاراں بڑی دھوم دھام سے منا سکتے ہیں۔ لطیف کھوسہ بڑے اعلیٰ درجے کے وکیل منجھے ہوئے سیاستدان اور مذہب سے گہرا لگائو رکھتے ہیں۔ وہ بسنت کے بجائے جشنِ بہاراں منانے رائیونڈ جائیں اور بے شک تھوڑا سا آگے تبلیغی مرکز بھی ہو آئیں۔