ایسوسی ایشنز پر خرچ کی گئی رقم آٹے میں نمک کے برابر ہے:نعمان بٹ
لاہور(نمائندہ سپورٹس+سپورٹس رپورٹر) پاکستان کرکٹ بورڈ کے گورننگ بورڈ کے رکن نعمان بٹ کا کہنا ہے کہ بورڈ کی طرف سے ایسوسی ایشنز پر خرچ کی گئی رقم آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ بورڈ کے فنڈز کا بڑا حصہ اعلیٰ عہدے داران کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہوتا رہا ہے۔ موجودہ دور میں تو یہ اخراجات ہوش اڑا دینے والے ہیں۔ بورڈ کے پانچ اہم افراد کی پانچ برس کی تنخواہوں اور مراعات کا حجم تقریباً ستر کروڑ روپے بنتے ہیں بیرون ملک دوروں کے اخراجات الگ ہیں۔ یہ اخراجات اس رقم سے دگنے ہیں جتنے پی سی بی نے گذشتہ پانچ برس میں پورے پاکستان کے سولہ ریجنز اور ستانوے اضلاع پر خرچ کیے گئے ہیں۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر وسیم خان تیس لاکھ، مصباح الحق پینتیس لاکھ، سی ایف او بدر منظور خان اٹھارہ لاکھ، ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی پندرہ لاکھ اور باؤلنگ کوچ وقار یونس کو ماہانہ اٹھارہ لاکھ روپے دیے جا رہے ہیں۔ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ اسی تناسب سے رقم کرکٹ کے فروغ پر خرچ کر رہا ہے۔ چھ صوبائی ٹیموں کے کرکٹرز کو بھی صرف پچاس ہزار ماہانہ کا کنٹریکٹ دیا گیا ہے۔ بورڈ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ پانچ برس میں 317.2 ملین روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پی سی بی نے ماہانہ ترپن لاکھ اور سالانہ چھ کروڑ تیس لاکھ ایسوسی ایشن کے ذریعے کھیل کے فروغ پر خرچ کیے ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پاکستان کرکٹ بورڈ کو تیرہ ملین ڈالر کھیل کے فروغ پر خرچ کرنے کیلئے دیتا ہے یہ رقم ملک میں کرکٹ کے فروغ اور انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے پر خرچ ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے کبھی یہ رقم بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے پر خرچ نہیں کی گئی اس کے برعکس بورڈ کے فنڈز کا بڑا حصہ اعلی عہدیداروں کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہوتا رہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں کو برا بھلا کہا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سارا سال اپنی جیب سے خرچ کر کے میچز کرواتے ہیں۔ ایسوسی ایشنز کے عہدے داران ذاتی فنڈز سے گراؤنڈز کو کھیل کے قابل بنائے رکھتے ہیں۔ ان ریجنز میں ایک سال کے دوران بارہ ہزار سے زائد کرکٹ میچز کا انعقاد کروایا گیا ہے اتنے کم فنڈز میں اتنی بڑی تعداد میں میچز کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کرکٹ بورڈ کو آئی سی سی کی طرف سے ملے کئی ملین ڈالرز کے ترقیاتی فنڈز کہاں خرچ ہوتے ہیں اور کرکٹ کی اصل تباہی کا ذمہ دار کون ہے۔ بورڈ کو تمام فنڈز اور آمدن کی تفصیلات کو عام کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کے نوجوان کرکٹرز یہ جان سکیں کہ ان کی فلاح کیلئے ملنے والی رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے۔