بدھ‘ 13 ؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 11 ؍ دسمبر 2019ء
عازمین حج کی جمع رقم پر بنکوں سے سود لیا جاتا ہے‘ وزارت مذہبی امور
اب اس کا فیصلہ تو مفتیان کرام ہی کریں گے کہ اس پیسے سے یعنی حج کے لئے جمع کرائی گئی رقم سے کاروبار کرنا اور اس پر سود لینا جائز ہے یا ناجائز۔ ایک بات البتہ واضح ہے کہ سود حرام ہے۔ ہماری وزارت مذہبی اموراس بارے میں بہرحال ہم سے تو زیادہ ہی جانتی ہے۔ حرام کا ناجائز پیسہ اچھے کاموں پر لگانے سے کیا جائز بن جاتا ہے۔ حلال ہو جاتا ہے۔ اسکے بارے میں وہ لوگ زیادہ جانتے ہیں جو سود کے حرام کے مال سے مساجد ‘ مزارات بناتے ہیں ۔ حج و عمرے کرتے ہیں۔ نذر نیاز صدقہ خیرات کرتے ہیں ۔ معلوم نہیں یہ لوگ خود کو دھوکہ دیتے ہیں‘ یا اوپر والے کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سرسید کے دور کا واقعہ ہے کہ انہوں نے مسجد کی تعمیر کے لئے ایک مرتبہ بازار حسن کی طوائفوں اور پیشہ ور عورتوں سے بھی چندہ لیا یا انہوں نے چندہ دیا تو اس پر بہت شور اٹھا۔ علما سے لے کر عوام تک لٹھ اٹھائے ان کے پیچھے پڑ گئے تو انہوں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ رقم (جو حرام کی کمائی سے تھی) وہ یہ رقم بیت الخلا اور استنجا خانے کی تعمیر پر خرچ کریں گے۔ اس طرح لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہوا۔ اب وفاقی وزارت مذہبی امور والے کہہ رہے ہیں کہ حجاج کے رقم سے ملنے والا سود حجاج کو ویکسین پلانے ان کی تربیت ان کی دوائوں اور میڈیا مہم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ یا اللہ خیر یہ کیا الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔یہ حرام کی رقم الٹا انہی حاجیوں پر لگائی جاتی ہے جو اپنے پہلے کے گناہ بخشوانے جا رہے ہوتے ہیں۔ اب یہ نیا مسئلہ درپیش ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے۔ کیا اس بات کا حجاج کو علم ہے۔ کیا یہ نیکی برباد اور گناہ لازم والی بات نہیں کہ حج اور عمرہ پر جانے والوں کو اس حرام رقم سے دوا دارو اور تربیت دی جاتی ہے۔
٭…٭…٭
سری لنکا اور پاکستان کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا پہلا کرکٹ میچ آج ہو گا
سب سے پہلے تو ہم سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں ان کی وزارت کھیل اور سری لنکن حکومت کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے 10 سال کے طویل عرصہ بعد ایک بار پھر سری لنکا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ رابطے بحال کر کے پاکستانیوں کے دل جیت لئے۔ راولپنڈی میں ہونے والے اس میچ کے لئے وہاں کے لوگ بھی بہت پر جوش ہیں۔ آہستہ آہستہ پاکستان میں کھیلوں کے مقابلے کی فضا پھر بننے لگی ہے۔ ہمارے کھیلوں کی گرائونڈز آباد ہو رہی ہیں۔ غیر ملکی ٹیمیں پاکستان کو محفوظ ملک تسلیم کر کے یہاں کھیلنے کے لئے آمادہ ہو رہی ہیں۔ ساڑھے دس سال قبل سری لنکا کی ٹیم پر بعض وطن دشمن اور کھیل دشمن دہشت گردوں نے لاہور میں حملہ کر کے پاکستان پر کھیلوں کے دروازے بند کرا دیئے تھے۔ شکر ہے اس حملہ میں سری لنکن کھلاڑی محفوظ رہے۔ اب خدا خدا کر کے حالات بہتر ہوئے ہیں تو سری لنکا کی ٹیم پاکستان میں کھیلنے کے لئے آئی ہے۔ پاکستان میں ان دوستوں کو گرم جوشی سے خوش آمدید کیا جا رہا ہے۔ وہ بھی حالات میں بہتری اور عوام کی محبت دیکھ کر مطمئن اور خوش ہیں۔ آج کے میچ میں عوام کی بھرپور شرکت اس بات کا ثبوت ہو گی کہ پاکستان میں پر امن اور کھیلوں سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ ہار جیت کسی کی بھی ہو اچھا اور جم کر مقابلہ کرنا کھلاڑیوں کی سپورٹس مین سپرٹ کو ظاہر کرتا ہے۔ آج دونوں ٹیمیں جیت کا عزم لے کر راولپنڈی میں ایک دوسرے سے نبروآزما ہوں گی…۔
٭…٭…٭
بجلی ٹرپنک روکنے کے لئے 3450 کلومیٹر لائنوں میں درختوں کی صفائی کا کام مکمل کر لیا ہے ‘ چیف ایگزیکٹو لیسکو۔
قربان جائیے اس سرجن کے جو گردے کے آپریشن کی بجائے آپریشن تھیٹر میں مریض کے گھٹنے کا آپریشن کر کے مریض کے گھر والوں کو باہر نکل کر کامیاب آپریشن کی نوید سنائے۔ ہمارے لیسکو چیف یعنی لاہور میں بجلی کی فراہمی اور بلوں کی وصولی کے مدار المہام کا یہ فرمان عالی شان بجلی کے کھمبوں پر لٹکائے جانے کے لائق ہے۔ بجلی کی ٹرپنگ اور لائن لاسز روکنا ایک اہم کام ہے۔ اچھا کام ہے مگر یہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔ سب سے پہلا کام بجلی کی چوری روکنا ہے۔ جس میں لیسکو کی کارکردگی صفر ہے۔ لاہور میں کروڑوں کے حساب سے ماہانہ بجلی چوری ہوتی ہے مگر اس طرف نظر نہیں جاتی یہ سب سے اہم مسئلہ ہے اسکا بوجھ غریب صارفین پر پڑتا ہے جو دوسروں کے گناہوں کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں اور حکومت کا بھی بے حد نقصان ہوتا ہے۔ ہر محلے میں صنعتی زون میں تجارتی مرکز میں بازار میں لیسکو کے چہیتوں کی بدولت یہ مرض عام ہے‘ چند ہزار دے کر لاکھوں کابل بچایا جاتا ہے۔ خاص و عام اس گنگا میں سرعام نہاتے ہیں۔ اس کے خلاف اسی لئے کارروائی نہیں ہوتی کہ یہ لیسکو والوں کی مہربانی سے ہوتا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ بجلی کی لاگت ہے۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ پانی سے بننے والی بجلی کی لاگت 8پیسہ فی یونٹ ہے جو 13 روپے فی یونٹ کے حساب سے عوام کو بیچی جاتی ہے۔ اس میں کمی لائی جائے۔ تا کہ عوام کو ریلیف ملے بجلی کی ٹرپنگ پہ قابو پانے کی کوشش بھی ضروری ہے مگر اس کے نام پر ٹہنیوںکی جگہ درختوںکا قتل عام کہاں کا انصاف ہے۔ وزیراعظم اسکا نوٹس لیں۔ جو سرسبز پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔
٭…٭…٭
فن لینڈ کی سانا مارین دنیا کی سب سے کم عمر وزیراعظم بن گئیں
34سال کی عمر میں اتنا بڑا عہدہ ملنا واقعی بڑے نصیب کی بات ہے۔ وہ اوپر سے مخلوط حکومت کو سنبھالنا اور چلانا۔ یہ تو دل گردے کی بات ہے۔ دیکھتے ہیں سانا مارین اس نازک اور اہم ذمہ داری سے کس طرح نبھاہ کرتی ہے۔ یورپ میں تو خواتین گھریلو ذمہ داریوں شوہر اور بچوں کی ناز برداریوں سے آزادی چاہتی ہیں۔ ایک یورپی ملک میں اتحادیوں کو جمع رکھنا اور خوش کرنا بھلا کیسے آسان ثابت ہو گا۔ عالم اسلام میں پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو جہاں پہلی مسلم خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے ساتھ ہی انہیںسب سے کم عمر خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ اب فن لینڈ کی سانا مارین نے یہ اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ وزیراعظم کی کرسی بے نظیر کے لئے تو پھولوں کی سیج کم اور کانٹوں بھری سیج زیادہ ثابت ہوئی۔ اپنوں اور غیروں کی مہربانیوں سے وہ دو مرتبہ وزارت عظمی کی مدت پوری نہ کر سکیں۔ یورپ میں جمہوریت مستحکم ہے وہاں شاید محلات کی سازشی تھیوریاں زیادہ کامیاب نہ ہوں۔ مگر اتحادیوں کے ساتھ چلنا کتنا مشکل ہے۔ سانا مارین کو اس کا اندازہ جلد ہو گا۔ اگر وہ چاہیں تو ہمارے وزیراعظم سے جو ان سے بہت سینئر ہیں اور اتحادیوں کے ساتھ حکومت بھی چلا رہے ہیں‘ مشورے لے سکتی ہیں حکومت چلانے کے۔