اتنا نہ بڑھا پاکی ٔ دامن کو
مکرمی! یہ کس قدر عجیب و غریب ہے کہ پہلی جماعت پڑھا کہے کہ میں دسویں جماعت کا استاد بننا چاہتا ہوں یا یہ کہ میٹرک فیل کہے کہ میں ایم اے کے پرچے چیک کروںگا۔ کچھ ایسا ہی مطالبہ پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے کیا گیا ہے اور ان کا مطالبہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ تو اس کے لیٔے قانون بنانے جا رہے ہیں کہ وہ ججوں کا انٹرویو اور ٹیسٹ لیںگے۔ ہے نہ درفنطنی ؟ کہاں پڑھے لکھے اور قانو ن دان اور کہاں یہ لوگ جنہیں کسی قانوںکا علم تو کیا ہونا ہے، عام دنیاوی علوم کی سدھ بدھ بھی نہیں۔ یہ وہ ہیں جو بازار میں بکنے والے تین سو روپے کلو ٹماٹر کا بھاؤ سترہ روپے بتاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم معزز اور اہل علم ججوں کا انٹرویو اور ٹیسٹ لینگے۔ کہاںراجہ رسالو اور کہاں گنگا تیلی ؟ عوام کو الو بنا کر اسمبلی کی رکنیت کیا حاصل کرلی، اپنے آپ کوسب سے برتر گرداننے لگے۔ ارے بھئی! پہلے اس قابل تو بنو، پھر یہ مطالبے کرنا اور عدلیہ کے معاملات میں گھسنے کی کوشش کرنا۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیٔے۔ اگر اتنا ہی شوق ہے تو ججوں کے امتحان اور انتخاب کے لیٔے ایک ایسا ادارہ بنا دیں جس کی کسوٹی سے کوئی بھی ایسا ویسا امیدوار نہ نکل سکے اور صحیح اور بیداغ و بیباک وغیرجانبدار امیدوارہی منتخب ہو کر آ سکیں۔(میاں محمد رمضان ایل ایل بی قائداعظم ٹائون لاہور)