وزیر آغا کا مکتب
سلیم آغا‘ مرے آغا‘ وزیر آغا کی
تابندہ نشانی تھے
مرے مخدوم کی اک آخریں
روشن کہانی تھے
روائے ہجراوڑھے
اک ستارہ قزلباشوں کا
سمائے حرف ومعنی سے
تو اکتوبر کے پیلے ملگجے پتوں کا
پژمردہ کفن ہے
دبستان وفا میں سوگیا ہے
کھو گیا ہے وہ
وزیر آغا کا مکتب سوگواری کی اذیت میں
عجب ویرانیوں میں گھر کیا ہے‘ اشک افشاں ہے
نظر دشمن کی تجھ کو کھا گئی ہے
مرے آغا
قیامت ڈھاگئی ہے موت کی
آندھی ترے گھر پر
تراپرا کہاں میں لے کے جاؤں
کسمپرسی میں
کہ اب تو خاک سرگودھا میں
قبروں کے سوا کیا ہے
وہ دو قبریں مرے آغا کی
اور ان کی رفیقہ کی
کہ جن کے درمیان لاچار بیٹی بین کرتی ہے
اور اپنے بھائی کے غم میں وہ
رو کر ہوگئی پتھر
وہ پتھر ہے ‘ میں پتھر ہوں
مگر ان پتھروں کی آنکھ سے آنسو ٹپکتے ہیں