,,سیاسی مہرے،،
پی ٹی آئی حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان نیازی کرپشن اور منی لانڈنگ کے خلاف ایجنڈا لے کر ایوان اقتدار میں آئے۔ یہ ایک بحث طلب بات ہے کہ عمران صاحب آئے یا لائے گئے۔ کہا جاتا تھاکہ1970کے انتخابات سب سے زیادہ شفاف تھے مگر حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کیا تو حقائق برعکس تھے اور وہ سازش بھی عیاں ہو گئی جس کے نتیجے میں ملک میں دولخت ہو گیا۔ ہم نے یا مقتدر اداروں نے آج بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور جوں کا توں اُنہی فا رمولوں پر عمل پیرا ہیں۔ اپنے مہروں کو حکومت میں لاکر ملک بہت کچھ کر رہے ہیں۔پہلے بھٹو کو لایا گیا تو چند عرصے بعد ہی اُ س سے تنگ آگئے۔ جب بھٹو نے باور کرایا کہ وہ وزیراعظم اور طاقت کا سرچشمہ ہیں تو پھانسی اُن کا انجام بنی ۔ پھر بھٹو خاندان کے مقابلے میں نواز شریف کو لا یا گیا۔ نواز شریف کو بھی سیاست میں لانے کا ایک عجیب وغریب واقعہ ہے۔ ایک انتہائی سینئیر صحافی نے نواز شریف کی جنرل ضیاء سے پہلی ملاقات کا قصہّ بیان کیا ۔ یہ واقعہ سچ ہے یا غلط اس بحث کو چھوڑیے۔ یہ 1979یا 1980کا دور ہے جب جنرل ضیاء الحق لاہور دورے پر تشریف لا رہے تھے اور اُنہوں نے پنجاب کے بڑے بڑے کاروباری حضرات سے ملاقات کرنی تھی۔ یہ تمام کارورباری حضرات ایک لائین میں کھڑے تھے اور جنرل ضیاء سے ایک ایک کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔ اس ملاقات کے لئے میاں شریف صاحب کو بھی مدعو کیا گیاتھاجن کے ساتھ اِن کے بڑے صاحبزادے، نواز شریف بھی تھے۔ ترتیب کے مطابق لائین میں نواز شریف اپنے والد میاں شریف سے پہلے کھڑے تھے۔ جب جنرل ضیاء الحق مصافحہ کرتے ہوئے نوا ز شریف تک پہنچے اور ہاتھ ملانے کے لئے نواز شریف کی طرف ہاتھ بڑھایا تو نوازشریف نے فوراََ اپنے والد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ پہلے میرے والد‘‘ یہ واقعہ جنرل ضیاء الحق کے لئے حیران کن تھا اور وہ میاں شر یف او ر اِن کے نوجوان سے بہت متاثر ہوئے ۔ چند لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وہ لمحہ تھا جب جنرل ضیاء کی اصل نظر نواز شریف پر پڑی۔ اُس کے بعد میاں نواز شریف کا میابیوں کی سیڑھیاں چڑتے ہوئے1990 میں وزیراعظم بن گئے ۔ مگر جب نواز شریف نے بطور وزیراعظم اپنے اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کی تو ایک مرتبہ پھر بھٹو اور بینظیر کی طرح مقتدر اداروں کے بائیں جانب آگئے اور آخر کار تمام کارناموں کے باوجود پہلے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل ہوئے اور بعد میں 2018کے انتخابات کے دوران جیل میں قید وبند کی صوبتیںجھیلتے رہے تاکہ عمران نیازی کا راستہ صاف کیا جاسکے۔یوں عمران خان نیازی اِن اداروں کے ایک نئے رفیق کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اگر کچھ عرصے بعد عمران خان نیازی بھی اپنے آپ کو منتخب وزیراعظم سمجھ بیٹھیں گے تو یقینا دونوں میں ٹھن جائے گی اور ساتھ ہی خادم حسین رضوی کی ضمانت بھی ہو جائے گی۔
عمران نیازی کو 2018 کے انتخابات میں فائدہ پہنچانے کے لئے ہمارے سجنوںنے کھلم کھلا وہ تمام حربے استعمال کئے جس سے مسلم لیگ ن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو مگر ایسا نہ ہو سکا۔ شریف خاندان میں بھی پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر یہاں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ناقدین نے یہ پراپگینڈہ بھی کیا کہ مریم نوازکو سیاست میں لانے کے فیصلے پر شریف خاندان اور پارٹی میں اختلافات ہیں۔ مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کے قریبی ذرائع سے معلوم ہوا کہ نواز شریف اپنی بیٹی کو سیاست میں لانے کے خلاف تھے مگر یہ فیصلہ محترمہ بیگم کلثوم نواز نے شریف خاندان اور مسلم لیگ کے اکابرین سے مشاورت کے بعد کیا تھا۔ شاید میاں نواز شریف آج بھی مریم نواز کے سیاست میں رہنے کے خلاف ہیں مگر اب دیکھا یہ گیاہے کہ نواز شریف کے بعد عوامی لیڈر صرف مریم نواز ہی ہیں۔ شہباز شیریف اور حمزہ شریف دونوں انتظامی امور کے ماہر ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب عوامی لیڈر اور انتظامی ماہر ساتھ مل جائیں تو سیات اور انتظامیہ دونوں میں ہی بہتری لائی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت شدیدانتظامی اور معاشی بحران ہے۔پی ٹی آئی کے اکثرلیڈر کام کم اور فضول زبان زیادہ چلاتے ہیں۔ بے موقع اور بے محل باتیں کرنا اُن کا شیوہ ہے۔ عمران نیازی سمیت کوئی بھی کنٹینر سے اترنے کو تیار نہیں۔بس ایک ہی تقریر جو 2014 میں رٹائی گئی تھی وہی ہر موقع پر چھاڑ دیتے ہیں۔ بغیر منصوبہ بندی اور سوچ و بچار کے ہوا میں شوشہ چھوڑ دیتے ہیں اور بعد ازاں دفاع کرنے سے قا صر رہتے ہیں۔ اپنی ہی کہی ہوئی بات اور بیان سے مُکر جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یو ٹرن لینے والا اصل لیڈر ہوتا ہے۔اپنے جھوٹ اور یو ٹرن کا دفاع کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر بے تُکی تاریخ بیان کرتے ہیں۔مثلاََ پی ٹی آئی کی سو شل میڈیا نے عمران نیازی کے’’ یو ٹرن والے بڑے لیڈر ہوتے ہیں‘‘ کے بیان کے دفاع میں کہا کہ قائداعظم نے بھی یوں ٹرن لیا تھااور وہ کانگرس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے۔ حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ قائد اعظم 1906 میں کانگریس میں شامل ہوئے اور دوسری جانب 1906میں ہی مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ بعد ازاں قائد اعظم 1914میں کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ میں بھی شامل ہو گئے۔ قائد اعظم تحریکِ خلافت تک دونوں سیاسی جماعتوں کا حصہ رہے مگر جب کانگریس نے رورایتی چالا کی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک ِخلافت کے موقع پر مسلم لیگ کا ساتھ نہ دیا تو قائد اعظم نے کانگریسی لیڈروں کے روایئے سے مایوس ہو کر کانگریس کو خیرآباد کہہ دیا او ر اب صرف مسلم لیگ کا حصہ بن گئے۔ اس میں یوٹرن والی بات کہیں نظر نہیں آتی مگر چونکہ پی ٹی آئی کو تمام قتل معاف ہیںلہذا ان کے کارکن فضول اور بے تُکی باتوں کا دفاع کرنے کے لئے الٹی سیدھی تاریخ بھی بیان کرنے سے نہیںکتراتے ۔ مجھے یقین ہے یہ سلسلہ شاید زیادہ دیر نہ چل سکے۔ اگر ملک اسی طرح بحرانوں کا شکار رہا تو یقینا ان اداروں کو دوبارہ مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی سے رجوع کرنا ہو گا اور ان دونوں پارٹیوں خصو ضاََ مسلم لیگ کو راستہ دینا ہوگا ورنہ آنے والے کسی بڑے بحران کی ذمہ داری اِن اداروں پر بھی عائد ہو گی۔